سلطنت، جسے ڈائریکٹر سید فیصل بخاری نے حقیقی زندگی میں انڈر ورلڈ سے متاثر ہو کر ایک ایکشن مووی کے طور پر بنایا ہے شاید سنیما کی تاریخ کی بدترین فلم ہے- میں نے آج تک لوگوں کو فلم ادھوری چھوڑ کر یوں سنیما سے باہر جاتے کبھی نہیں دیکھا- آخر ڈھائی گھنٹے تک مسلسل احمقانہ پن برداشت کرنا مقامی سنیما کے بڑے سے بڑے حمایتی کے لئے بھی خاصا مشکل کام ہے-


جوڑ توڑ سے مکمل ہوئی فلم


فلم کا مرکزی کردار یعنی انڈر ورلڈ ہیرو، اسلم بھائی کا کردار، اسلم بھٹی نے ادا کیا ہے جو فلم کے پروڈیوسر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے کو ڈسٹریبیوٹر بھی ہیں-

فلم کا پلاٹ کسی نہ کسی طرح ہمیں بتاتا ہے کہ وہ ایک بزنس مین ہیں- وہ کس چیز کا کاروبار کرتے ہیں اس کا کوئی ذکر نہیں اور یہ بھی کہ وہ ایک جذباتی شخص ہیں پر عمومی طور وہ ایک اچھے انسان ہیں تاہم ان کے اپنے گھر والوں کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں- ان کے گھر والے پاکستان کے دیہاتی علاقوں میں رہتے ہیں (ان میں مصطفیٰ قریشی اور احسن خان شامل ہیں جن کے بارے میں ایک وقت میں یہ خبریں تھیں کہ وہ اس فلم کے ہیرو ہیں پر فلم میں ان کا کردار بمشکل تین منٹ کا ہے)-

سکرین شاٹ
سکرین شاٹ

اسلم کی مشرق وسطیٰ میں ایک سلطنت ہے جہاں ان کے پاس غیر ملکی حسینائیں ان کی بانہوں میں آنے کے لئے بے تاب ہیں (اور وہ بھی ان کپڑوں میں جیسے کہ ٹریلر میں دکھایا گیا ہے) تاہم اس کے باوجود، وہ کبھی بھی جمعے کی نماز نہیں چھوڑتے اور یہ پلاٹ کا وہ نکتہ ہے جو آگے چل کر مووی کے کلائمیکس میں دکھائی جانے والی لڑائی میں اہم کردار ادا کرتا ہے جو کہ نہ جانے کون سے جنگل کی لوکیشن پر انڈر ورلڈ کے دو متحارب گروپوں میں ہوتی ہے، ویسے کہانی کی طرح فلم میں لوکیشنز کی کوئی اہمیت نہیں-

اسلم کی بیوی کا کردار، جو ایک خوش شکل، لئے دیئے رہنے والی اور سمجھدار خاتون ہیں، شویتا تیواری نے نبھایا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اسلم کی دلچسپی تارا (اچنت کور) میں بھی ہے تاہم وہ اسلم کے جذبات کو رد کر دیتی ہے- اس ناکامی کے بعد، اسلم پری کی طرف لوٹتے ہیں اور وہ انہیں قبول کر لیتی ہیں-

سکرین شاٹ
سکرین شاٹ

دوسری جانب اسلم کے دشمن بھی ہیں، ایک تو سکندر ہے جو ان کا کریمنل کزن ہے اور یہ کردار جاوید شیخ نے ادا کیا ہے (ویسے اس میں انہوں نے اداکاری برائے نام کی ہے) اور ایک ہے گھڑو ڈالر (گووند نامدیو) جو نقلی کرنسی کا کاروبار کرتا ہے پر اس کی نقلی کرنسی اتنی اچھی ہوتی ہے کہ اس پر اصل کا گمان ہوتا ہے یا خود اس کے الفاظ میں کہیں تو "ڈالر نقلی چھاپتا ہوں پر بات اصلی کرتا ہوں"-

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سکندر اور ڈالر کے پاس اسلم کو نیچا دکھانے اور اس کو جذباتی طور پر پریشان کرنے کے سوا کوئی کام دھام نہیں- ان کی ایسی ہی ایک ناکام سکیم کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دونوں فیملیز کو ملانے کے لئے سکندر کے بیٹے اور اسلم کی چھوٹی بہن زینب (زینب قیوم یا زی کیو) کی منگنی کی تقریب برباد ہو کر رہ جاتی ہے یعنی آخر میں ایک پلیٹ پر ایک سر رکھا ہوتا ہے اور ٹوٹی ہوئی شراب کی بوتلیں-

سکرین شاٹ
سکرین شاٹ

سکندر اور ڈالر کو ایک بچھڑا ہوا ساتھ مل جاتا ہے (آکاش دیپ سہگل) اور جس کے بڑے بھائی (پنیت) بھی ایک انڈر ورلڈ ڈان ہیں اور جنھیں ایک خطرناک لڑائی میں اسلم نے بری طرح پیٹا تھا- ان کی یہ لڑائی، جو کہ سلمان خان سٹائل کی لڑائی تھی، فلم سلطنت کا واحد قابل ذکر ایکشن سین ہے-

اسی دوران تارا ٹی ایس آئی (دی اسپیشل انویسٹیگیشن) کے ایجنٹ کے طور پر ان سب کے خلاف کام کر رہی ہے (ویسے اس بلڈنگ کا سائن اتنا برا اور بھدا ہے کہ صاف پتہ چل رہا ہے کہ کام چلانے کے لئے سائن لگایا گیا ہے)- وہ کیسے اپنی تفتیش کرتی ہے یہ اپنے آپ میں ایک راز ہے اور ڈیپارٹمنٹ کے لوگوں کی کام کی جگہوں پر ناولوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں جن سے ہمیں ان کی اپنے کام سے محبت اور لگن کا صاف پتہ چلتا ہے)-

سکرین شاٹ
سکرین شاٹ

ایک سین میں تارا، بھکشو کو اپنی سلامتی کے بارے میں خبردار کرتی ہے جو کہ بظاہر ریاست کے لئے ایک اہم گواہ ہے- بعد میں وہ بھکشو، جو کہ شاولن ٹمپل سے کنگ فو ٹریننگ لئے ہوئے ہوتے ہیں سکندر کے بھیجے ہوئے قاتل کے ہاتھوں مارا جاتا ہے اور یہ سین بھی انتہائی بری طرح امیچور انداز میں فلمایا گیا ہے-


تکنیکی باتیں نہ کریں— سچی میں


بخاری جو اس سے پہلے بھائی لوگ (یہ فلم بھی انڈر ورلڈ کریمنلز کے بارے میں ہے اور اسے بھی بھٹی نے پروڈیوس کیا تھا) بنا چکے ہیں ایک تجربہ کار سنیماٹو گرافر ہیں– یا یوں کہہ لیں کہ ایسا مجھے بتایا گیا تھا، پر سلطنت دیکھ کر ایسا کچھ بھی نہیں لگتا-

ایسا لگتا ہے جیسے فلم کو تیس قسطوں کے سیریل اور ایک موشن پکچر کے طور پر سوچا گیا تھا اور اسی طرح اس کی تیاری میں مختلف ویڈیو فورمیٹس استعمال ہوئے ہیں جس کا نتیجہ انتہائی کنفوژنگ ہے- تقریباً پچاس فیصد فوٹیج، جسے لگتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح زیڈ اے زلفی، نجیب خان اور عدل پی کے نے ایڈٹ کر کے کہانی کا رنگ دے دیا تھا، پوسٹ پروڈکشن میں اس کا بھی کباڑا کر دیا گیا ہے، کیونکہ اس میں کسی قسم کی پروفیشنل ٹرانسکوڈنگ نظر نہیں آتی- ویسے تو فلم کا فارمیٹ 2048 پکسلز ہے پر چند جگہوں پر ڈی وی فارمیٹ بھی استعمال ہوا ہے جیسا کہ ایوب کھوسہ کا ایک سین 720 پکسلز میں فلمایا گیا ہے اور چند جگہوں پر 1280 اور 1920 پکسلز بھی استعمال ہوئے ہیں اور ان سب کا فرق واضح دکھائی دیتا ہے-

سکرین شاٹ
سکرین شاٹ

اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ سینز کی فلمبندی کے دوران ایک یا زیادہ سے زیادہ دو لائٹ سورس استعمال کئے گئے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ چہرے اور ہائی لائٹس، بلون آوٹ ہو گئے ہیں (یعنی ان میں سفیدی اتنی زیادہ ہے کہ باقی چیزیں دکھائی نہیں دے رہیں)- اس کے علاوہ فوکس کے اپنے مسائل ہیں، شروع کے ایک سین میں جاوید شیخ اور گووند نام دیو کے درمیان فوکس کچھ اس طرح تبدیل ہوتا ہے کہ ان دونوں میں موجود فاصلہ نظر انداز ہو جاتا ہے- اس کے علاوہ غیر مناسب لینس استعمال کیا گیا ہے جس کی وجہ سے پورا سین 'سوفٹ' ہو جاتا ہے-

آدھی فلم تک تو کاسٹیوم ڈیزائن صرف اسی بات تک محدود رہے ہیں کہ ایکٹرز سیٹ پر کیا پہن کر آئے ہیں- میک اپ بھی واجبی سا ہے (اور یہاں بھی یہی لگتا ہے کہ اداکاروں نے خود ہی اپنا میک اپ کیا ہے) یا پھر کہیں نظر بھی آتا ہے تو وہ بھی مِس میچ ہے- سیٹس کی بات کریں تو بھٹی صاحب نے یہاں پر کچھ کام کیا ہے پر اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہاں بھی امیچور اپروچ واضح ہے-

آڈیو اور ڈبنگ ایک دوسرے سے بالکل بھی ہم آہنگ نہیں اور چند سینز میں تو ٹیک کے وقت کی آواز سنائی دیتی ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ ڈائیلاگز کے لئے اداکاروں نے الگ سے کوئی سیشنز تک نہیں کئے- ان سب کا نتیجہ یہ ہے کہ کہیں آواز اونچی ہے تو کہیں دھیمی-


اداکاری: شاید ٹی وی کے لئے بہتر تھی


دلچسپ بات یہ ہے کہ بھٹی کا سکرین ٹائم، جنہوں نے مرکزی کردار ادا کیا ہے، ضرورت سے بھی زیادہ ہے- ان کا اسلم ایک پاگل برے آدمی کا تاثر آسانی سے قائم کر دیتا ہے- ویسے ان کے کردار کو ایک پاور ہاؤس ہونا چاہئے تھا پر ہوا یہ ہے کہ وہ سوائے اس کے کے اپنے پالتو چیتے کے ساتھ چلیں پھریں، دو تین گانوں میں نظر آئے اور جب انہیں غصہ آئے تو وہ بڑے لوگوں کو گولیاں مار دیں اور بس- وہ اس سے زیادہ کچھ کرتے نظر نہیں آئے-

سکرین شاٹ
سکرین شاٹ

ان کے مقابلے میں تیواری نے پھر بھی اپنے کردار سے انصاف کیا ہے اور ان کی طرح زی کیو، اچنیت کور اور چیتن ہںس راج نے بھی-

گووند نام دیو، پنیت اور دیپک شرکے، اپنے پچھلے مختلف کرداروں کے مختلف رنگ بکھیرتے نظر آئے ہیں جس کی وجہ سے سکرین پر ان کا ولن والا ٹچ آسانی سے نظر آتا ہے- جاوید شیخ، اپنے تجربے کے باوجود، شاید اس وجہ سے وہ تاثر قائم نہیں کر سکے کہ انہیں اس کا موقع ہی نہیں دیا گیا- ایسا لگتا ہے کہ انہیں ہر سین کا سکرپٹ سیٹ پر ہی تھمایا گیا تھا-

تاہم آکاش دیپ سہگل شاید سلطنت کا سب سے غلط کاسٹنگ ڈسیژن ہیں- جس طرح وہ اپنے غصے، ناراضگی اور جنرل ڈلیوری کے دوران کانپتے، سکڑتے اور اپنے جسم کو مختلف سمتوں میں موڑتے نظر آئے ہیں ایسا لگتا ہے جیسے انہیں بہت تیز بخار چڑھ گیا ہو-

سکرین شاٹ
سکرین شاٹ

سہگل کو ان غیر ملکی ڈانسرز سے کچھ سیکھنا چاہئیے جنہوں نے 'سونے دی تاویتڑی' کے ریمکس ورژن پر کم از کم لپسنک کرنے کی کوشش تو کی ہے-

تاہم، ساجد حسین کے گانے توقعات کے برخلاف خاصے بہتر ہیں-


کہانی: بس بنا ہی دی گئی


سلطنت کے بارے میں کیا کہا جائے- یہ پریشان کن اور اوور شاٹ ہے سمجھ نہیں آتا کہ بخاری اسے ایک موشن پکچر کی طرح شروع کرنے کے بعد ایک سیریل میں تبدیل کرنا چاہتے تھے یا پھر اس کا الٹا تھا، میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، دوسری بات کہانی کی حد تک ہی سہی یہ کام مکمل ہوا-

یہ یقیناً ایک برا فیصلہ تھا کہ ایک چار پانچ سو سینز کی کہانی کو اسی سینز کی موشن پکچر میں سوچا جائے- نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ اس کی شکل ہی بگڑ کر رہ گئی- اس کے علاوہ اس کا لے آؤٹ جتنا برا ہے اتنا ہی مضحکہ خیز بھی ہے-

سکرین شاٹ
سکرین شاٹ

ایسا لگتا ہے جیسے فلم ایک آفٹر تھاٹ ہے جیسے ٹکڑوں کو ایڈیٹر نے جوڑ دیا ہے- اگر بخاری صاحب کی سبجیکٹ پر تھوڑی سی بھی بہتر گرفت ہوتی اور وہ صرف ایک موشن پکچر شوٹ کرتے بجائے اس کے کہ ایک سیریل، تو سلطنت کی کہانی اور اس کے کردار پھر بھی بہت بہتر ہوتے اور شاید ان سے کوئی تعلق بھی جوڑا جا سکتا تھا-


فائنل ورڈ


فلم کو ڈسٹریبیوٹ کیا ہے اے آر وائی نے- ڈائریکٹر ہیں سید فیصل بخاری؛ پروڈیوسر ہیں اسلم بھٹی؛ سکرین پلے ہے پرویز کلیم کا؛ ایڈیٹر ہیں زیڈ اے زلفی، نجیب خان، عدیل پی کے؛ میوزک ہے ساجد حسین کا-

سلطنت کے ستاروں میں شامل ہیں: اسلم بھٹی، مصطفیٰ قریشی، جاوید شیخ، زینب قیوم (جنہیں مکمل طور پر ضائع کیا گیا ہے)، نیئر اعجاز، احسن خان، دیپک شرکے، آکاش دیپ سہگل، شویتا تیواری، اچینت کور، چیتن ہنس راج، گووند نام دیو، پنیت اور صلہ حسین اور سارا لورین (آئٹم نمبروں میں)-

ترجمہ: شعیب بن جمیل

انگلش میں پڑھیں

تبصرے (8) بند ہیں

Aamir Aug 05, 2014 04:10pm
ابھی فلم دیکھی نھیں ھے.... دیکھ کر فیصلہ کریں گے
Khan Aug 05, 2014 05:35pm
Kick jaise ghatiya film ke bare mein kiya khyal hai unki achi koshish ko bhi sarhana nahi atta
Khurram Shahzad Aug 06, 2014 05:44am
پاکستان کے پاس ٹیلنٹ کی کمی نہیں لیکن گھٹیا چیز اگر انڈیا سے آئی ھو تو تم لوگوں کا جھوٹی تعریفیں کر کر کے منہ نہیں تھکتا. واقعی سلمان خان کی گذشتہ تین چار اور نئی فلم “ کک “ انتہائی فضول اور فارمولہ فلم ھے لیکن کیونکہ انڈیا سے آئی ھے تو تم سب کو جان سے پیاری ھے.... کبھی اپنی فلموں کی بھی جھوٹی تعریف ہی کر دیا کرو..... کھاتے پاکستان کا ھو اور گاتے انڈیا کا ھو.....
Nadeem Aug 06, 2014 10:28am
بڑی محنت کی ہے تنقید کرنے میں . مجھے تو آج تک بالی وڈ کی سو ایک دو فلموں کے سب محض مزاہ کے کچھ نہیں لگیں. ڈان ٹو ہی کی مثال لے لیں جسمیں جرمنی جیسے ملک کے ٹاپ بنک کو شاہ رخ خان کس حماقت بھرے انداز میں جرمن پولیس کو لیڈ کر رہے ہیں... شکر کریں آور کوشش کریں کے پاکستانی فلم انڈسٹری کو ایک بار پھر پنپنے کا موقع مل رہا ہے اس کو سراہتے ہوئے کالم لکھا کریں. تواڈی بڑی مہربانی
Lena Aug 06, 2014 12:03pm
@Khan: bilkul sahi kaha
yumna akhtar Aug 06, 2014 05:30pm
kick is a very good movie by salman khan. plz phele mj y bata den k is ma Pakistani artist kitne hen and yhe film b india ki tamil films ki tarahan buddhe hero or herion p h ahson khan ko lia tha to kam bhi karwate such a fazool picture srf india ki cast nazar ari hai basic roles m
sohail Aug 07, 2014 01:14am
first of all i think the analyst is an Indian. we all Pakistanis should appreciate the movie producer and all the effort. if it is the indian movie, you all will be appreciating it but unfortunately you can't do any thing for pakistan and also discourage the others so please stop this nonsense. kick and some recent other indian movies are not good. but we all are watching and appreciating that. so if you can't do something better for Pakistan so at least don't discourage the people who are doing good job. this is the revival of Pakistan cinema so just support it and promote our movies. i hope you should understand if you are really want that Pakistani cinema should be equal to indian and i think in some years it will be better than india. i never reply to anybody but today first time in my life i am giving feedback because we should just support it. this movie is good and not bad. but you did more than enough criticism on this. so please have look at the indian movies recently released in pakistan and also to the movies of pakistan. thanks
Awais Aug 07, 2014 01:44am
trailer he lame lag raha tha... lekin jo loug keh rhay hain indian movie nahi hy to appreciate krna chahiye wo ye bhi dekhain k ye movie hr trha se indian content se pollute ki hui hai... indian actors (specially that main actress), indian style like dressing, songs and specially the item song... jb india ko copy kro gy to yhi hoga. pakistani movie ka ek apna touch hona chahiye. and we proved it in movies like Khuda k liye, Bol, Zinda Bhag and Waar. Sirf "girls" lay aanay se ya item songs lay aanay se movie nai bnti. family movies bhi achi bn skti hain as named above.