دنیا میں ہر 40 سیکنڈ بعد ایک خودکشی

اپ ڈیٹ 04 ستمبر 2014
۔—رائٹرز فوٹو۔
۔—رائٹرز فوٹو۔

جنیوا: عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ دنیا میں ہر 40 سیکنڈ میں ایک شخص خودکشی کر رہا ہے اور یہ تعداد کسی بھی جنگ یا قدرتی آفت میں مرنے والوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔

اقوام متحدہ کی جانب سے دنیا بھر میں خودکشیوں کے حوالے سے مرتب کی گئی پہلی رپورٹ میں ان اموات کا ذمے دار میڈیا کو قرار دیا گیا ہے جہاں سلیبریٹیز کی اموات کو کوریج دینے سے مسائل مزید بڑھ رہے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے شعبہ دماغی صحت کی ڈائریکٹر شیکھر سیکسینا نے جنیوا میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ 40 سیکنڈ میں ایک خودکشی بہت بڑی تعداد ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہر سال 15 لاکھ افراد کی اموات ہوتی ہیں جن میں آٹھ لاکھ افراد خودکشی سے مرتے ہیں۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ خودکشی کے باعث مرنے والوں کی زیادہ تعداد کا تعلق وسطی اور مشرقی یورپ اور ایشیا سے ہے جن میں سے 25 فیصد کرنے والوں کا تعلق امیر ملکوں سے ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق خواتین کے مقابلوں میں خودکشی کرنے والے مردوں کی تعداد دگنی ہے جبکہ اپنی جان لینے کے لیے سب سے زیادہ عام طریقہ کار گلے میں پھندا ڈالنا یا گولی مارنا ہے لیکن دیہی علاقوں میں اس کام کے لیے زہریلی ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں خودکشی کرنے والے زیادہ تر افراد کی عمر 70 سال یا اس سے زائد ہوتی ہے تاہم کچھ ملکوں میں نوجوانوں میں بھی اپنی جان لینے کا رجھان دیکھا گیا۔

’یہ بات قابل ذکر ہے کہ دنیا بھر میں 15-29 سال کے درمیان مرنے والوں کی دوسری بڑی وجہ خودکشی ہے‘۔

رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک الیگزینڈرا فلیش مین نے کہا کہ خودکشی کے بڑھتے رجحان کے کسی حد تک ذمے دار وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے خودکشی کی تشہیر کی جیسے کہ ہالی وڈ اداکار رابن ولیمز۔

آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار ڈپریشن کے مریض تھے اور وہ یکم اگست کو اپنے گھر میں مردہ پائے گئے تھے جس کو میڈیا نے بہت زیادہ کوریج دی تھی۔

خودکشیوں کے خاتمے کی عالمی تنظیم کی صدر ایلا ایرنسمین نے بتایا کہ ولیمز کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد انہیں خودکشی کے بحران سے نکلنے والے پانچ افراد کی ای میلز موصول ہوئیں جس میں لکھ تھا کہ وہ خودکشی کے بارے میں دوبارہ سے غور کرنے لگے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی رپورٹس کا عام آدمی پر بہت اثر ہوتا ہے جبکہ اس موقع پر انہوں نے جرمن فٹبالر کی جانب سے خودکشی کا بھی حوالہ دیا۔

فلیش مین نے کہا کہ خودکشی کو توجہ یا اسے سنسنی خیز نہیں بنانا چاہیے اور نیوز چینلز پر زور دیا کہ اپنی رپورٹ کے آغاز میں خودکشی کو موت کی وجہ ظاہر نہ کریں بلکہ رپورٹ کے اختتام میں بتائیں۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے خودکشی کو عوامی صحت عامہ کا بڑا مسئلہ قرار دیا گیا ہے اور ایک دہائی کے عرصے میں تیار ہونے والی اس ریسرچ میں 172 ملکوں کا بغور معائنہ کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق 2012 میں زیادہ آمدنی والے ملکوں میں خود کشی کی شرح زیادہ رہی جہاں ایک لاکھ میں سے 12.7 لوگوں نے خودکشی کی جبکہ اس کی نسبت درمیانے اور کم درجے کے ملکوں میں یہ شرح 11.2 رہی۔

لیکن اگر آبادی کے اعتباد سے دیکھا جائے تو یہ شرح کل اموات کا تین چوتھائی حصہ بنتی ہے۔

تاہم پاکستان میں شرح نسبتاً کم ہے جہاں ایک لاکھ افراد میں سے سالانہ 9.3 افراد خودکشی کرتے ہیں، اس میں خواتین کی تعداد مردوں کی نسبت زیادہ ہے۔

سال 2000 میں شرح کسی حد تک کم تھی جہاں ایک لاکھ میں مرنے والوں کی شرح 9.1 تھی تاہم 12 سال کے دوران اس میں 0.2 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔

ہندوستان، شمالی کوریا، انڈونیشیا اور نیپال سمیت جنوب مشرقی ایشیا میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد سالانہ اموات کا تین چوتھائی حصہ بنتی ہے۔

عالمی ادارے نے خبردار کیا کہ یہ اعدادوشمار نامکمل ہو سکتے ہیں کیونکہ اکثر ملک اعدادوشمار کا خیال نہیں رکھتے۔

ڈبلیو ایچ او کی سربراہ مارگریٹ چین نے کہا کہ ایک موت میں خودکشی کی کئی بار کوشش کی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کا خاندان، دوستوں اور برادری پر انتہائی برا اثر ہوتا ہے اور اس کے اس شخص کی موت کے کئی مہینوں بعد تک اثرات رہتے ہیں۔

دنیا کے 25 ملکوں خصوصاً افریقہ، جنوبی امریکا اور ایشیا میں خودکشی یا اقدام خودکشی ایک جرم تصور کیا جاتا ہے۔

خودکشی کے حوالے سے دنیا میں سب سے بدترین مقام گیانا ہے جہاں ایک لاکھ میں سے 44.2 افراد خودکشی کرتے ہیں، اس کے بعد شمار اور جنوبی کوریا میں یہ تعداد بالترتیب 38.5 اور 28.9 ہے۔

اس کے بعد سری لنکا میں 28.8، لتھوانیا(28.2)، سُری نامے(27.8)، موزم بیک(27.4)، نیپال اور تنزانیہ(24.9)، برونڈی(23.1)، ہندوستان(21.1) اور جنوبی سوڈان (19.8) ہے۔

اس کے بعد روس اور یوگنڈا (19.5)، ہنگری(19.1)، جاپان(18.5) اور بیلاروس میں 18.3 ہے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد 2020 تک خودکشی کے تناسب کو کم کر کے 10 فیصد تک پہنچانا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں