سینیئرز اور جونیئرز کے درمیان

28 اکتوبر 2014
میڈیا میں اب فریش ٹیلنٹ کی ڈیمانڈ ہے، سینیئرزکی نہیں، جبکہ جونیئر بھرتی ہونے والوں کی جاب ہر وقت داؤ پر لگی رہتی ہے۔
میڈیا میں اب فریش ٹیلنٹ کی ڈیمانڈ ہے، سینیئرزکی نہیں، جبکہ جونیئر بھرتی ہونے والوں کی جاب ہر وقت داؤ پر لگی رہتی ہے۔

سننے میں عجیب لگ سکتا ہے، لیکن اخبارات کے آفس کبھی کبھی اس سب سے اتنا تھک جاتے ہیں، کہ وہ اگلی بری خبر آنے کا سوچ کر ہی خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود انہیں باہر کی دنیا سے لاتعلق رہنا پڑتا ہے، تاکہ وہ زندہ رہ سکیں، رپورٹ کرسکیں، اور رائے عامہ ہموار کر سکیں۔ اسی وجہ سے ہمارے کسی اپنے کے بارے میں کچھ ہو، تو یہ زلزلے کی مانند لگتا ہے۔ پروفیشنل چہرہ، جسے مقصدیت بھی کہہ سکتے ہیں، اس وقت مسخ ہوجاتا ہے، جب اس بری خبر کے ذاتی لنک ہوں۔

وہ جناب اپنی زندگی کی 80 سے زائد بہاریں دیکھ چکے تھے۔ ان کی آخری جاب کے وزیٹنگ کارڈ سے معلوم ہورہا تھا، کہ وہ کافی تجربہ کار تھے۔ دو ہفتے پہلے وہ ایک اخبار کے دفتر میں کام کی تلاش کے سلسلے میں گئے تھے، لیکن چلنے کے لیے انہیں اپنے نواسے کے سہارے کی ضرورت تھی۔

انہوں نے پروقار چہرے اور خاموشی کے ساتھ اپنی درخواست کا جواب سنا، اور اپنے جوان سہارے کا ہاتھ تھام کر وہاں سے چل دیے۔ ان سے ان کے کام یا تجربے کے بارے میں کوئی سوال نہیں پوچھے گئے۔ بس اتنا تھا، کہ وہ کام کرنے کے لیے بہت ضعیف ہوچکے تھے۔

ان کے علاوہ ان سے ایک نسبتاً جوان یہ تجربہ کار شخص ہے، جو کبھی پرانے لاہور کے بارے میں لکھتا تھا۔ یہ زیادہ مستقل مزاج قسم کا شخص ہے، جو کسی بھی اس کام پر راضی ہوجائے گا، جس کا اس کے معزز پیشے سے بھلے دور کا ہی تعلق ہو۔ اس طرح کے لوگ اب آپ کو اخبارات کے دفاتر میں نہیں ملیں گے، اور نا ہی آپ کے لیے ان کا ہونا اچھا ہے۔

وہاں کے اسٹاف میں اب بھی کام کی زیادتی کے شکار، گم صم، اور غائب دماغ قسم کے لوگ ہوتے ہیں، لیکن یہی وہ صحافتی خصوصیات ہیں، جو اب اس نسل میں بھی ملتی ہیں، جس نے کھانستے ہوئے، سگریٹ پیتے ہوئے، سفید بالوں والے تجربہ کار صحافیوں کی جگہ لے لی ہے۔

لیکن کسی دور میں ایک نیوزروم سے دوسرے نیوزروم پر حکمرانی کرنے والے، اور اب نوکریوں کی تلاش میں سرگرداں ان تجربہ کار صحافیوں کی بہ نسبت آج کے نوجوان صحافیوں کو اپنے مستقبل کے حوالے سے کم ہی فکرمندی ہے۔

اخبارات نے تبدیلی کو قبول کرنے میں کافی وقت لگایا ہے، لیکن اب لگتا ہے کہ وہ پریشر کے سامنے مجبور ہوگئے ہیں۔ جس طرح آج کل ٹی وی ڈراموں میں نوجوان اداکار اپنے سے بڑی عمر کے رول ادا کرتے ہیں، اسی طرح اخبارات کے دفتر میں آپ کو سینیئر کا خطاب ماضی کے مقابلے میں کافی جلدی مل جاتا ہے۔ لیکن اگر یہ تبدیلی عمر رسیدہ صحافیوں کو منظرنامے سے باہر بھی رکھے، تب بھی پرامید اور کچھ کر دکھانے کے خواہشمند نوجوان صحافیوں کے لیے کام آسان نہیں ہے۔

ملک میں کتنی یونیورسٹیاں صحافت کی ڈگریاں دے رہی ہیں، اس بات کا شمار کرنا مشکل ہے۔ لیکن ایک سوال جو جرنلزم کے شاگردوں، ٹیچروں اور صحافیوں سے پوچھا جاتا ہے، وہ یہ کہ انہیں کہاں نوکری ملنے کی توقع ہے۔ اخبارات میں تو ظاہر ہے نہیں، کیونکہ اکثریت اب الیکٹرانک میڈیا کے گلیمر اور سنسنی سے متاثر ہے، جبکہ ان میں سے بھی زیادہ سمجھدار یہ بات جان چکے ہیں، کہ خبروں کی تلاش میں زندگی بتانے سے زیادہ اچھا اور پرکشش شعبہ پبلک رلییشنز ہے۔

یہ نوجوان زیادہ تر ٹی وی چینلوں کا رخ کرتے ہیں، جہاں انہیں اس حقیقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ اب ٹی وی چینل مالکان کے لیے نئے اور فریش ٹیلنٹ کو کم تنخواہ پر بھرتی کرنا کچھ مشکل نہیں ہے۔

ان نئے بھرتی ہونے والوں کا مقدر ان لوگوں سے بالکل مختلف نہیں ہے، جنہوں نے دوسری فیلڈز میں پروفیشنل ڈگریاں اٹھا رکھی ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح بوڑھے لوگوں پر دروازے بند کیے جاچکے ہیں، اور 30 سال کی عمر کراس کرتے ہی نکال دیے جانے کا ڈر انسان کو گھیر لیتا ہے، بالکل اسی طرح نوجوان بھی خود کو ایک غیر یقینی مستقبل کے سامنے دیکھتے ہیں۔ جن لوگوں کے پاس نوکریاں ہیں، ان کے علاوہ کسی اور کے لیے کوئی نوکری نہیں ہے۔

آئیں میں آپ کو 3 کریڈٹ کارڈ ایجنٹس کی کہانی سناتا ہوں۔ یہ وہ کام ہے، جو انتہائی مشکل کاموں میں سے ایک ہے۔ ویسے تو تینوں ایک دوسرے سے مقابلے میں تھے، لیکن تینوں کی کہانی کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی۔

تینوں ہی اچھی شہرت رکھنے والی یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ تھے، اور نسبتاً نئے نئے بھرتی ہوئے تھے۔ تینوں کو ہی اپنی نوکری پسند نہیں تھی، اور تینوں کو ہی اپنی نوکری کھونے کا مسلسل خوف رہتا تھا۔

سب سے پہلے دھچکا اس کو لگا، جو سب سے پہلے بھرتی ہوا تھا۔ جس بینک میں وہ کام کرتا تھا، اس کا کریڈٹ کارڈ سیکشن ایک دن اچانک بند ہوگیا، اور صرف کچھ ہی ہفتوں کی مدت میں اس کا کریئر ختم ہوگیا۔

دوسرے کو، جس کے خاندان کے حالات زیادہ بہتر نہیں تھے، اور اسے ملازمت کی شدید ضرورت تھی، تب پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب اس سے اچھی ڈگری اور اونچے مقاصد رکھنے والا ایک نیا چہرہ بینک میں آیا۔ بلڈ پریشر کے مریض ہوچکے اس کریڈٹ کارڈ بیچنے والے نوجوان کو معلوم تھا کہ اب اس کی ملازمت، اور ماہانہ دس ہزار روپے کی تنخواہ داؤ پر لگی ہوئی ہے۔

نئے باس نے آتے ہی یہ واضح کردیا، کہ وہ ان سے مزید کام لینا چاہتا ہے۔ ایک گرم دن کارڈز کے خریداروں کی تلاش میں دوسرا نوجوان بلڈ پریشر 200 سے اوپر شوٹ کرجانے کے باعث گر پڑا۔ باس نے کچھ لمحے سوچا، اور پھر کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ اس کے ماتحت لوگ کام کررہے ہیں۔

تیسرا نوجوان تھوڑا خوش قسمت تھا۔ ہر کارڈ کی فروخت پر 500 روپے کمانے والے اس شخص کی ایک اور دفعہ بچت ہوگئی، کیونکہ ایک شخص کارڈ لینے کو تیار ہوگیا تھا۔

نا کوئی تنخواہ، نا پیٹرول، نا ہی کوئی دوسری مراعات۔ جس طرح ایک انتہا پر کچھ لوگ کام دیے جانے کے لیے بہت زیادہ سینیئر ہیں، اسی طرح یہ فریش گریجویٹ فکس تنخواہ پانے کے لیے بہت جونیئر ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری لاہور میں ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 26 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں