انتخابی اصلاحات: اگلا قدم

16 ستمبر 2014
لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر ہیں۔
لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر ہیں۔

کچھ ہفتے پہلے میں نے اپنے ایک مضمون میں ان اہم انتخابی اصلاحات پر روشنی ڈالی تھی، جن کو فوری طور پر نافذ کیا جا سکتا ہے۔ آج کے مضمون میں میں انتخابی نظام کی درستگی کے لیے چند مزید گزارشات پیش کروں گا۔

ایک جمہوری سسٹم میں انتخابی نظام میں اصلاحات پارلیمنٹ کے ذریعے ہونی چاہیں۔ پارلیمنٹ اس سے قبل اٹھارہویں آئینی ترمیم اور الیکشن قوانین (ترمیم) ایکٹ 2011 کی صورت میں واضح اصلاحات کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ ان ترامیم کے بعد ووٹ کے اندراج اور ووٹ ڈالنے کے لیے شناختی کارڈ کا ہونا لازمی قرار پایا۔ صرف اس ایک اصلاح کی وجہ سے انتخابی فہرستوں میں سے ایک شخص کے ایک سے زائد اندراج کا خاتمہ ہوا جس سے بوگس ووٹوں کو کم کرنے میں بڑی حد تک مدد ملی۔

اگست 2012 میں سینیٹ نے انتخابی معاملات پر ایک اسپیشل کمیٹی تشکیل دی، جس نے مختلف اسٹیک ہولڈروں سے رابطوں، مشاورت، اور غور و خوض کے بعد مارچ 2013 میں سینیٹ کو اپنی ایک جامع رپورٹ پیش کی۔ اسی طرح قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور، اور اس کی ایک ذیلی کمیٹی نے بھی یہ مشق کی، اور ان کمیٹیوں کی سفارشات کو سینیٹ کی کمیٹی نے انتخابی اصلاحات کا ایک جامع منصوبہ تیار کرنے کے لیے استعمال کیا۔

لیکن عالمی طور پر یہی تجربہ رہا ہے، کہ جیسے جیسے انتخابات کا وقت قریب آتا ہے، ویسے ویسے انتخابی اصلاحات کا نفاذ مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔

بدقستمی سے دونوں پارلیمانی کمیٹیوں کی سفارشات کو آئینی ترامیم اور قوانین کی صورت میں پاس نا کیا جا سکا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جنوری 2013 میں عوامی نمائندگی ایکٹ 1976 میں 24 ترامیم کی سفارش کی تھی، لیکن اس وقت کی (تیرہویں) قومی اسمبلی نے ان ترامیم کو پاس نہیں کیا۔

گذشتہ قومی اسمبلی انتخابی قوانین میں کئی اصلاحات لانے کا کریڈٹ لے سکتی ہے، لیکن اس نے دو پارلیمانی کمیٹیوں اور الیکشن کمیشن کی سفارشوں کو پاس نا کر کے تیز رفتار اصلاحی عمل کو واپس سست کر دیا۔

2013 کے انتخابات سے پہلے پارلیمنٹ میں انتخابی اصلاحات کے حوالے سے جو اتفاق رائے پایا جاتا تھا، اس کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کو اپنے قانون سازی کے ایجنڈے میں پہلی ترجیح انتخابی اصلاحات کو رکھنا چاہیے تھا۔ لیکن ایک نئی پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات کے قیام کے لیے اسپیکر کو خط لکھنے میں انہیں ایک سال کا عرصہ لگ گیا، اور تب تک عمران خان اپنی تحریک کو سڑکوں تک لے آئے تھے۔

پارلیمنٹ کی جانب سے انتخابی اصلاحات کی جامع منصوبہ بندی پہلے ہی کی جاچکی ہے۔ اس کے باوجود وہی کام کرنے کے لیے ایک نئی کمیٹی کی تشکیل سمجھ سے باہر ہے۔ اس کے بجائے روٹ یہ ہونا چاہیے تھا کہ گذشتہ سفارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئینی اور قانونی ترامیم کو ٹیبل پر لایا جاتا، اور ان ترامیم کو پاس کرنے سے پہلے پارلیمنٹ میں بحث کی جاتی، جس سے ان میں موجود خامیوں کو دور کر کے اور بہتر بنایا جاسکتا۔

لیکن اب پاکستان مسلم لیگ (ن) نے انتخابی اصلاحات کے لیے ایک نئی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دلوانے کا فیصلہ کیا ہے، جو 3 مہینوں میں اپنا کام مکمل کرنے کی پابند ہے۔ 3 میں سے ڈیڑھ مہینے پہلے ہی گزر چکے ہیں۔

پلڈاٹ اور گیلپ پاکستان کی جانب سے جولائی اور اگست میں کیے گئے ملک گیر سروے میں 85 فیصد لوگوں نے انتخابی اصلاحات کی زبردست حمایت کی، اور ان کی اہمیت پر زور دیا۔ اب اس نئی انتخابی اصلاحات کمیٹی کے چیئرمین اور ممبران کے لیے ضروری ہے کہ وہ 24 اکتوبر 2014 کو مقررہ مدت کے خاتمے سے پہلے پہلے اپنا کام مکمل کریں۔

پی ٹی آئی کے تین ممبران اسمبلی اور ان کے کچھ اتحادیوں نے کمیٹی کی کاروائی سے علیحدہ رہنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن انہوں نے کمیٹی کا بائیکاٹ نہیں کیا ہے۔ اب جبکہ یہ ممبران اپنے استعفوں کی منظوری کے لیے دباؤ بھی نہیں ڈال رہے، تو امید کی جاسکتی ہے کہ وہ کمیٹی میں واپس آجائیں گے۔ لیکن اگر ان کی کمیٹی میں واپسی نہیں بھی ہوتی، تب بھی کمیٹی کا کام جاری رہنا چاہیے، کیونکہ اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی نے اپنی سفارشات پہلے ہی کمیٹی کو جمع کرا دی ہیں۔ اس کے بعد جب بل اسمبلی میں پیش کیا جائے، تو اس کی کچھ باریکیوں میں ترمیم کی جاسکتی ہے۔

پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ نے الیکشن کمیشن کی قابلیت اور کردار پر سوال اٹھایا ہے، اور بار بار سابق چیف جسٹس، ماتحت عدلیہ، سابق چیف الیکشن کمشنر، اور نگران حکومتوں پر انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہونے کا الزام لگایا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے الیکشن کمیشن کے کچھ افسران پر لاکھوں غیر قانونی بیلٹ پیپر چھپوانے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ جب تک 2013 کے عام انتخابات پر اٹھنے والے ان سنجیدہ نوعیت کے اعتراضات کی شفاف اور اعلیٰ سطحی تحقیقات نہیں کرائی جاتیں، تب تک انتخابی اصلاحات کی کوئی بھی کوشش صحیح معنوں میں فائدہ مند نہیں ہو سکتی۔

اب سپریم کورٹ کے ججز پر مشتمل ایک انکوائری کمیشن کو فوری طور پر قائم کیا جانا چاہیے، جس کے ذمہ یہ پتا لگانے کا ٹاسک ہو کہ آیا 2013 کے عام انتخابات میں کوئی بڑی سازش کی گئی تھی تاکہ ایک پارٹی کا مینڈیٹ چھین کر دوسری پارٹی کو جتایا جاسکے۔

میں ان لوگوں میں سے ہوں، جن کے نزدیک 2013 کے عام انتخابات میں بھلے ہی نااہلی، مس مینیجمنٹ، بے ضابطگیوں، اور مقامی اثر و رسوخ کے ذریعے دھاندلی کے کئی واقعات ہوئے ہیں، لیکن کسی سازش کے تحت ملک گیر دھاندلی کے کوئی ثبوت موجود نہیں ہیں۔ گذشتہ 10 میں سے 7 انتخابات میں انتخابات سے پہلے ہی قومی سطح پر منظم دھاندلی کے ثبوت موجود تھے۔ ان انتخابات میں 2002 اور 2008 کے انتخابات بھی شامل ہیں۔ اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ 2013 کے انتخابات ملکی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات ہیں، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دفعہ ہمارے پاس قومی سطح پر دھاندلی ثابت کرنے کے لیے کوئی دلیل اور ثبوت موجود نہیں ہے۔

بحیثیت قوم ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا، کہ اس معاملے میں سچ سب کے سامنے آئے، اور کوئی ابہام باقی نا رہے۔ اگر الزامات صحیح ثابت ہوجائیں، تو ذمہ دار افراد کو مثالی سزا دی جانی چاہیے۔ لیکن اگر الزامات غلط ثابت ہوں، تو ان لوگوں کو مثالی سزا ملنی چاہیے، جنہوں نے یہ الزامات عائد کیے، اور پورے جمہوری نظام اور اداروں کے کردار کو مشکوک کیا۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 13 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

abdulrauf akhtar Sep 16, 2014 07:10pm
Very strange if almost previous election were rigged , can somebody tell me that this time angel's came to poll's. What you will say about the author of this and his vision . We have to get rid ourselves from this old and corrupt system to move forward . Qr TUQ have a complete program ,Imran khan have also something about it . Now it is up to nation in which direction it moves and choose's it's destiny .