کالاش کہانی


مورین لائنز کا کہنا ہے 'مذہبی تبدیلی سے یہ سب ختم نہیں ہورہے اور یہی سب سے اہم خبر ہے' ۔

مورین لائنز قبائیلیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ایک مصنفہ، دیہاتی ڈاکٹر، اور فوٹو گرافر بھی ہیں جنہیں 1981 میں ایک کالاش خاندان نے اپنی قبیلے کا فرد بنایا تھا۔ اس لحاظ سے دنیا کے اس حیرت انگیز قبیلے پر کام کررہی ہیں۔

جنوبی لندن میں رہنے والی مورین لائنز کو 2004 میں پاکستانی شہریت دی گئی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ طالبان نہیں جو کالاش کو ماررہے ہیں بلکہ ' ترقی کے نام ' پر تعمیرات سے ان کیلئے خطرہ ہیں۔ کالاشا کیلئے ٹیررسٹ ( دہشتگرد) نہیں بلکہ ٹورسٹس ( سیاح) اصل خطرہ ہیں۔

اس قبیلے کی شہرت ان افواہوں کی وجہ سے بھی ہے کہ ان کا تعلق سکندرِ اعظم سے ہے، یہ کئی خداؤں کی پوجا کرتے ہیں اور قدامت پرست صوبہ خیبرپختونخواہ میں اپنی شراب خود بناتے ہیں۔ ان کے حسین و رنگین لباس ہندو و آریائی خدوخال کی وجہ سے سیاح بڑی تعداد میں انہیں دیکھنے کیلئے چترال اور کالاش وادی کا رخ کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ایک حد تک پراسراریت میں گھرے اس قبیلے کو جب بھی دہشتگرد دھمکاتے ہیں میڈیا کے ذریعے ان کی گونج ایک دنیا میں پھیل جاتی ہے۔

مورین نے کہا کہ ' طالبان کی پریشانی سے ہٹ کر اصل خطرہ اراضی کا بھی ہے' ۔ ان کے مطابق یہاں بننے والے ہوٹل قدرتی حسن کو تباہ کررہے ہیں اور درختوں کا غیر قانونی کٹاؤ علاقے میں سیلاب کے خطرے میں اضافہ کررہا ہے۔

مورین لائنز جو وادی بی بی ڈاؤ کے نام سے پکاری جاتی ہیں نے کہا کہ زمین کے مسئلے کے علاوہ باہر سے بڑی تعداد میں گھس آنے والے لوگوں اور ان کی جانب سے دیواروں ، حدود اور رکاوٹوں کی تعمیر سے قبیلے کی سماجی ترتیب متاثر ہورہی ہے۔

کالاش وادی میں ایک مقام بمبورٹ ( یا مومرٹ) وادی میں بڑے پیمانے پر عمارتیں بنائی جارہی ہیں۔ اسی کے ساتھ رومبر ( یا رمبور) اور بریر وادیاں بھی ہیں۔ ہندوکش کنزرویشن ایسوسی ایشن کے مطابق اس علاقے کی کل آبادی 10,000 افراد پر مشتمل ہے جن میں سے کالاش افراد کی تعداد ایک تہائی سے بھی کم ہے۔

اتنی چھوٹی آبادی پر مشتمل قبیلہ اب دوسرے صوبے سے آئے ہوئے تاجروں اور بزنس مین حضرات کے ترقیاتی حملوں کی زد میں ہے اور کئی خوفزدہ ہیں کہ اس طرح کالاش طرزِ زندگی بہت جلد ماضی کی شے ہوکر رہ جائے گا۔

کالاش سے وابستہ ایک اور تنظیم ، کالاش انڈیجینئیس سروائیول پروگرام کی سربراہ ، لکشن بی بی کے مطابق تاجروں کی جانب سے ہوٹلوں اور ریسٹ ہاؤس کی تعمیر میں علاقے کے تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا جبکہ یہ بھی نہیں سوچا گیا کہ ان کاموں سے کتنا ' تہذیبی خلل' واقع ہوگا۔

دنیا بھر میں قبائلیوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی ایک تنظیم ' سروائیول' مسلسل ان تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات سے آگاہ کرتی رہی ہے۔ اس کے مطابق ان قبائلیوں کے روایتی طرزِ رہائش کو ختم کرنے سے ان کا معیارِ زندگی بلند نہیں ہوگا بلکہ یہ ' غیر روایتی اور انوکھے پن کی شناخت کھوکر سڑک کنارے کچی آبادیوں میں بکھرے بے روزگار، سختیاں جھیلنے والے اور دوسروں کے محتاج ہوجائیں گے۔

تحریر: تیمور سکندر


صرف تعلیم ہی واحد حل ہے


ایک بے باک اور بہادر سید گل کالاش نے کہا ' ہم جینے والے لوگ ہیں اور گزشتہ 3000 سال سے رہ رہے ہیں۔ کالاش کے لوگ کوئی عجوبہ نہیں کہ جنہیں عجائب گھروں کی زینت بنادیا جائے' ۔

ستائیس سالہ گل ، کالاش برادری کی پہلی سائنسداں اور آثارِ قدیمہ کی ماہر ہیں۔ ان کے مطابق تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ان کا قبیلہ ' پسماندہ ' رہا ہے اور اپنے حقوق سے بھی ناواقف ہے۔ ان کی سینکڑوں سال پرانی تاریخ اور تہذیب کو قومی ڈیٹا بیس میں باقاعدہ شناخت ملنا ضروری ہے۔

گل جو اپنی برادری کی پرزور ترجمان ہیں نے بتایا کہ' اگر میرے پاس تعلیم نہ ہوتی تو میں اس مقام تک نہ پہنچ پاتی۔۔۔میں اپنے اقدار کو اہمیت دیتی ہوں اور تعلیم حاصل کرنے کے بعد میں اپنی تہذیب کی اہمیت سے اور ذیادہ واقف ہونے لگی ہوں'۔

ان کے مطابق وہ اپنی زبان، ثقافت، آرٹ اور دیگر عناصر کو زندہ رکھنے کی کوشش کررہی ہیں۔

'ہمیں ایک جانب تو باہر نکل کر علم حاصل کرنا اور ملازمت کرنی ہیں جبکہ اسی دوران اپنے کلچر اور اقدار سے مخلص بھی رہنا ہے۔ میرے جیسے کئی لوگ ہیں جنہوں نے تعلیم حاصل کی لیکن اپنا خاص طرزِ زندگی ترک نہیں کیا۔ درحقیقت ( اس طرح) ہم اپنے رہن سہن کو بہتر انداز میں محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ '

واضح رہے کہ کالاش وادی اور کالاشا کو یونیسکو کی عالمی وراثت کا حصہ بنانے کیلئے کئی درخواستیں دی جاچکی ہیں لیکن اس سے قبل پاکستان میں اس کا اعتراف اور قدر افزائی ضروری ہے۔


کچھ یادیں، کچھ باتیں


مورین لائنز

پاکستان! کیا تم مذاق کررہی ہو! اس زمین پر پاکستان ہی کیوں؟' اور وہ 1980 کا عشرہ تھا ۔۔۔ ان دنوں پاکستان سیاحت کے عالمی نقشے سے غائب تھا؛ ایک سنجیدہ اور بوڑھی خاتون سیاح کے لیے وہ ( پاکستان ) نامعلوم سرزمین پر بستا تھا اور بیک پیکرز سیاح نے اس کے زبردست امکانات کو تلاش نہیں کیا تھا، بلکہ وہ تو صرف افغانستان جانے والے ہپی کے راستوں کو جانتے تھے۔

میرے دوست نے عین اسی مشکوک لہجے میں اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ' میں نے سمجھا تم شمالی افریقہ کے پار جا رہی اور پھر وہاں سے جنوبی افریقہ'۔

پھر سچ تو یہ ہے کہ میں نے اس کا ارادہ کرلیا۔ لیکن ایک رات قبل میں نے بی بی سی پر ایک ڈاکیومینٹری دیکھی جو شمال مغربی پاکستان میں کالاش لوگوں کے بارے میں تھی۔ تاریخ سے محبت ہونے کی وجہ سے مجھے ہمیشہ ایسی چیزوں سے محبت رہی ہے۔ میرا تصور ( اس وقت کے صوبہ سرحد) کے سحر اور عشق میں گرفتار ہوگیا جہاں دور دراز پہاڑوں پر یہ لوگ بستے تھے۔ پھر میں نے ارادے کو تھوڑا بدلا اور پاکستان کا رخ کیا۔

--- فوٹو مرتضی منکانی

تبصرے (2) بند ہیں

Aamir May 24, 2014 10:09am
Thank you Maureen! for all this great work and translating into a great effort to save Kalash people and their unique culture. Indeed, this work should have done be local people also. But here people have more concern to convert Kalashi people's religion, rather than to save their originality and cultural identity. my best wishes and support is with you (Y)
Adnan Ahmad May 26, 2014 12:47pm
Thank you Maureen! for your work to protect the kalashian and also their culture.Their culture is now on ending because they have many problems.