خیالات پر کنٹرول

20 اکتوبر 2014
حقیقت یہی ہے کہ خیالات کے اظہار کی آزادی ابھی بھی متعدد مقامات میں 16 ویں صدی کی طرح کسی خواب سے کم نہیں۔
حقیقت یہی ہے کہ خیالات کے اظہار کی آزادی ابھی بھی متعدد مقامات میں 16 ویں صدی کی طرح کسی خواب سے کم نہیں۔

گیورڈانو برونو ایک معروف اطالوی فلسفی ہیں جنھیں 1592 سے 1600 تک بالادست کیتھولک فرقے کے خلاف خیالات رکھنے پر ٹرائل کا سامنا کرنا پڑا اور دنیا کے فرسودہ خیالات پر سر نہ جھکانے اس پر انہیں جلا کر ہلاک کردیا گیا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ لوگوں کو آج کی دنیا میں سنسر کے نام پر ٹرائل کے لیے منتخب کرنے والے افراد کے نام اور مقاصد تبدیل ہوگئے ہوں گے مگر حقیقت یہی ہے کہ خیالات کے اظہار کی آزادی ابھی بھی متعدد مقامات میں 16 ویں صدی کی طرح کسی خواب سے کم نہیں۔

پاکستان کا آئین ہر شہری کو اظہار رائے کی آزادی کا حق دیتا ہے، جبکہ اس کی شق 260(3) معاشرے کے اقلیتی فرقے کی 'غیرمسلم' کے نام سے درجہ بندی کرتا ہے۔

اسی شق کی تقلید کرتے ہوئے جنرل ضیاءالحق نے 1984 میں ایک آرڈنینس متعارف کرایا جس میں مخصوص غیرمسلم برادریوں کو خود کو مسلمان دکھانے یا مسلم عقیدے سے وابستہ کسی بھی لقب یا نام کو اپنانے سے روک دیا گیا۔

ظہیرالدین کیس میں سپریم کورٹ نے اکثریت کی بنیاد پر اس آرڈنینس کو جائز قرار دیا تاہم اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس شفیع الرحمن نے نے اس کے کچھ حصے غیرمسلموں کے حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا اور زیادہ اہم یہ کہ اس کے نفاذ سے خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔

جسٹس شفیع الرحمن نے ان تحفظات کا اظہار کیا کہ اس کے نفاذ کے نتیجے میں ریاست شہریوں کے ذہنوں کو پڑھنے کی کوشش کرسکتی ہے اور ان کے خیالات پر انہیں ممکنہ طور پر سزا دے سکتی ہے، اس کی روشنی میں انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ کسی جرم پر کسی کو قابل تعزیر قرار دیئے جانے پر اگر کسی شخص کی ذہنیت، عقیدے اور خیالات کے بارے میں تحقیقات کرائی جائے، تو اس طرح کی قانون سازی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔

اپنی بیان کردہ وجوہات پر پورا یقین رکھتے ہوئے انہوں نے یہ قیاس ظاہر کیا کہ اگرچہ اظہار رائے کی آزادی مناسب پابندیوں کی متنقاضی ہے، تاہم ایک خط کسی شخص کی مخصوص آراءکی صلاحیت کا تعین نہیں کرسکتا۔

جسٹس شفیع الرحمن کے یہ تحفظات جائزہ تھے، درحقیقت وہ اس سے پہلے بھی ایک سوال کے فیصلے میں مثال قائم کرچکے تھے، پاسپورٹ کے حصول کے لیے ریاست نے ایک نیا طریقہ کار متعارف کرایا ، وہ یہ کہ ہر مسلمان کو پاسپورٹ اپلیکشن فارم کے ساتھ ایک حلف نامے پر دستخط کرنا ہوں گے، جس میں انہیں واضح الفاظ میں معاشرے کے مخصوص افراد کو غیرمسلم قرار دینا ہوگا۔

اس حلف نامے اور اس کے مندرجات کو سپریم کورٹ کے سامنے چیلنج کیا گیا، عدالت نے اس معاملے کی امیت سمجھتے ہوئے اس کے متعدد پہلوﺅں کا جائزہ لیا۔

اس حلف نامے کا ایک پہلو اظہار رائے کی آزادی پر مرتب ہونے والے اثرات پر مبنی تھا جس کی آئین نے ہر شہری کو ضمانت دی ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حلف نامے پر دستخط کی قانون میں کوئی قانونی پوزیشن موجود نہیں، آخرکار اس حلف نامے کو واپس لے لیا گیا، یہ درست تھا یا نہیں مگر مسلمان اور غیرمسلم کی آئین میں تعریف موجود ہے۔

درحقیقت مسئلہ اختلاف رائے میں کمی کے لیے کی گئی کوشش میں موجود ہے جو قانون کے مخالفین کے خلاف استعمال میں چھپا ہوا ہے، مخالف رائے کا اظہار قابل برداشت نہیں ہوتا، یہ وہی مسئلہ ہے جو حلف نامے کے ساتھ جڑا ہوا تھا، درحقیقت مقصد قانون کی تابعداری کرانا نہیں ہوتا بلکہ اپنے مقاصد کی مذہبی بنیادوں پر منظوری طاقت کے بل پر حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہوتا ہے، آسان الفاظ میں اس کے ذریعے ہمارے ذہنوں تک رسائی، ہمارے خیالات کو سنسر اور ہماری رائے کو ترتیب دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اس غیرمعقولیت کی وضاحت مثالوں کے ذریعے کرنا زیادہ بہتر ہوگا، تحفظ پاکستان آرڈنینس 2013 کے نفاذ کے موقع پر ہر عاقل شہری نے اس قانون کی حرمت کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا گیا تھا، تاہم یہ عوام کو قانون کے معیار پر تنقید یا استعمال سے عدم اتفاق سے روکنے کا کوئی مناسب راستہ نہیں۔

اگرچہ کچھ نے اسے سراہا اور دیگر نے اسے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا، یہ قانون ابھی بھی نافذ ہے اور اس پر عمل بھی ہورہا ہے، اگر قانون سازی پر تنقید کی اجازت دی گئی تاکہ اس ایکٹ کو کارآمد شکل دی جاسکے تو اس پر 2014 میں رسمی عملدرآمد ہوچکا ہے۔

تاہم جہاں تک بات ہے آرٹیکل 260(3) کی اور اس آرڈنینس کی، تو اس حلف نامے میں شہریوں پر قانون کے مواد کے تنقیدی جائزے، تنقید یا مباحثے کی صلاحیت کو محدود کردیا گیا تھا، اسی کا نتیجہ ہے س پر مباحثہ مذہبی آزادی کی روک تھام کی بجائے کسی فرد کی کسی معاملے کے حق پر ہونے سے متعلق آزادی سے سوچنے کی صلاحیت کی بجائے ریاستی نکتہ نظر تھوپنے کی جانب مڑ گیا۔

یہ حلف نامہ اس بات کی علامت ہے کہ ریاست ناصرف مسلمانوں کے مبینہ مشتعل جذبات کو روکنے کا عزم رکھتی ہے بلکہ وہ شہریوں کو اس طرح کے قوانین پر آزادانہ نکتہ نظر رکھنے کا حق دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔

اس طرح کا عزم کسی واحد قانون سازی تک محدود نہیں رکھا جاسکتا، درحقیقت یہ کسی بحث کا گلا گھونٹ دینے کی چالاکی ہے جسے معاشرے کی سطح تک توسیع دے دی گئی ہے، والٹئیر کا ایک قول ہے"وہ معاملات درست قرار دینا خطرناک ہوسکتا ہے جنھیں انتظامیہ نے غلط قرار دے رکھا ہو"۔

انگریزی میں پڑھیں۔


لکھاری ایک وکیل ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں