ہندو موتی اور مسلم جگر

اپ ڈیٹ 20 اکتوبر 2014
موتی لعل نہرو اور جگر مرادآبادی
موتی لعل نہرو اور جگر مرادآبادی

جگر مراد آبادی اور موتی لعل نہرو مشترکہ ہندوستان کی دو عظیم شخصیات ہیں۔ دونوں حضرات انڈین نیشنل کانگریس سے وابستہ تھے۔ موتی لعل ایک فعال سیاسی کارکن تھے۔ انھوں نے انگریز استعمار سے ہندوستان کو آزاد کروانے کے لیے ان تھک جدوجہد کی۔ اسی طرح جگر مراد آبادی نے اپنی شاعری کے ذریعے انگریز ی سرکار کی جانب سے ہندوستانیوں پر کیے جانے والے مظالم کوبیان کیا۔ موتی لال نہرو تقسیم ہند سے قبل 1931 میں وفات پاگئے۔ جگر کا انتقال 9 ستمبر 1960 کو ہوا۔ ان کی تدفین ہندوستانی شہر گونڈہ کے محمد علی پارک میں عمل میں آئی۔

ڈاکٹر محمد ضیاء الدین انصاری اپنی کتاب جگر مراد آبادی میں لکھتے ہیں کہ جگر کٹر وطن پرست تھے۔ ہندوستان کی تضحیک وہ کسی حال میں گوارا نہیں کرتے تھے۔ ہندوستان کی آزادی سے قبل وہ تحریک آزادی کے حامیوں میں سے تھے۔ اگرچہ انھوں نے عملی طور پر حصہ نہیں لیا لیکن وہ رہے اس کے حامی اور ہر سچے ہندوستانی کی طرح غیر ملکی اقتدار کے مخالف پنڈت جواہر لعل نہرو، ڈاکٹر سمپور نانند اور ڈاکٹر ذاکر حسین جیسے حضرت ان کی بڑی قدر و منزلت کرتے تھے۔ 1958کو انھیں ساہتیہ اکیڈمی کا انعام دیا گیا۔ جو اس وقت ملک کا سب سے بڑا ادبی انعام تھا۔

جگر مراد آبادی آزادی کے بعد پاکستان ضرور آئے اور انھوں نے یہاں مشاعروں میں شرکت بھی کی، لیکن مستقل سکونت کے لیے ہندوستان کا ہی انتخاب کیا۔ وہ غزل کے ایک نمایاں شاعر تھے ان کے کئی شعر ضرب المثل کا درجہ اختیار کرگئے۔

یہ عشق نہیں آساں، بس اتنا سمجھ لیجیے

اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے

ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے


وہ بنیادی طور پر ایک انسان دوست اور محب وطن شاعر تھے۔ 1943 میں جب بنگال میں زبردست قحط پڑا تو انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

بنگال کی میں شام و سحر دیکھ رہا ہوں

ہر چند کہ ہوں دور مگر دیکھ رہا ہوں

افلاس کی ماری ہوئی مخلوق سرراہ

بے گور و کفن خاک بسر دیکھ رہا ہوں


گاندھی جی کے قتل پر انھوں نے گاندھی جی کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا تھا۔

گاندھی جی وہ ذات مکرم

گاندھی جی وہ خلق مجسم

گاندھی جی وہ محسن اعظم

سوگ ہے جن کا عالم عالم


جگر ایک سچے اور پر خلوص ہندوستانی تھے۔ اپنے اس اصول پر انھوں نے کبھی مصلحت روا نہیں رکھی۔ وہ دل کی گہرائیوں سے ہندوستان سے محبت کرتے تھے اور ہندوستان پر ہونے والی تنقید کو برداشت نہیں کرسکتے تھے۔

بقول ڈاکٹر محمد ضیاء الدین انصاری ، جگر کی ایک مشہور نظم ’’بھاگ مسافر میرے وطن سے میرے چمن سے بھاگ‘‘ میں وطن کی کچھ خامیوں کا ذکر ہے اور ہم وطنوں سے کچھ شکایتیں کی گئی ہیں۔ یہ نظم انھوں نے آزادی کے فوراً بعد لکھی تھی۔ اس زمانے میں اس کے بہت چرچے ہوئے۔ ہر ایک کی زبان پر اس کے اشعار رہتے تھے۔

اسی زمانہ میں جگر کا پاکستان جانا ہوا۔ وہاں خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل تھے۔ وہ جگر کی بڑی عزت کرتے تھے۔ ان کی قیام گاہ پر ایک نشست تھی۔ اس میں خود خواجہ ناظم الدین نے جگر سے اس نظم کی فرمائش کی لیکن جگر نے اسے سنانے سے صاف انکار کر دیا اور فرمایا’’ وہ شکایت اپنوں سے تھی، اس کو میں یہاں نہیں سنا سکتا‘‘ انھوں نے اصرار کیا لیکن جگر کسی طرح اسے سنانے پر راضی نہ ہوئے اور دوسری غزلیں سنا کر الگ ہوگئے۔

اسی زمانے میں کراچی کے ایک مشاعرہ میں کسی پاکستانی شاعر نے ایک نظم پڑھی جس میں ہندوستان کے خلاف زہر اگلا گیا تھا۔ اور کشمیر کے لیے جہاد کی دعوت دی گئی تھی۔ جگر بھی اس مشاعرے میں شامل تھے۔ انھوں نے برسر مشاعرہ اس پر احتجاج کیا اور مشاعرے سے اٹھ کر چلے آئے۔

اب ذکر کرتے ہیں موتی لعل نہرو کا۔ موتی لعل نہرو وہ عظیم ہندوستانی شخصیت تھے جن کے اثرات آج بھی ہندوستانی سیاست پر نمایاں ہیں۔ موتی لعل پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل تھے۔ ان کا تعلق ایک کشمیری برہمن خاندان سے تھا۔ لیکن ان کی ذات مذہبی تفریقات سے بالاتر تھی۔ انھوں نے ہندوستان کی جہدوجہدِ آزادی میں سرگرم کردار ادا کیا۔

موتی لعل دو بار کانگریس کے صدر منتخب ہوئے۔ وہ ہندوستان کی مکمل آزادی کے علمبردار تھے۔ ان کا شمارگاندھی جی کے ناقدین میں بھی ہوتا تھا۔ موتی لعل تقسیم ہند سے قبل ہی انتقال کرگئے تھے۔ ان کے بعد ان کے بیٹے جواہر لعل نہرو کانگریس کے صدر بنے اور تقسیم کے بعد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم بھی۔

جواہر لعل نہرو کے بعد ان کی بیٹی اندرا گاندھی ہندوستان کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ گاندھی جی کی مناسبت سے اندرا گاندھی کا نام گاندھی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے ایک ہندوستانی پارسی فیروز گاندھی سے شادی کی تھی جس کے بعد ان کا نام اندرا گاندھی ہوگیا۔

اندرا گاندھی کے بعد ان کے بیٹے راجیو گاندھی وزیر اعظم بنے جنہیں بعد ازاں ایک خود کش حملے میں قتل کر دیاگیا۔ موتی لعل نہرو کا خاندان آج بھی ہندوستان کی سیاست میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ اب وہ سونیا گاندھی کی شکل میں ہو یا راہول گاندھی کی، لیکن نہرو اور گاندھی کا یہ سیاسی سنگم آج بھی ہندوستانیوں کے دلوں پر راج کرتا ہے۔

موتی لعل نہرو کے نام سے کراچی کی ایک سڑک منسوب تھی اور ایک سڑک ان کے بیٹے جواہر لعل نہرو کے نام سے بھی منسوب تھی جبکہ ایک اور سڑک جواہر لعل کی بیوی کملا نہرو کے نام پر بھی تھی۔ موتی لعل نہرو اور جواہر لعل نہرو کے نام سے وابستہ سڑکوں کے نام تبدیل ہوگئے ہیں۔ لیکن کملا نہرو کے نام سے منسوب سڑک ابھی بھی موجود ہے۔ جواہر لعل نہرو اور کملا نہرو کے ناموں سے منسوب سڑکوں کا ذکر پھر کسی بلاگ میں کریں گے ابھی ہم موتی لعل نہرو کے نام سے وابستہ سڑک پر خود کو محدود رکھنا چاہتے ہیں۔

جگر مراد آبادی اور موتی لعل نہرو دونوں ہی عظیم محب وطن تھے۔ موتی لعل کو موجودہ پاکستان میں شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ لیکن جگر کو عام آدمی تو نہیں، شعراء اور ادیب تو ضرور جانتے ہوں گے۔ اب آئیے اصل موضوع کی جانب۔ کراچی کے علاقے جمشید کواٹر کے نقشے میں موتی لعل نہرو روڈ ہے۔ کراچی میونسپل کارپوریشن کے 1977 کے نقشے میں بھی موتی لعل روڈ کا ذکر ہے۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ اس موضوع کا انتخاب ہم نے کیوں کیا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کراچی میں ایک سڑک کا نام موتی لعل نہرو روڈ تھا یہ روڈ اب جگر مراد آبادی روڈ ہے۔ دونوں حضرات پکے سچے ہندوستانی تھے۔ کیا ضرورت تھی کہ موتی لعل روڈ کو جگر مراد آبادی روڈ کا نام دیا جائے۔ چلیں نام دے تو دیا۔ لیکن کیا صرف روڈ کا نام تبدیل کرنا تھا۔ نہیں جی نہیں۔ ایک بات قابل غور ہے کہ موتی لعل اور جگر دونوں ہندوستانی تھے لیکن ایک ہندو اور ایک مسلمان تھا۔

— فوٹو اختر بلوچ
— فوٹو اختر بلوچ

ہندو یعنی موتی لعل تقسیم ہند سے قبل مر گئے۔ مسلمان جگر مراد آبادی تقسیم کے بعد بھی زندہ رہے۔ تو پھر بھی موتی لعل روڈ جگر مراد آبادی روڈ کیوں ہوا؟ صرف اس وجہ سے کہ موتی لعل ہندو تھا اور جگر مراد آبادی مسلمان۔ جگر مراد آبادی کے نام سے منسوب اس سڑک پر جمشید ٹاؤن کے دفاتر بھی ہیں لیکن ان پر آویزاں بورڈز پر سڑک کا نام نظر نہیں آتا۔

— فوٹو اختر بلوچ
— فوٹو اختر بلوچ
— فوٹو اختر بلوچ
— فوٹو اختر بلوچ

اس سڑک پر جگر مراد آبادی روڈ کا نام ایک لائبریری اقبال لائبریری کے بورڈ پر تحریک ہے۔ یہ سڑک داؤد انجینئرنگ کالج کے بالمقابل نصب دنیا کے نقشے سے شروع ہوکر گرومندر کی طرف جاتے ہوئے ختم ہوتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں