پاکستان کے سیریل کلرز

اپ ڈیٹ 08 مئ 2014
ہماری گلیوں اور محلوں میں ایسے کتنے لوگ گھوم رہے ہیں جن کے جرائم کسی کی نظروں میں نہیں آتے؟
ہماری گلیوں اور محلوں میں ایسے کتنے لوگ گھوم رہے ہیں جن کے جرائم کسی کی نظروں میں نہیں آتے؟

اگر بھکر کے آدم خور آپ کے لئے کافی نہیں تھی تو پچھلے ہفتے لاہور کے ایک سیریل کلر کی کہانی ملاحضہ ہو- پیشے کے لحاظ سے ایک پیرامیڈک، محمد اعجاز پر ہم جنس پرستوں یا HOMOSEXUALS کو قتل کرنے کا الزام ہے کیونکہ وہ 'انہیں اس گناہ سے باز رہنے کیلئے خبردار کرنا چاہتا تھا'- وہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے یہ سب اپنے بچپن میں ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ لینے کیلئے کیا- تاہم پولیس کے مطابق، اس نے اپنے شکاروں کو دوا دے کر بیہوش کرنے اور ان کی گردنیں توڑنے سے پہلے انکا ریپ بھی کیا-

اپنے شہوانی جذبات سے وابستہ چیزوں کی تباہی کی خواہش لئے اعجاز انوکھا نہیں- آپ "کلر کلاؤن" جان وین گریسی کو ہی لے لیں، ایک امریکن سیریل کلر جسے دس مئی، 1994 کو سزائے موت گئی- گریسی نے اپنے کیریئر کے دوران جنسی حملے اور کم از کم 33 نوعمر لڑکوں اور نوجوانوں کو قتل کیا- تاہم گریسی آخر تک بات پر بضد رہا کہ وہ بذات خود "پھل چننے والا" نہیں تھا- یہ اصطلاح وہ ہم جنس پرستوں کے لئے استعمال کرتا تھا- اسی طرح اعجاز بھی HOMOSEXUELS کو اپنے پورے ٹی وی انٹرویو کے دوران 'کچرا' که کر پکارتا رہا-

سیریل کلرز کو ایک مغربی رجحان قرار دینا خاصا آسان ہے- ویسے بھی مقبول تاثر یہی ہے وہ ایک 'اکیلا سفید فام ہوتا ہے جو کہ زیادہ تر اپنے آپ میں مگن رہتا ہے'- یہ ٹھیک ہے کہ زیادہ تر صحیح معنوں میں مشہور یا بدنام زمانہ سیریل کلرز کا تعلق امریکہ سے رہا ہے لیکن اس کی شاید ایک وجہ تو امریکہ کا کلچرل غلبہ ہے اور یہ بھی کہ وہاں زیادہ تر مجرموں کو پکڑ لیا جاتا ہے اور سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے-

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہاں بھی خاصے سیریل کلرز دیکھنے میں آئے ہیں- اسی کی دہائی کا 'ہتھوڑا گروپ' آپ کو یاد ہو گا- مقامی سیریل کلرز میں سب سے خطرناک اور بدنام شاید جاوید اقبال تھا جس نے مبینہ طور پر تقریباً سو بچوں کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاشوں کو تیزاب میں گلا دیا تھا- اس نے بظاہر ایک بار خود کو قانون کے حوالے کرنے کی بھی کوشش کی تاہم پولیس اس کے عجیب و غریب بیان پر ہنس کر رہ گئی- وہ تو بعد میں جب اس نے اپنے بھیانک جرائم کی تفصیلات سے بھرا ایک خط لکھا تو پولیس اس کے پیچھے اسے پکڑنے گئی-

حال ہی میں، 2012 میں سولجر بازار اور گرومندر سمیت مختلف علاقوں سے عورتوں کی لاشوں کے ٹکرے ملنے لگے تھے- بعد میں معلوم ہوا کہ یہ مبینہ طور پر رفیق نامی ایک رکشہ ڈرائیور کی کارستانی تھی- حیران کن بات یہ تھی کہ جرائم ہر مہینے کی نو تاریخ کے آس پاس کی تاریخوں میں سرزد ہوئے- اس کے علاوہ اس کے بارے میں کوئی بھی چیز غیر معمولی نہ تھی اور مجھے ایک رپورٹر سے وہ گفتگو یاد ہے جس نے اس کا انٹرویو کیا تھا اور جس کا کہنا تھا کہ وہ اس بات پر کتنی 'مایوس' ہے کہ وہ کتنا 'نارمل' دکھتا تھا-

ویسے یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ وہ اس سے پہلے بھی ایک عورت کو قتل کے الزام میں گرفتار ہو چکا تھا- اور یہ وہ چیز ہے جو اس میں اور محمد سرور میں کامن تھی- وہی محمد سرور جس نے 2007 میں پنجاب کی وزیر برائے سماجی بہبود، ظل ہما کو اس بنا پر گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا کہ وہ 'مسلمان کپڑے نہیں پہنتی تھیں'- اسے کوئی پاگل قرار دے دینا کہیں آسان ہے لیکن یہ شاید سچائی کا ایک حصہ ہے- وہ شخص بھی اس سے پہلے، 2003 میں کئی سیکس ورکرز کو قتل کر چکا تھا کیونکہ وہ سماج کی 'صفائی' کرنا چاہتا تھا، بلکل اوپر ذکر کئے گئے اعجاز کی طرح-

وہ کیوں اور کیسے باہر آیا اور قتل کرنے لگا، یہ سوال پولیس اور عدلیہ سے کرنے کا ہے- وہ تو اس وقت پکڑا گیا جب اس نے ایک وزیر کو گولی ماری اور پھر کچھ سال بعد وہ جیل میں مر گیا- اب یہ وہ چیز ہے جس پر سوچنا چاہئے- قانون کی عملداری کی حالت زار اور عدلیہ کی جانب سے مجرموں کو سزا دینے کے مایوس کن تناسب کو دیکھتے ہوئے کیا ہم جانتے ہیں کہ ہماری گلیوں اور محلوں میں ایسے کتنے لوگ گھوم رہے ہیں جن کے جرائم بدامنی اور سزا سے چھوٹ کے عمومی رائج ماحول میں کسی کی نظروں میں نہیں آتے؟ ملنے والی تشدد زدہ لاشوں میں سے کتنی کسی سیریل کلر کی کارستانی ہو سکتی ہیں؟ اور جہاں تک تشدد کا معاملہ ہے تو ایسے کتنے پاگلوں کو دہشت گرد اور عسکریت پسند اپنے پاس پناہ اور ملازمت فراہم کر رہے ہیں؟

وہ کیا چیز ہے جو ان لوگوں کو متحرک کرتی ہے اسے جاننے کیلئے کئی کوششیں ہو چکی ہیں- اس حوالے سے سادہ سا مکڈونلڈ طریقہ کار بھی ہے اور دیگر بھی بہت سے ٹیسٹس ہیں- سیریل کلرز کے دماغوں کو بھی موت کے بعد اسکین کیا جا چکا ہے اور سوائے چند کے، تمام ہی میری اور آپ کی طرح نارمل ثابت ہوئے- زیادہ خوفزدہ کرنے والی بات تو یہ ہے کہ ان میں سے اکثر بظاہر ایک نارمل زندگی گزارتے رہے جس میں ان کی فیملیز تھیں اور بچے بھی-

حقیت تو یہ ہے کہ ہم بالکل نہیں جانتے کہ ایک سیریل کلر کا دماغ کیسے کام کرتا ہے- اور بھلے وہ اپنے اعمال کے جواز میں وہ مذہبی کہانیاں سنائیں، خود سے ہوئی بدسلوکی کی باتیں کریں یا پھر انہیں سماج سے اپنے انتقام کا نام دیں، یہ سب صرف ایک سیریل کلر کے عذر یا بہانے ہی ہوں گے اور کچھ نہیں- اور اگر ان میں کوئی چیز مشترک ہے تو وہ یہ کہ ان میں ہمدردی یا رحم کا جذبہ قطعی نہیں ہوتا اور ان میں اپنے شکار کو تباہ و برباد کرنے کی چاہ ہوتی ہے- وہ اتنے ہی آرام اور لاتعلقی کے ساتھ اپنے شکار پر تشدد اور انہیں قتل کرتے ہیں جیسے کہ ہم آرام اور لاتعلقی سے کسی ٹافی کا ریپر پھینکتے ہیں یا سگریٹ بجھاتے ہیں-

انگلش میں پڑھیں


لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں-

ترجمہ: شعیب بن جمیل

تبصرے (0) بند ہیں