اپنی مرضی کی بلنگ؟

17 اکتوبر 2014
نیپرا کو چاہیے کہ اپنا تمام آپریشنل اور فنانشل ڈیٹا اپنی ویب سائٹ پر دستیاب کرے، تاکہ شفافیت کا تاثر ابھرے۔
نیپرا کو چاہیے کہ اپنا تمام آپریشنل اور فنانشل ڈیٹا اپنی ویب سائٹ پر دستیاب کرے، تاکہ شفافیت کا تاثر ابھرے۔

اوور بلنگ اسکینڈل سے لگتا ہے کہ توانائی کا شعبہ تلاطم کا شکار ہے۔ پچھلے ایک ہفتے میں نئے اعلانات اور نئے مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔ جب حکومت نے توانائی کے شعبے میں بھرتیوں پر ایک دہائی سے موجود پابندی ہٹانے کا اعلان کیا، جس سے ہزاروں نئے میٹر ریڈر بھرتی کیے جاسکیں گے، تو ایسا لگا کہ حکومت کے پاس آئیڈیاز ختم ہورہے ہیں۔

اب نیپرا نے اپنی گہری نیند سے بیدار ہو کر کچھ اقدامات کرنے کے بارے میں سوچا ہے۔ اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق نیپرا کے چیئرمین نے ڈسٹریبیوشن کمپنیوں کی جانب سے نئے میٹر ریڈروں کو بھرتی کرنے پر پابندی لگاتے ہوئے کمپنیز پر زور دیا ہے کہ وہ زیادہ شفاف اور صحیح بلنگ کے لیے مہنگی افرادی قوت کے بجائے ٹیکنولاجی کا استعمال کریں۔ کیونکہ اگر زیادہ افرادی قوت توانائی کے بحران کا حل ہوتی، تو توانائی کا کوئی بحران ہوتا ہی نہیں۔

اب جبکہ نیپرا کے چیئرمین نے ایک معقول بات کی ہے، تو ان کے لیے ایک اور بن مانگا مشورہ بھی حاضر ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ انرجی سیکٹر کی بیوروکریسی اپنے صارفین کی ضروریات کے حوالے سے زیادہ فعال ہو، تو آپ ان کو مجبور کریں کہ وہ اپنا آپریشنل اور فنانشل ڈیٹا معمول کے طور پر جاری کیا کریں۔

یہ کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے۔ ہر روز پاور پلانٹس سے لے کر ڈسٹریبیوشن کمپنیوں کے آفسوں تک، اور لاہور میں پیپکو کے ہیڈکوارٹرز تک بڑی تعداد میں آپریشنل ڈیٹا موصول ہوتا ہے۔ اس ڈیٹا میں اس طرح کی معلومات ہوتی ہیں کہ کتنی بجلی پیدا ہوئی، ٹربائنز کی آپریشنل صورت حال کیا ہے، ایندھن کا کتنا اسٹاک باقی ہے، وغیرہ۔ ڈسٹریبیوشن کمپنیاں یہ رپورٹ کرتی ہیں کہ کتنی بجلی خریدی گئی، کتنی بجلی دی گئی، اور کتنے یونٹس کی ریکوری ہوئی۔ یہ صرف سیمپل ڈیٹا ہے، حقیقت میں ڈیٹا اس سے بہت زیادہ ہوتا ہے۔ کچھ روزانہ کی بنیاد پر موصول ہوتا ہے، کچھ ہفتہ وار، کچھ ماہانہ، کچھ جب طلب کیا جائے، اور کچھ ڈیٹا کسی فکس معمول کے بغیر آتا ہے۔

فنانشل ڈیٹا ایک مشکل کام ہے کیونکہ پیپکو کے اپنے فنانشل طریقہ کاروں میں بہت تبدیلی کی ضرورت ہے۔ لیکن سطحی ڈیٹا ضرور جاری کیا جاسکتا ہے۔ اگر فیڈرل بورڈ آف ریوینیو معمول کے مطابق اپنے رپورٹنگ سائیکل میں وصول کیے جانے والے ٹیکس کے اعداد و شمار بتا سکتا ہے، تو پیپکو یہ کیوں نہیں بتا سکتا کہ بلنگ ریکوری سے کتنا پیسہ اکٹھا کیا گیا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ کتنے یونٹس کی بلنگ کی گئی ہے، کیونکہ یہیں پر اصل کھیل موجود ہے۔ صرف اتنا کہا جانا چاہیے کہ بتائیں کتنے پیسے وصول کیے گئے ہیں،اور بس۔

اس سے کیا ہوگا؟ سب سے پہلا یہ کہ یہ پیپکو کی مینیجمنٹ میں ایک ڈسپلن لائے گا۔ دوسرا یہ، کہ اس سے نمبروں کے ساتھ کھیلنا مشکل ہوجائے گا۔ جب ڈیٹا کافی بڑی تعداد میں جمع ہوجائے، تو ابنارمل چیزوں کو پہچان لینا آسان ہوجاتا ہے۔ اس سے توانائی کے شعبے کی بیوروکریسی میں احتساب کا ایک نیا لیول قائم ہوگا، جس سے ابھی تک یہ شعبہ ناواقف ہے۔

یہ کرنا بہت مشکل نہیں ہوگا۔ بلکہ اگر دیکھا جائے تو یہ بہت آسان ہے۔ یہ ڈیٹا ایک رپورٹنگ ٹیمپلیٹ کا حصہ ہے۔ صرف اتنا کیا جائے، کہ پیپکو ہیڈکوارٹرز سے نیپرا ہیڈکوارٹرز تک رپورٹنگ شروع کرا دی جائے، اور جیسے ہی نیپرا ہیڈکوارٹرز تک ڈیٹا پہنچے، تو یہ نیپرا کی ویب سائٹ پر دستیاب ہوجائے، جہاں سے یہ ہر کسی کی پہنچ میں ہو۔

ایک دفعہ جب ڈیٹا بڑی تعداد میں جمع ہوجائے، تو یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ بجلی کہاں سے آرہی ہے، اور کہاں جارہی ہے۔ اور اسی طرح سے فنڈز کی جانچ بھی کی جاسکتی ہے۔ اب کیونکہ زیادہ تر گرڈز میں اسمارٹ فیڈرز متعارف کرا دیے گئے ہیں، تو ایک کمپیوٹرائزڈ نقشہ بنانا بہت آسان ہے، جس میں کسی بھی فیڈر پر کلک کرنے سے اس کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکیں۔

ہم ہر پاور ہاؤس کو ملنے والے ایندھن، اس کے بدلے ملنے والی بجلی، اور اس بجلی کے صارفین تک کے سفر کو جانچ سکتے ہیں۔ جب یہ ڈیٹا عوام کی پہنچ میں ہوگا، تو سسٹم کی خرابیوں کی ایک تصویر بنانا کافی آسان ہوجائے گا، اور ان مقامات کی آسانی سے نشاندہی کی جاسکے گی جہاں مسائل موجود ہیں۔

میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ کسی دوسرے ملک کے توانائی کے شعبے میں اس طرح کا کوئی سسٹم نافذ العمل ہے، لیکن یہ حکومت کے دوسرے شعبوں میں پہلے سے کام کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان ہے، جو سب سے زیادہ دماغ چکرا دینے والا ڈیٹا جاری کرتا ہے۔ معیشت کے ہر پہلو پر روزانہ، ہفتہ وار، 15 دنوں کا، ماہانہ، سہہ ماہی، اور سالانہ ڈیٹا جاری کیا جاتا ہے۔ آپ یہ جان سکتے ہیں کہ کتنے نوٹ چھاپے گئے ہیں، کتنے بینکوں کو دیے گئے ہیں، اور کتنا کیش سرکولیشن میں موجود ہے۔

اس میں حکومت کے قرضے بھی بہت زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ آپ حکومت کے تمام مالیاتی معاملات دیکھ سکتے ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اسٹاکس کی کیا صورت حال ہے وغیرہ۔ ہماری سہولت کے ڈیٹا ایکسل فارمیٹ میں جاری کیا جاتا ہے، اور اسے ڈائریکٹ ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے۔

اوگرا اور پانی کے شعبے کی بیروکریسی بھی ڈیٹا باقاعدگی سے جاری کرتی ہے، اور اسی طرح فیڈرل فلڈ کمیشن اور محکمہ موسمیات بھی۔

اس حوالے سے توانائی کا شعبہ اندھیرے میں ہے۔ ڈیٹا جاری کیے جانے کے حوالے سے کوئی ضابطہ موجود نہیں ہے، جبکہ بجلی کی سپلائی اور ڈیمانڈ کے درمیان فرق بھی ہلکے پھلکے انداز میں فون پر بتا دیا جاتا ہے۔ اس سلسلے کو اب ختم ہونا ہوگا۔ اوور بلنگ اسکینڈل کے بعد اتنا ضرور ہونا چاہیے، کہ اس شعبے کے تاریک حصوں پر روشنی ڈالی جائے، اور اس کی شفافیت پر سوالات اٹھائے جائیں۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر khurramhusain@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 2 اکتوبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں