ہندوستان کے ساتھ جنگ کیوں؟

اپ ڈیٹ 25 نومبر 2014
ہندوستان تمہاری فلموں نے سیکھایا ہے پیار دوستی ہے تو تمہیں اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ کچھ کچھ ہوتا ہے تم نہیں سمجھو گے۔
ہندوستان تمہاری فلموں نے سیکھایا ہے پیار دوستی ہے تو تمہیں اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ کچھ کچھ ہوتا ہے تم نہیں سمجھو گے۔

آخر پاکستان میں کچھ حلقے کیوں ہندوستان سے جنگ کا مشورہ یا تجویز دیتے ہیں؟

یہ دنیا کا ممکنہ طور پر واحد ملک ہے جو کترینہ کیف کو اس کے آم کے مشروب کے اشتہار کے ساتھ دیکھنا نہیں چاہتا۔

دوسری جانب ہندوستان کو بھی لائن آف کنٹرول پر کشیدگی میں اضافے کے حوالے سے محتاط رہنا چاہئے، اگر ہم فواد خان اور علی ظفر کو وہاں سے واپس آنے کا کہیں تو ہندوستانی ناریاں سنیل سیٹھی اور اجے دیوگن کو پسند کرنے کی بجائے اس غم میں بے ہوش ہوجائیں گی۔

پاکستان اور ہندوستان کو یقیناً دوستانہ سرحد کو شیئر کرنا چاہئے تاکہ ثانیہ مرزا کے لیے واپسی کا سفر آسان ہوجائے اور میکے و سسرا کی تکرار سے جان چھوٹ جائے، ہوسکتاہے جب ثانیہ اپنے والدین سے ملنے کے لیے گئی ہوئی ہو تو شعیب ملک کو کچھ کرکٹ کھیلنے کا موقع مل جائے ۔

ہم 67 سال سے ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں، ٹھیک ہے ماضی میں جب میں اپنے گھر منتقل ہوا تو اپنے پڑوسیوں کے گھر کی لیموں پھینکتا اور وہ میرے داخلی دروازے کے ساتھ کرکٹ کھیلتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ اسے اس کا حق حاصل ہے، مگر بتدریج ہم اکھٹے رہنے کا طریقہ ڈھونڈ لیا، اب ہم ایک دوسرے سے روزانہ کی بنیاد پر آلو اور چینی ادھار مانگتے ہیں یہاں تک کہ ہم اکھٹے ہوکر علاقے کے باسیوں کے بارے میں چغلیاں کرتے ہیں۔

پاکستان اور ہندوستان کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئے، اس پر تبادلہ خیال کرنا چاہئے کہ بنگلہ دیش کی عمر شادی کے لائق ہوگئی ہے اور اب اس کے لیے مناسب سپرپاور امیدوار ڈھونڈ ہی لینا چاہئے یا یہ کہ اس نے اتوار بازار میں خریداری کرتے ہوئے سری لنکا کو دیکھا حالانکہ وہ تو ہمیشہ "ڈیزائنر کپڑے" پہننے کا دعویٰ کرتی ہے۔

اگر وہ دونوں چینی سفیر کو روزانہ رات گئے نظریں بچا کر سفارتخانے یمیں جاتے دیکھیں تو اس بات پر قیاس آرائی کی جائے کہ آخر کس نئے ملک کے ساتھ اس کا افیئر چل رہا ہے۔

پاکستان اور ہندوستان کو جو نمبرون چیز کرنے چاہئے جو ان پڑوسیوں کو بہترین دوست بنا دے گی وہ تقاریب میں بچی بریانی کو اپنے گھروں کا بھیجنا ہے۔

دونوں ممالک کے گھرانے اپنے پڑوسیوں اور صحت مند برادریوں سے فرضی دوستی کرتے ہیں بلکہ آپ تو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہے کہانی گھر گھر کی، اگر ہندوستان کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس وقت بالادست ہے اور استحصال کرسکتا ہے تو اسے یہ بھولنا نہیں چاہئے کہ ساس بھی کبھی بہو تھی، دونوں کو میرا سلطان جیسا بننے کی بجائے اچھا ہمسفر بن جانا چاہئے۔

اور پھر بھی دونوں ممالک باہمی تعاون کی بجائے مسابقت پر اصرار کرتے رہیں تو پھر یہاں جنگ کے مقابلے میں زیادہ بہتر متبادل بھی دستیاب ہیں۔

ایسے ہی کچھ آئیڈیاز یہ ہیں:

• شاہ رخ خان اور ساحر لودھی ایک دوسرے سے 'بیسٹ ساحر لودھی امپرسنیٹر ایوارڈ' کے لیے مقابلہ کرسکتے ہیں۔

• طاہر شاہ اور ہمیش ریشم میاں گانے کا مقابلہ کرسکتے ہیں، ان کے لیے ممکنہ سپرہٹ دوگانے یہ ہوسکتے ہیں جیسے" آئیز دکھلا جا" اور "دل کے سوراخ دیواروں پر آئیز ہے تیری تیری"۔

• وہ ایک گیم گلوڈنڈا کھیل سکتے ہیں، جو کہ عدم تشدد کے حامیوں کے گاندھی کے ڈنڈے اور بالکل ہی پرامن گلوبٹ جیسی طاقت پر مشتمل ہوسکتا ہے۔

• بلاول بھٹو اور راہول گاندھی کے درمیان ہجوں یا اسپلنگ کا مقابلہ کرایا جاسکتا ہے جس میں ان دونوں سے اردو اور ہندی کے الفاظ کے ہجے پوچھے جاسکتے ہیں۔

• ماسٹر شیف طرز کا مقابلہ ہندوستان وزیراعظم نریندرا مودی، جن کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے اپنا کیرئیر چائے فروخت کرکے شروع کیا، اور پاکستانی صدر ممنون حسین، جن کے بارے میں ان کا کیئیر دہی بھلوں کی فروخت سے شروع ہوا، کے درمیان کرایا جانا چاہئے، دونوں اپنے فوڈ اسٹالز لگا کر دیکھیں کہ کون بازی مارتا ہے، متبادل کے طور پر ہم پیک مین کی طرح کی گیم بھی بناسکتے ہیں جس میں نواز شریف سب کچھ کھاجاتے ہیں۔

• ایم ٹی وی کے روڈیز اعزاز یافتہ راگو رام اور لیونگ آن دی ایج کے وقار ذکا اپنے اپنے شوز کے لیے ایک دوسرے کا آڈیشن لیں اور دیکھیں کہ کون زیادہ 'دلیری' دکھاتا ہے۔

• میں ایک ایسے مقابلے کی بھی تجویز دوں گا جس میں دیکھا جائے کہ کس ملک کا کوک اسٹوڈیو زیادہ بہتر ہے، مگر اس وقت ہوسکتا ہے کہ پیپسی بھی اس بات پر متفق ہوجائے کہ پاکستان کا کوک اسٹوڈیو بہترین ہے۔

یہ محض چند تجاویز ہیں، ہم سب متحد ہوکر ان تمام آئیڈیاز کو دونوں ممالک کے درمیان ایک اولمپک طرز کے مقابلے کی شکل دے سکتے ہیں جس سے یہ دونوں زیادہ قریب آجائیں۔

امید کی جاسکتی ہے کہ ہمیں اب مزید وینا اور اشمیت پٹیل کے رومانوی مناظر نہیں دیکھنا پڑیں گے۔

دونوں ممالک کے اہم فنکار کو رضاکارانہ طور پر ان مقابلوں کے لیے آگے آنا چاہئے، ہندوستان کے طاہر القادری (جنھیں 'ذاکر نائیک' کے نام سے جانا جاتا ہے) کو اپنی یاداشت کی آزمائش کا مقابلہ ہمارے اسپورٹس اینکر مرزا اقبال بیگ سے کرنا چاہئے۔

یہ دونوں چھوٹی چھوٹی تفصیلات کو یاد رکھنے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتے ہیں، مرزا اقبال بیگ اکثر اپنے شو میں مہمانوں کا استقبال کچھ ان جملوں سے کرتے ہیں"سترہ اکتوبر کی دوپہر چار بجے کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم کے جاوید میاں داد پویلین کے گراﺅنڈ فلور کے باتھ روم کے چوتھے اسٹال میں آپ نے جب بیس منٹ کے بعد چیخ ماری تو پھر میں روزپیٹل کا سترہ روپے کا ٹوائلٹ پیپر آٹھ قدم اٹھا کر آپ کے پاس آگیا"۔

دوسری جانب یہ ہندوستان کے ایک ریسٹورنٹ میں ذاکر نائیک اور ایک ویٹر کے درمیان ہونے والی گفتگو کی جھلکیاں ہیں۔ ویٹر"ہیلو سر میں آپ کے لیے کیا کرسکتا ہوں؟

ذاکر نائیک"میں صفحہ نمبر سات کے آئٹم نمبر 47 چاہتا ہوں"۔

ویٹر"یقیناً سر یہ چکن برگر ہے کیا آپ اس کے ساتھ فرائیز لینا پسند کریں گے؟

ذاکر نائیک" کیوں؟ کیوں میں فرائیز کا بھی آرڈر دوں؟ صفحہ نمبر سات کی لائن نمبر آٹھ پر لکھا ہے کہ تمام برگرز کے ساتھ فرائیز ملیں گے"۔

ویٹر"ٹھیک ہے سر یہ پانچ سو روپے کا ہے"۔

ذاکر نائیک"پانچ سو کیوں؟ مینیو کے صفحہ نمبر سات پر تحریر ہے کہ چکن برگر کی قیمت 427 روپے ہے، انڈین ایکٹ آف ٹیکسائزیشن 1965 کے صفحہ نمبر 45 کی شق نمبر 7 پارٹ بی میں واضح طور پر درج ہے سولہ فیصد سے زائد جی ایس ٹی لینا حرام ہے، 427 روپے پر سولہ فیصد ٹیکس 68.32 روپے بنتا ہے، تو کل رقم 495.32 پیسے ہوئی، آخر کیوں تم چار روپے اور 68 پیسے اضافی لے رہے ہو؟ یہ حرام ہے میرے بھائی"۔

یہ افواہ گرم ہے کہ ذاکر نائیک نے بھی عمران خان سے رابطہ کرکے ریسٹورنٹ کی 'دھاندلی' پر دھرنے کا انتظام کرنے کی درخواست کی، اولمپک کے دوران پی ٹی آئی اور انا ہزارے کے درمیان ایک دھرنے کے مقابلے کو شامل کیا جاسکتا ہے۔

ہم نے دونوں ممالک کے درماین تعلقات بہتر بنانے کے لیے لاتعداد مواقعوں پر ہندوستان سے رابطہ کیا، یہاں تک کہ ہم نے انہیں ورلڈکپ کا سیمی فائنل بھی جیتنے کا موقع اس طرح فراہم کیا کہ جب سچن ٹنڈولکر بیٹنگ کررہے تھے تو تمام پاکستانی فیلڈر یہ تصور کرنے میں مصروف تھے کہ وہ سب کامران اکمل ہیں، بظاہر وہ واحد فرد ہیں جو کیچ کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

ہندوستان کو چاہئے پاکستان سے مساوی سلوک کرے، ہم کسی بھی شعبے میں اس سے زیادہ پیچھے نہیں، مودی نے اوباما سے ملاقات کی اور ہمارے پاس اسامہ ہے، ہم بس چند الفاظ ہی تو اس سے دور ہیں، اس نے مریخ پر ایک سیٹلائٹ بھیجا اور میں نے ابھی ابھی ہی فضلو کاکا کو اسٹور بھیجا تاکہ وہ ایک مارس بار لے آئیں۔

ہم نے تو ایسی گاڑی بھی تیار کی جو پانی پر چلتی تھی اور اب ہمیں اس گاڑی کو چلانے کے لیے پانی کی ضرورت ہے،کسی کو اب کراچی کے لیے ایسی گاڑی بنانی چاہئے جو پان کی پیک پر دوڑ سکے۔

ہندوستان کو تاج محل کے لیے بھی جانا جاتا ہے مگر مجھے شک ہے یہ کسی پاکستانی کو متاثر کرسکے گا، ہمارے ملک میں ایک ایسی قومی عادت ہے کہ خواتین کو دیوار میں چن دیا جاتا ہے، پنجابی کہا وت ہے"جنے دیوار میں چنیا ہی نہیں او جمیا ہی نہیں"۔

پاکستان ہندوستان کے یانگ کا تین ہے، ہم ان کی آشا کے لیے امن ہے، اہم ان کے فیشن کے لان پرنٹ ہیں، ان کی بریانی کے چاول ہیں، ان کی ڈزنی پرنسسز کے ڈزنی پرنس ہیں۔

ہندوستان تمہاری فلموں نے مجھے سیکھایا ہے "پیار دوستی ہے" تو اس حقیقت سے قطع نظر کہ ہم ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں، تمہیں اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ کچھ کچھ ہوتا ہے تم نہیں سمجھو گے۔

اس وقت تک انتظار نہیں کیا جاسکتا کہ کاجول خوبصورت بن کر سلمان خان سے شادی کرلے، ہم دوست بننے کی کوشش کریں اور اگر یہ سوچ کام کرجائیں جس میں چند برس بھی لگ سکتے ہیں، تو پھر ہوسکتا ہے کہ ہمارے والدین ایک دوسرے سے ملیں اور ابدی خوشی کا راستہ ڈھونڈ نکالیں۔

انگریزی میں پڑھیں۔


تبصرے (0) بند ہیں