غیر مساوی جنگ

19 اپريل 2014
سنگین ترین جرائم دولتمند اور طاقتور افراد پولیس کے تعاون سے کرتے ہیں- مجرم سر سے پیر تک مسلح ہوتے ہیں جبکہ سیول سوسائٹی کے متاثرہ حصوں کی جانب سے اس کی مزاحمت اسے ایک غیر مساوی جنگ میں تبدیل کردیتی ہے-           
فائل فوٹو۔۔۔۔
سنگین ترین جرائم دولتمند اور طاقتور افراد پولیس کے تعاون سے کرتے ہیں- مجرم سر سے پیر تک مسلح ہوتے ہیں جبکہ سیول سوسائٹی کے متاثرہ حصوں کی جانب سے اس کی مزاحمت اسے ایک غیر مساوی جنگ میں تبدیل کردیتی ہے- فائل فوٹو۔۔۔۔

کراچی پریس کلب جانے سے پہلے جہاں سٹیزنز ٹرسٹ اگینسٹ کرائم (جرائم کے خلاف شہریوں کا ٹرسٹ) کی جانب سے ایک پریس کانفرنس بلائی گئی تھی، میں نے دیکھا کہ ایک ون وے والی سڑک پر بھاری ٹریفک غلط سمت میں چل رہی ہے- میں نے اپنے ڈرائیور سے اسکی وجہ پوچھی تو اس نے مختصر لیکن جامع جواب دیا،"بی بی، آپ کو پتہ نہیں یہ پاکستان ہے، یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں-"

کچھ ہی دیر بعد سی ٹی اے سی نے اس کی تصدیق کردی، جو ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے، جن کا موضوع تھا قانون کی خلاف ورزیاں جو کراچی میں بہت عام ہے- جو بات تشویشناک ہے وہ ہے جرم اور جرم کے کل پرزوں کے درمیان گٹھ جوڑ- اس میں جو عناصر کلیدی کردار ادا کرتے ہیں وہ ہیں بغیر لاِئسنس والے ہتھیار، غیر قانونی گاڑیاں اور نامعلوم ایس آئی آیم ایس (سمز).

کافی تحقیق کے بعد سی ٹی اے سی نے جو اعداد و شمار جمع کئے ہیں اس سے اس حیرت انگیز وسعت کا اندازہ ہوتا ہے جو ملک میں غیر قانونی طور پر جاری ہونیوالی سمز، غیر رجسٹر شدہ گاڑیوں اور غیر قانونی ہتھیاروں کے پھیلاو کے تعلق سے حاصل ہوئے ہیں- یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ان کا جرائم سے گہرا تعلق ہے-

اگر یہ اعداد و شمار حیرت انگیز طور پر اتنے بڑے نہ ہوتے تو شائد ہم اس کی وجہ بد انتظامی سمجھ کر نظرانداز کردیتے- ہتھیاروں کے معاملے کو لیجیئے، جو جرائم کے تین مہلک ترین اوزاروں میں سے ایک ہے- سی ٹی اے سی کے مطابق صرف ہمارے پارلیمنٹیرینز کو ہی 70000 اسلحہ کے لائسنس جاری کئے گئے ہیں اور اسطرح ہماری قومی اسمبلی دنیا کی سب سے زیادہ مسلح قانون ساز اسمبلی ہے-

ان میں سے بہت سے لائسنس تو ممنوعہ بور کے ہیں اور انھیں غیرقانونی طور پر استعمال کیا جاتا ہے- ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں 2300 ملیشیا نجی طور پر کام کر رہی ہیں جو آئین کے آرٹیکل 256 کی خلاف ورزی دھڑلے سے کررہی ہیں لہٰذا ان کا وجود ہی غیرقانونی ہے-

سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے بھی مسلح دھڑے ہیں جن کا مقصد محض تحفظ نہیں بلکہ انھیں مخالفین کے خلاف زور آزمائی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے- مجھے بتایا گیا کہ کرائے کے قاتل زیادہ پیسے نہیں لیتے-ان کے ساتھ جرائم کی دنیا کے ان بیوپاریوں کو شامل کرلیجیئے جو بینکوں پر ڈاکے ڈالتے ہیں، گاڑیاں اور موبائل فون چھین لیتے ہیں- پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی(پی ٹی اے) نے سمز کے بے ضابطہ اجراء کی اجازت دے رکھی ہے جسکی وجہ سے اسکے مالکوں کا پتہ چلانا ناممکن ہے-

سی ٹی اے سی نے بتایاکہ 40000 افغانیوں کے پاس پاکستان کے سمز ہیں اور ان کےکوائف کسی کو معلوم نہیں- ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ قانونی طور پر رجسٹرڈ فون استعمال کرنے والوں کو پتہ چلا کہ فون کمپنیاں ان کے ذاتی کوائف کو اجنبیوں کو سمز دینے کے لئے استعمال کر رہی ہیں-

یہی حال موٹر گاڑیوں کے معاملے میں بھی ہے-سی ٹی اے سی کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں "غیر قانونی، بغیر رحسٹرڈ، اسمگل کی ہوئی اور ڈیوٹی دیئے بغیر، غیر ملکی اور جعلی نمبر پلیٹ والی گاڑیاں ہماری سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں-

حکومت اور پولیس کے پاس خود ان قانون توڑنے والوں کی تعداد کا ریکارڈ موجود نہیں- سی ٹی اے سی کے اندازوں کے مطابق 30 فی صد گاڑیاں جن کے نمبر پلیٹ سبز رنگ کے ہیں جعلی ہیں- (اس رنگ کی نمبر پلیٹ صرف سرکاری گاڑیوں کی ہوتی ہے)

اس سلسلے میں ہم یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہونگے کہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ پولیس، پی ٹی اے اور ایکسائز ڈیپارٹمنٹ اس جرم میں برابر کے شریک ہیں-

کیا ان کے کوائف کو چھپا کر وہ ان سے چشم پوشی نہیں کر رہے ہیں؟ اگر تحقیقات ہوتیں تو بہت سی ٹارگٹڈ ہلاکتوں، بم کے دھماکوں، بھتہ خوری اور دہشتگردی کے واقعات کو روکا جاسکتا تھا-

لیکن یہ ان حالات میں کیوں کر ممکن ہے جبکہ ہتھیاروں، کاروں اور موبائل فون کے مالکوں کا جو انھیں جرائم کے لئے استعمال کرتے ہیں، پتہ معلوم نہیں کیوںکہ ان کی باضابطہ رجسٹریشن موجود نہیں؟

اگر بڑے پیمانے پر قانون شکنی کے واقعات کی جانب آنکھیں بند کرنے کی وجہ بدعنوانی اور بے حسی ہے تب بھی اس کی اصلاح ممکن ہے- اس سلسلے میں سی ٹی اے سی نے چند ٹھوس تجاویز پیش کی ہیں جو معقول نظر آتی ہیں-

فوری طورپر ہتھیاروں کو واپس لینے کے لئے ایک کمیشن قائم کیا جائےجو تمام آتشیں اسلحہ کے لائسنس منسوخ کردے اور انھیں باضابطہ بائیو میٹرکس کے ساتھ دوبارہ جاری کرے- اسی طرح پی ٹی اے کو چاہیئے کہ وہ سمز اور آئی ایم ای آئیز کو رجسٹر کرنے کی یقین دہانی کرائے جو اس کے لئے ممکن ہے بشرطیکہ وہ غنڈہ گردی کی طاقتوں کے دباو میں نہ آئے اور تجارتی مفادات کو پیش نظر نہ رکھے- ہمیں بتایا گیا کہ گاڑیوں کی رجسٹریشن کے معاملے میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے-

مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب خود حکومت ہی حد سے زیادہ بدعنوان ہو----یعنی یہ خود ہی جرائم میں ملوث ہوجائے اور اقدامات کرنے کی خواہش نہ رکھتی ہو- اس کا اظہار اس کی اس نیت سے ہوچکاہے کہ پولیس کی اصلاح کرنے کے لئے وہ اسے غیر سیاسی نہیں کرنا چاہتی- پریس کانفرنس میں موجود ایک صاحب نے کہا کہ سی ٹی اے سی جرائم کے جڑ کی طرف توجہ نہیں دے رہی ہے----افلاس، ناخواندگی اور بیروزگاری- یقیناً اسکی وجہ سے بیچینی پیدا ہوتی ہے لیکن جرائم کی اصلی وجہ پولیس سسٹم کی ناکامی ہے جو مجرموں کو کھلی چھوٹ دیتا ہے- یہ پولیس کے لئے ایک چیلنج ہے کہ وہ اسے ترجیحی بنیادوں پر حل کرَے-

سنگین ترین جرائم دولتمند اور طاقتور افراد پولیس کے تعاون سے کرتے ہیں- مجرم سر سے پیر تک مسلح ہوتے ہیں جبکہ سیول سوسائٹی کے متاثرہ حصوں کی جانب سے اس کی مزاحمت اسے ایک غیر مساوی جنگ میں تبدیل کردیتی ہے-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ : سیدہ صالحہ

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں