نظر کا دھوکا

06 دسمبر 2013
السٹریشن: سٹار میگزین
السٹریشن: سٹار میگزین

"تم تصویریں لاؤ، جنگ مجھ پر چھوڑ دو" یہ قول ولیم رینڈولف ہرسٹ سے منسوب ہے، ایک امریکی اخبار کے پبلشر، ممتاز میڈیا شخصیت اور اس شعبے کے سرپرست اعلیٰ جسے آج "زرد صحافت" کہا جاتا ہے-

کہانی کچھ اس طرح سے شروع ہوتی ہے: جب کیوبا اسپین کے زیر انتظام تھا، اس وقت ہرسٹ نے اپنے اسٹاف آرٹسٹ فریڈرک کو اس ہدایت کے ساتھ ہوانا بھیجا کہ وہ وہاں اسپینی حکومت کےظلم و ستم کے حال احوال کی پوری تفصیل، اس کی تصویروں کے ساتھ جو وہ مقامی آبادی پر کر رہی ہے، اسے بھیج دے- جب ریمنگٹن نے بذریعہ تار خبر دے کر ہرسٹ کو بتایا کہ وہاں تو بالکل امن و سکون ہے، تو کہا جاتا ہے کہ ہرسٹ کا ردعمل مندرجہ بالا قول تھا-

جہاں تک اس بات میں سچائی ہے کہ ہرسٹ کا شمار سنسنی خیزی اور جنگ جوئی کی صحافت کے بانیوں میں ہوتا ہے، اور یہ کہ وہ امریکہ اور اسپین کے درمیان جنگ کے بڑے حامی تھے، یہ بات پوری طرح واضح نہیں ہے کہ ان دونوں کے درمیان یہ بات واقعی ہوئی تھی-

اس کا مطلب بہرحال یہ نہیں ہے کہ جو سبق ہمیں اس واقعہ سے ملا ہے اس کی اہمیت کم ہوگئی ہے، اور وہ سبق یہ ہے کہ تصویریں کافی پراثر ہوتی ہیں، غالباً بہت زیادہ پراثر-

ہاں، یہ ایک کافی فرسودہ جملہ ہے کہ ایک تصویر ہزاروں الفاظ کے برابر ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ بات درست نہیں ہے- بلکہ اس کے بالکل برخلاف- حقیقتاً، گھسے پٹے فرسودہ جملے بار بار دہرانے کی وجہ سے فرسودہ ہوجاتے ہیں، اور باربار دہرائے جانے کی وجہ ہی یہی ہے کہ اس میں زیادہ تر سچائی ہوتی ہے-

لیکن، محظ اس وجہ سے کے ایک تصویر بہت جاندار ہے، یا دنیا کے بارے میں آپ کے مخصوص نقطہ نظرسے مطابقت رکھتی ہے، ضروری نہیں کہ واقعی وہ تصویر صحیح بھی ہے-

چلئے اس بات کو واضح کرنے کیلئے ایک کیس کو لیتے ہیں: راولپنڈی فسادات کے بعد، جب کہ میڈیا کا رول معمول کے برخلاف بے حد ذمہ دارانہ تھا اور انہوں نے کوئی بھڑکانے والی بات نہیں کی، بہت سارے لوگوں نے خبروں اور تصویروں کیلئے سوشل میڈیا کا رخ کیا، غالباً لوگوں کو میڈیا کی طرف سے مایوسی ہوئی تھی کہ ماضی میں ایسے موقعوں کے مقابلے میں، --جب وہ ان چیزوں کو بیک گراونڈ موسیقی وغیرہ کے ساتھ براہ راست ٹی وی اسکرین پر دیکھا کرتے تھے-- جتنی خوںریزی وہ سمجھ رہے تھے اتنی نظر نہیں آئی-

سوشل میڈیا نے البتہ انہیں مایوس نہیں کیا- وہاں بہت ساری تصویریں ہماری بھوک اور غصہ کی تسکین کے سامان کے طور پر موجود تھیں- گلے کٹے ہوئے لوگوں کی تصویریں، ذبح کئے ہوئے بچوں کی تصویریں، غرض کہ یہاں پکا ثبوت موجود تھا کہ میڈیا اس حقیقت کو چھپارہا تھا کہ راولپنڈی میں حقیقتاً کیا ہوا تھا-

لیکن، اصل میں، یہ سب ایک جھوٹ تھا۔ وہ تصویریں دراصل شام اور دوسرے متصادم علاقوں کی تھیں- جو سفاکی ان تصویروں میں دکھائی گئی تھی وہ صحیح تھی، جی ہاں، لیکن کسی دوسرے ملک کی تھی، اور کبھی کبھی کسی اور زمانے کی-

انہیں پسند کیا گیا، شیئر کیا گیا اور بہت تشہیر بھی کی گئی- کچھ نے کوشش کرکے ان کو بے نقاب بھی کیا- لیکن جونقصان ہونا تھا وہ تو ہو ہی چکا تھا-

یقینی طور پر، ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا- روہنگیا مخالف فسادات کے دوران، ایک منظم قتل عام کے شکار لوگوں کی لاشوں کے ساتھ کھڑے ہو کر بدھ بھکشؤوں کی تصویریں بڑے پیمانے پر شایع کی گئی تھیں-

آپ کو ان کے چہروں پر مسکراہٹ بھی نظر آئی ہوگی جب وہ ان مردوں، عورتوں اور بچوں کے مردہ جسموں کے برابر فاتحانہ انداز میں کھڑے تھے جن کا انہوں نے قتل عام کیا تھا- یقیناً، یہ بھی بالکل صحیح نہیں تھا- تصویریں اصلی تھیں، بلا شبہہ، لیکن وہ 2004 کے سونامی کی تصویریں تھیں جس نے براعظم ایشیا کے ساحلی علاقوں میں تباہی پھیلائی تھی-

اور ہاں پھر وہ لائبہ کا قصہ، وہ چھوٹی سی بچی جس کی ایک ٹانگ ڈرون حملہ میں ضائع ہو گئی تھی- وہ موجود ہے، ہاں اس نے اپنی ٹانگ بھی ضرور کھوئی تھی، لیکن فرنٹیئرکور نے اس کی گاڑی پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں اس کی ٹانگ ضائع ہوئی، یہ کسی ڈرون حملہ کا نتیجہ نہیں تھا-

اس کے بعد ان بچوں کی تصویریں جو 2008 کے زیارت کے زلزلے میں ختم ہو گئے تھے، ان کو بھی ڈرون کے شکار کے طور پر پیش کیا جارہا تھا- یہ فہرست بہت لمبی ہے اور کبھی ختم نہیں ہوگی-

ہندوستان میں، جماعت الدعوہ کی ایک ریلی کی تصویر، جس میں شرکاء ایک ہندوستانی جھنڈے کو آگ لگا رہے تھے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک ممبر نے انٹرنیٹ پر لگا کر کہا کہ یہ آسام میں بنگلہ دیشی ہیں- جب انہیں چیلنج کیا گیا تو انہوں نے وہ تصویر چپکے سے ہٹا دی-

بہت ساری صورتوں میں، یہ تصویریں غلطی سے بھی لگ جاتی ہیں کسی کی شرارت سے نہیں، لیکن، ایسے لوگ بھی ہیں جو جان بوجھ کر اس جھوٹ کو پھیلاتے ہیں تاکہ وہ اپنی (اکثرنفرت انگیز) کہانی کو حق بجانب ثابت کرسکیں- اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں محتاط رہنا چاہئے-

ڈرون حملوں کے معاملے میں جو خرابی ہے وہ یہ ہے کہ یہی ساری غلط بیانیاں درحقیقت ان لوگوں کے خلاف استعمال کی جاسکتی ہیں جو جائز وجوہات کی بنا پر ڈرون کے خلاف ہیں- ان تصویروں کی اشاعت جس مقصد کیلئے کی جاتی ہے وہ مقصد دراصل انہیں حاصل نہیں ہوتا اور اس کا اثر الٹا ہوتا ہے-

ابھی حال میں، کئی لوگوں نے ٹوئیٹر پر ایک بہت ہی موثر تصویر پوسٹ کی، یہ کسی بچے کا جوتا تھا، جو جلا ہوا اور خون میں لتھڑا ہوا تھا، ہنگو میں ڈرون حملے کا ایک شکار ---- ڈرون حملہ کی سفاکی کی ایک طاقتور علامت کہ اس کے خلاف ہتھیار اٹھانا چاہئے-

ایک مرتبہ پھر، تصویر سچی تھی، اور وہ بچہ بھی- لیکن یہ تصویر ہنگو کی نہیں تھی- مجھے شبہہ ہوا اور میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے اس کا پتہ لگانا ہے، جلد ہی یہ پتہ چل گیا کہ یہ تصویر درحقیقت 2008ء کے غزہ کی ہے-

اپنی اس دریافت اور کارنامے کی بنا پر فخر کے جذبے اور راست بازی کے جوش سے پر میں نے ان پروپگینڈا کرنے والوں کی غلطی کو درست کرنے کا فیصلہ کیا- "یہ ایک بچہ کا جوتا ہے غزہ میں اسرائیلی حملے کے بعد" میں نے لکھا اور لوگوں کی تعریفوں کے پیغامات کے انتظار میں بیٹھ گیا- میں نے وہی کیا تھا جو صحافیوں کو کرنا چاہئے یعنی سچ بولا تھا-

لیکن میں نے جو کہا تھا وہ بھی صحیح نہیں تھا- وہ تصویر، جیسا کہ ایک مجھ سے بھی زیادہ محنتی ٹویٹر نے اس طرف اشارہ کیا، کہ حقیقتاً یہ جوتا ایک اسرائیلی بچے کا تھا اور اس پر حملہ کرنے والا دراصل ایک فلسطینی تھا-

یہ ایک دوسرا سبق تھا کہ ادھوری اور جانبدارانہ تصدیق، تصدیق نہ ہونے سے تھوڑا ہی بہتر ہے- جو غلطی میں نے یہاں کی وہ اکثر لوگ کرتے ہیں، یعنی اصلیت کی تحقیق کئے بغیر سچ مان لیتے ہیں- یہ ایک خطرناک جال ہے جس میں قومی میڈیا اکثر پھنستا ہے بالکل ایک عام انسان کی طرح- بی بی سی نے پچھلے دنوں عراق کی ایک تصویر یہ کہہ کر دکھائی کہ یہ شام میں قتل وغارت گری کی ایک تصویر ہے- کئی مقامی اخباروں نے بھی یہی کیا کہ مختلف قدرتی تباہ کاریوں یا بموں کے دھماکوں کی تصویریں ڈرون حملے کے نتیجہ کے طور پر دکھائیں-

تو آخر ہم کس طرح کسی تصویر کی اصل حقیقت جان سکتے ہیں؟ یہ بالکل آسان کام ہے، جیسے ہم گوگل پر "تصویر کی تلاش" (Search by Image) کرتے ہیں- تصویر کو اپ لوڈ کرکے کلک کردیں- چند سکنڈ میں، حقیقت آپ کے سامنے ہوتی ہے- سارے ذرائع آپ کی دسترس میں ہیں، اور ہماری ذمہ داری ہے کہ ہر چیز چیک کرکے اس کی تصدیق کریں-

ہم جو تصویریں انٹرنیٹ پر ڈالتے ہیں ان کا اثر فوری ہوتا ہے- کوئی بھی، اور کہیں بھی ان کو سچ سمجھ کر کوئی خطرناک حرکت ردعمل کے طور پر کرسکتا ہے- لہذٰا اگر کوئی ایسا مواد آپ کے ہاتھ آتا ہے توآپ پہلے اسے چیک کریں، چیلینج کریں، دھیان سے اسے سنیں اور پوسٹ کرنے سے پہلے اچھی طرح سے غور و فکر کرلیں اور برائے مہربانی، اسے اگر دوبارہ ٹوئیٹ کرنا ہو تو اچھی طرح سوچ سمجھ کر کریں-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: علی مظفر جعفری

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں