بیمار پاکستان

09 اپريل 2014
صحت کے شعبہ میں افرادی قوت کی ناکارہ منصوبہ بندی کی وجہ سے جو ڈھانچہ بنایا گیا ہے وہ ہماری ضروریات کے لحاظ سے ناکافی ہے
صحت کے شعبہ میں افرادی قوت کی ناکارہ منصوبہ بندی کی وجہ سے جو ڈھانچہ بنایا گیا ہے وہ ہماری ضروریات کے لحاظ سے ناکافی ہے

پاکستان کا صحت کا شعبہ بحران کا شکار ہے- مختلف رپورٹوں اور سرویز کو پڑھ کر ایک سیاہ تصویر ابھرتی ہے، جس پر حیرت بھی نہیں ہوتی کیونکہ ہمارے ملک کا صحت کی نگہداشت کا انفرا اسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے-

اگر کسی ملک میں بچوں کی شرح اموات بہت زیادہ ہے، اگر پولیو سے بیمار ہونے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور صحت کی صورت حال گمبھیر ہے اور مبصرین ہمیں خبردار کرنے پر مجبور ہیں کہ ہم ملینیم ڈیولپمنٹ گولز حاصل نہیں کرسکتے، تو اس کی وجوہات بھی بالکل ظاہر ہیں-

زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، ان میں انسانی وسائل کو مرکزی حیثیت حاصل ہے- اگر افرادی قوت (مرد اور عورتیں دونوں ہی) تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ہوں، ان میں پیشہ ورانہ لگن اور کام کرنے کی دھن ہو تو ان رکاوٹوں پر قابو پاکر کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے-

اگر ہم اپنے صحت کے شعبہ میں انسانی وسائل کی حالت کا جائزہ لیں تو کئی باتوں کا انکشاف ہوگا- ڈاکٹر شیر شاہ سید پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق سکریٹری جنرل اور پاکستان سوسائیٹی آف ابسٹٹریشینز اینڈ گائناکولوجسٹس کے سابق صدر رہ چکے ہیں- انھوں نے نہایت صاف گوئی سے میڈیکل ایجوکیشن اور اس کی منصوبہ بندی کی ابتر حالت پر روشنی ڈالی ہے-

وہ عوام کی صحت کی دیکھ بھال کے حق کے زبردست علمبردار ہیں، ان میں کسی بھی مسئلہ کے اسباب کو معلوم کرنے کی صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھری ہےاور وہ اس کا برملا اظہار کرنے میں ہچکچاتے نہیں ہیں-

انھوں نے صحت کے شعبہ میں انسانی وسائل کی ابتر صورت حال کی تین بنیادی وجہیں بیان کی ہیں- سب سے پہلے تو میڈیکل ایجوکیشن کا پست معیار ہے جو اب انتہائی نچلی سطح تک پہنچ چکا ہے، سوائے ان چند بیش قیمت اداروں کے جن کا تعلق نجی شعبہ سے ہے- دوسرے یہ کہ ملک میں ڈاکٹروں اور سرجنوں کی شدید قلت ہے-

تیسرے یہ کہ، صحت کے شعبہ میں افرادی قوت کی ناکارہ منصوبہ بندی کی وجہ سے جو ڈھانچہ بنایا گیا ہے وہ ہماری ضروریات کے لحاظ سے ناکافی ہے-

اس کے نتیجے میں ہمارے نظام کی چند تلخ حقیقتیں سامنے آتی ہیں- ایک ایسے ملک کو جہاں 129 میڈیکل کالجز موجود ہیں ڈاکٹروں کی قلت کا سامنا کیوں ہے؟ ایک وجہ تو یہ ہے کہ جو ڈاکٹر بن رہے ہیں ان کا معیار گھٹیا ہے اور انھیں ملازمتیں نہیں دی جاسکتیں-

جو اچھے ڈاکٹر ہیں وہ ملک چھوڑ کر باہر چلے جاتے ہیں اور ملک ان کی بہترین صلاحیتوں سے محروم رہ جاتا ہے- جو لوگ پاکستان میں رہ جاتے ہیں اور یہاں کام کرتے ہیں ضروری نہیں کہ وہ اچھی صلاحیتوں کے مالک ہوں اور اچھے ڈاکٹر بن سکیں- اس کے علاوہ میڈیکل کالج میں پڑھنے والی بہت سی لڑکیاں پریکٹس نہیں کرتیں-

یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل جسے حال ہی میں تحلیل کیا گیا ہے اور جس کا کام یہ تھا کہ میڈیکل ایجوکیشن کی نگرانی کرے اپنا فرض ایمانداری سے انجام نہیں دے رہی تھی- میڈیکل کمیونٹی نے مطالبہ کیا کہ پی ایم ڈی سی کوختم کردیا جائے کیونکہ یہ نجی شعبہ کی ترجمان بن گئی تھی اور محتاط طریقے سے ان کے مفادات کی حفاظت کررہی تھی-

آٹھ سال پہلے ڈاکٹر شیر شاہ نے پی ایم ڈی سی کے ڈھانچے میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کی جبکہ انھیں سندھ سے کونسل میں ڈاکٹروں کے نمائندے کی حیثیت سے منتخب کیا گیا تھا- لیکن عدالت کے حکم کے باوجود انھیں اسکی میٹنگوں میں موثر طور سے حصہ لینے کا موقع نہیں دیا گیا-

اس دوران ملک بھر میں میڈیکل کالجز مشروم کی طرح اگ آئے ہیں جن میں سے بہت سے مطلوبہ شرائط کو پورا نہیں کرتے لیکن اس کے باوجود وہ پی ایم ڈی سی سے منطوری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے- کہا جاتا ہے کہ ان میں سے نو کالجوں نے خود کو رجسٹر کروانے کے لئے فی کس 50 ملین روپیہ دیئے- اگر چہ یقین نہیں آتا لیکن ان میں سے بہت سوں کے پاس 150 بستروں کا اسپتال بھی نہیں ہے جو کسی میڈیکل کالج کے لئے لازمی ہے-

یہ کالج دوسری بنیادی شرائط بھی پوری نہیں کرتے- مثلاً، کل وقتی بنیادی سائنسز کی فیکلٹی اور لیبارٹریز- ان میں سے بعض تو ایوننگ کالجز تھے اور بہت زیادہ فیس لے رہے تھے- کہا جاتا ہے کہ اس میں چند پارلیمنٹیرینز بھی ملوث ہیں- ایک مرحلے پر نیب سے بھی کہا گیا تھا کہ وہ معاملے کی تحقیقات کرے-

میڈیکل کمیونٹی کی ثابت قدمی بالآخر رنگ لائی- فروری میں رپورٹ آئی کہ تقریباً 24 کالجز مشکلات کا شکار ہیں کیونکہ وہ بنیادی شرائط کو پورا نہیں کرتے-

مارچ میں وفاقی وزیر صحت نے مزید کارروائی کی اور متنازعہ پی ایم ڈی سی کو تحلیل کردیا گیا اور ایک سات رکنی کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا گیا جسے حکم دیا گیا کہ وہ 120 دنوں میں پی ایم ڈی سی میں منصفانہ انتخابات کروائےاور ایک نئی تنظیم تشکیل دے-

اس کمیٹی کی نوعیت چونکہ نمائندہ ہے اس لئے توقع کی جاتی ہے کہ نئی تنظیم اس بحران پر قابو پالے گی-

امید ہے کہ نئی پی ایم ڈی سی ایک موثر ریگیولیٹری رول ادا کرے گی- تاہم فوری طور پر ضرورت اس بات کی ہے کہ صحت کے شعبہ میں افرادی قوت کے پست معیار کو درست کرنے کی منصوبہ بندی کی جائے- ابھی تک ضروریات کا کبھی تخمینہ نہیں کیا گیا- ایک معقول اندازے کے مطابق ایک ڈاکٹر کے لئے دس پیرا میڈکس/نرسوں کا ہونا ضروری ہے-

اس کے بجائے پاکستان میں ہر دس ڈاکٹروں کے لئے ایک پیرا میڈکس/نرس تیار کی جاتی ہے جو ہمارے معاشرے کے متعصبانہ رویہ کو ظاہر کرتا ہے-اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام غریب طبقے کو کس طرح نظرانداز کرتا ہے-

نجی شعبہ نرسنگ اسکول قائم کرنے میں دلچسپی نہیں لیتا کیونکہ ان سے میڈیکل کالجوں کی طرح منافع نہیں ملتا-

ان حالات میں سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کا یہ فیصلہ کہ وہ فزیشیشن اسسٹنٹس کے کورسز شروع کرے گا سماجی انصاف کی بہترین روایت قائم کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے- چند دوسری یونیورسٹیاں بھی اب اس کے نقش قدم پر چل رہی ہیں- لیکں ان اداروں میں لی جانے والی بڑی فیسیں-----ایس آئی یو ٹی ایک پیسہ بھی فیس نہیں لیتا-----ان لوگوں کے لئے جو اس کا بار نہیں اٹھاسکتے رکاوٹیں پیدا کرسکتی ہیں-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: سیدہ صالحہ

تبصرے (0) بند ہیں