عوام کی دہلیز پر

14 اپريل 2014
ڈاکٹر ادیب رضوی, فائل فوٹو۔۔۔۔
ڈاکٹر ادیب رضوی, فائل فوٹو۔۔۔۔

خالد شکارپور میں رہتے ہیں اور گردے کی خرابی کی آخری اسٹیج پر ہیں- ان کی بیماری کی تشخیص سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ کراچی میں ہوئی- میری خالد سے ملاقات، SIUT، سکھر میں ہوئی جہاں ان کا ڈیالیسس (DIALYSIS) کیا جا رہا ہے- وہ خوش قسمت ہیں کہ انہیں ایک ڈونر مل گیا، ان کا چھوٹا بھائی- تاہم خالد کو چند مہینے اور انتظار کرنا ہو گا تا کہ ان کا بھائی مطلوبہ عمر کا ہو جائے-

SIUT، سکھر کے 2012 میں آپریشنل ہونے سے پہلے تک، خالد جیسے مریضوں کو ڈالیسیز کے لئے کراچی آنا پڑتا تھا اور یہاں سڑکوں پر رہنا پڑتا تھا- آج، سفر میں گزرنے والے وقت کے ساتھ ساتھ مریضوں کی پریشانی بھی بہت کم ہو گئی ہے- اور یہی وہ چیز ہے جسے SIUT کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ادیب رضوی "لوگوں کی دہلیز پر میڈیکل سہولیات کی فراہمی" سے تعبیر کرتے ہیں- اگر SIUT، سکھر کا وجود نہ ہوتا تو خالد کو بے گھر ہونے کی پریشانی بھی جھیلنی پڑتی-

SIUT، سکھر کا قیام سندھ کے لوگوں کی ضروریات کا ایک جواب ہے- اس ادارے کا ماننا ہے کہ انسانی زندگی اہم ہے اور ہیلتھ کیئر لوگوں کا پیدائشی حق، ہمارے سماج کے خالد اور ان جیسے لوگوں کو "صرف اس لئے مرنے کے لئے چھوڑا نہیں جا سکتا کہ وہ زندہ رہنے کے بھی متحمل نہیں ہو سکتے"- ڈاکٹر ادیب رضوی اسی حساب سے مریضوں کی ضروریات کا اندازہ لگاتے ہیں اور ان کے مطابق انتظامات کرتے ہیں-

ڈالیسیز کو قابل رسائی بنانے کے لئے، انہوں نے مریضوں کو ایک ہفتے میں دو بار اس عمل کے لئے دور دراز علاقوں سے آنے کی تکلیف سے بچانے کے لئے کراچی کے مختلف علاقوں میں سیٹلائٹ مراکز کا ایک نیٹ ورک کرنے کے نظریے پر کام کیا- جب ریکارڈز نے بتایا کہ ساٹھ فیصد مریض علاج کے لئے ، شہر کے باہر سے آتے ہیں جن میں زیادہ تر کا تعلق سندھ سے ہوتا ہے جہاں اس قسم کی سہولیات کا فقدان ہے تو صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے اقدامات اٹھانے شروع کر دیے-

اسی مقصد کے لئے جب SIUT کی ٹیم سکھر پہنچی جہاں چلبانی مٹرنٹی ہوم کی حالت دگرگوں تھی- سندھ حکومت سے رابطہ کیا گیا اور عرق ریز منصوبہ بندی، تزئین و آرائش اور تعمیر نو کے ذریعے اس میڈیکل فیسیلٹی کو ایک جدید اسپتال میں تبدیل کر دیا گیا جو کہ SIUT، کراچی کا ایک چھوٹا ورژن ہے جہاں اسی قسم کی سہولیات اور خدمت کرنے کا عزم بھی ویسا ہی ہے-

یہ سب SIUT کے ضرورت پر مبنی نقطہ نظر اور درد کے مداوے کی تلاش میں آئے مریضوں کو واپس نہ لوٹانے کے فلسفے کے عین مطابق ہے- پاکستان میں مرض میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ SIUT، سکھر سندھ کے ہیلتھ کیئر سسٹم میں خوشگوار اضافہ ثابت ہوا ہے-

جب میں نے حال ہی میں وہاں کا دورہ کیا تو یہ ادارہ گندگی، غلاظت اور غفلت کے سمندر میں ایک نخلستان کی طرح معلوم ہوا جہاں اسٹیٹ آف دی آرٹ آلات اور سہولیات موجود ہیں- آپ گیٹ سے داخل ہوں، جو باہر موجود تجاوزات کے سمندر میں بمشکل دکھائی دیتا ہے اور آپ کو ایسا لگے گا جیسے آپ امن اور باغبانی کی کسی اور ہی دنیا میں آ گئے ہیں-

کراچی میں اس ادارے میں فراہم کی جانے والی زیادہ تر سہولیات SIUT، سکھر میں بھی فراہم کی جاتی ہیں جو کہ چھتیس بستروں پر مشتمل ایک مکمل اسپتال ہے- یہاں 2012 میں 1,256 مریضوں کو داخل کیا گیا- اسی سال 33,918 مریضوں کا ہفتے میں تین بار لگنے والے آؤٹ پیشنٹ کلینک میں علاج کیا گیا، 16,403 ڈالیسیز کے سیشنز کئے گئے، 2,400 مریضوں نے لتھوٹریپسی وصول کی، لیبارٹری میں 111,913 ٹیسٹس کئے گئے اور ڈائگنوسٹک ریڈیولاجی سروس کی مدد کے ساتھ 4,254 سرجریز انجام دی گئیں-

واحد نمایاں کمی ٹرانپلانٹیشن کی ہے- رضاکارانہ طور پر بحیثیت کوآرڈینیٹر سکھر منتقل ہونے والے ڈاکٹر اقبال داؤدپوتہ نے مجھے یقین دلایا کہ ٹرانپلانٹیشن سرجری کا آغاز بھی ضرورت پڑنے پر کر دیا جائے گا- SIUT، کراچی ہی کی طرح یہاں بھی تمام خدمات دوسروں کا وقار مجروح کئے بغیر مفت فراہم کی جاتی ہیں-

چوں کہ SIUT ماڈل کی ایک اہم خصوصیت عملے کی پیشہ ورانہ مہارت اور لگن ہے، پوسٹنگ کراچی سے کنٹرول کی جاتی ہیں- عملے کو کراچی سے سکھر روٹیشن پر تعینات کیا جاتا ہے- ڈاکٹر ادیب جو خود مثال بن کر قیادت کرتے ہیں، ہر بدھ کی رات ٹرین کے ذریعے کراچی سے سکھر جاتے ہیں تا کہ جمعرات کو اپنے او پی ڈی میں مریضوں کو دیکھ کر اسی روز واپس کراچی لوٹیں- ان کے کچھ ڈاکٹر ایک ہفتے تک وہیں قیام کرتے ہیں جو اگلے ہفتے دوسرے ڈاکٹروں کے آنے پر کراچی لوٹتے ہیں- اسی طرح روٹا چلتا رہتا ہے-

SIUT، سکھر سے اس یقین کو مزید تقویت ملتی ہے کہ حکومت اور کمیونٹی کی شراکت کا ماڈل قابل عمل ہے جس کی وکالت ڈاکٹر رضوی کرتے رہے ہیں- SIUT کی اقدار نے سکھر کی عوام کو اتنا متاثر کیا ہے کہ وہ جواب میں دل کھول کر عطیات دے رہے ہیں-

دو ڈونرز، زاہد اقبال چوہدری اور منور خان تو ایسے ہیں کہ جنہوں نے ہر بحران میں انسٹیٹیوٹ کا ساتھ دیا، جو کہ پاکستان میں تو اکثر و بیشتر آتے ہی رہتے ہیں- جہاں تک مریضوں کا تعلق ہے جنھیں آج تک میڈیکل پروفیشن کی جانب سے اتنی محبت اور لگن زندگی میں کبھی نہیں ملی، ان کے لئے SIUT ایک نعمت ہے- زیادہ تر کچلے گئے پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے ان افراد کے لئے SIUT کا یہ فلسفہ بہت اہم ہے کہ یہ شاندار خدمات بلا معاوضہ فراہم کی جاتی ہیں-

اس ماڈل کو قابل عمل بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہیلتھ پروفیشنلز ضرورت پڑنے پر اپنی خدمات بلا معاوضہ پوری لگن اور ایمانداری کے ساتھ فراہم کرنے کی اقدار پر عمل کریں- اس کے لئے ضروری ہے اخراجات گھٹانے کی حکمت عملی اپنائی جائے اور ایسے کام کئے جائیں جن سے ادارہ خودکفیل بن سکے- یہی وہ طریقہ ہے جس پر عمل کرتے ہوئے SIUT کو پاکستان کی عوام کا اعتماد حاصل ہوا اور جسے دنیا بھر میں فلاحی منصوبوں کے حوالے سے ایک نمایاں نام کے طور پر جانا جاتا ہے-

لکھاری SIUT کی کہانی، Making the ‘Impossible’ Possible کی بھی لکھاری ہیں-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: شعیب بن جمیل

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں