خواتین اسٹاف پر مشتمل پہلا ملکی پٹرول پمپ

اپ ڈیٹ 19 اکتوبر 2014
لاہور کا خواتین پر مشتمل پٹرول پمپ کا منظر۔
لاہور کا خواتین پر مشتمل پٹرول پمپ کا منظر۔

جیسا کہا جاتا ہے کہ یہ مردوں کی دنیا ہے اور پاکستان میں یہ کسی اور ملک کے مقابلے میں زیادہ سچا بیان لگتا ہے، جہاں ہم اس بات پر تو فخر کرتے ہیں کہ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم ہمارے ملک سے تھی اور متعدد خواتین متعدد شعبوں میں اپنا لوہا منوانے میں کامیاب رہیں مگر کئی بار پرتشدد مخالفت بھی یہاں نظر آتی ہیں اور مجموعی طور پر حقوق نسواں کی صورتحال کچھ زیادہ اچھی نظر نہیں آتی۔

اس سب کو ذہن میں رکھے تو لاہور کے ایک پٹرول پمپ اس حوالے سے انتہائی دلچسپ مثال قائم کرتا نظر آتا ہے جہاں ایندھن کو گاڑیوں میں بھرنے کا کام جو روایتی طور پر مردوں کے لیے مخصوص سمجھا جاتا ہے، مکمل طور پر خواتین کرتی ہیں۔

ایم ایم عالم روڈ کے زوم پٹرول اسٹیشن میں یہ بظاہر بے باک مگر دلیرانہ اقدام کیا گیا جہاں خواتین کو اس شعبے میں ملازمتیں دی گئی ہیں جس پر مردوں کی بالادستی سمجھی جاتی ہے، پتلون قمیضوں میں اسمارٹ نظر آنے والی یہ نوجوان لڑکیاں گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کے ٹینکس کو ہوا کے جھونکے کی طرح آسانی اور پیشہ وارانہ مہارت سے بھرتی ہیں جس کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ آخر خواتین کو اس شعبے میں لانے کا فیصلہ اتنی تاخیر سے کیوں ہوا۔

ہم نے حال ہی میں اس پٹرول پمپ میں اس کی منی مارٹ سے ایک پانی کی بوتل خریدی جس کے دوران ہم نے کچھ لڑکیوں کو یونیفارم میں گاڑیوں میں پٹرول بھرتے دیکھا، جس نے ہمیں حیرت زدہ کردیا اور ہم نے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر کچھ اس کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔

کچھ صارفین کو دیکھ کر تو لگتا تھا کہ انہیں اس کی کوئی پروا نہیں مگر دیگر کے لیے یہ حیرت انگیز اور کچھ تکلیف دہ سا تھا۔

پٹرول اسٹیشن کے منیجر کے مطابق" جب سے ہم اس اعلیٰ طبقے کے علاقے میں منتقل ہوئے ہیں اور مستقل صارفین کی بیس بنانے میں کامیاب ہوچکے ہیں، انتظامیہ کو خواتین ملازمین کو بھرتی کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں"۔

ہم نے وہاں کام کرنے والی ایک لڑکی عائشہ سے پوچھا کہ وہ ایک پٹرول اسٹیشن پر کام کرکے کیسا محسوس کرتی ہے، جس پر اس نے بتایا"مزید خواتین کو پٹرول اسٹیشنز پر ملازمتیں دی جانی چاہئے، کیونکہ مردوں سے کسی بھی طرح کم نہیں، جب کار ڈرائیورز یہاں آتے ہیں تو ہم صارفین کا خیرمقدم کرتے ہوئے ان سے پوچھتے ہیں کہ ہائی اوکٹین یا پریمئیم میں سے کونسا ایندھن بھروانا پسند کریں گے اور بس، ہم اس سے زیادہ بات چیت نہیں کرتے"۔

خواتین اس پٹرول اسٹیشن میں دو شفٹوں میں کام کرتی ہیں، پہلی شفٹ صبح آٹھ سے شام پانچ بجے تک جبکہ دوسری صبح دس سے شام سات بجے تک ہوتی ہے، انہیں مرد عملے کے مقابلے میں زیادہ معاوضہ دیا جاتا ہے اور انہیں روزانہ اجرت، کنٹریکٹ یا مستقل ملازم کے طور پر بھرتی کیا جاتا ہے، اسی طرح یونیفارم اور دوپہر کا کھانا بھی کمپنی کی جانب سے جہیا کیا جاتا ہے۔

عائشہ نے بتایا کہ کسی بھی مشکل میں مرد عملہ کافی مددگار ثابت ہوتا ہے اور ہم سب ایک ٹیم کی طرح مل کر کام کرتے ہیں۔

کیا خواتین عملے کے لیے کوئی خصوصی سیکیورٹی اقدامات کیے گئے ہیں؟ اس پر اسٹیشن منیجر نے بتایا" نہیں ہمیں اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی، کیونکہ ہمیں اپنے عملے یا صارفین کسی کی جانب سے کبھی کوئی شکایت نہیں ملی"۔

ایک مبصر کے مطابق بالائی اور نچلے طبقات اس بات پر برا نہیں مناتے کہ ان کے خاندانوں کی خواتین ملازت کریں، اب وہ خاتون اشرافیہ سے متعلق ڈیزائنر ہو یا نچلے طبقے کی گھریلو ملازمہ، دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ لوئر مڈل کلاس اور متوسط طبقے میں خواتین کے اپنے گھر سے نکل کر کام کرنے سے زیادہ قدامت پسندانہ تصورات موجود ہیں۔

پٹرول پمپ پر کام کرنے والی لڑخیاں نچلے طبقے سے تعلق رکھتی ہیں، چونکہ وہ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں اس لیے ان کے پاس بیوٹی پارلرز یا میک اپ اسٹورز پر کام کرنے کے علاوہ دیگر آپشنز نہیں ہوتے کیونکہ ان جگہوں پر زیادہ تعلیم کی ضرورت نہیں ہوتی تاہم اب ان کے لیے ایک نیا در کھل گیا ہے۔

توقع کی جاسکتی ہے لاہور کے ایک پمپ میں شروع ہونے والا یہ اقدام ایک رجحان بن جائے گا اور مزید خواتین بھی اس یا اس سے ملتی جلتی انڈسٹریز کا حصہ بن سکیں گی، جیسا عائشہ نے اوپر کہا تھا'خواتین مردوں سے کسی طرح کم نہیں'، تو کیوں نہیں انہیں مردوں کی بالادستی والے شعبوں میں آگے بڑھنے کے مواقعے فراہم کیے جائیں اس سے نہ صرف مثبت معاشی اثرات سامنے آئیں گے بلکہ اس سے خواتین کو مالی طور پر خودمختار ہونے میں بھی مدد ملے گی جو کہ معاشرے کے لیے فائدہ مند ہوگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (12) بند ہیں

Naveed Shakur Oct 19, 2014 10:30pm
Good initiative, this will not only open more doors for females but also change the behavior of our society as people tend to talk decently with female rather male.
qadeer malik Oct 20, 2014 12:44pm
لڑکیوں کا اس طرح کام کرنا بہت اچہا قدم ہےصارفین کو بہی چاہیے ک ان کے ساتہ اچہے اخلاق کا مضاہرہ کرین.
ghanizweb.com Oct 20, 2014 07:45pm
in Karachi I have seen in 2013 a pump where Female staff working with Male staff. I think it was in North Nazimabad.
امر لال Oct 20, 2014 07:55pm
یہ بات ٹھیک ہے کہ لڑکیوں کو بھی اس معاشرے میں لڑکوں یا مردوں کے ساتھ بلا تفریق جنس کام ملنا چاہیے اور ایسا ماحول بھی بنایا جائے جہاں عورتوں یا لڑکیوں کو عدم تحفظ کا احساس نہ ہو سکے. لیکن یہاں مسئلا یہ ہے کہ یہ نچلے طبقے کی لڑکیوں کو اس غرض سے ملازمت نہیں دی گئی ہوگی کہ لڑکیوں کو بھی لڑکوں یا مردوں جتنا یکساں مواقع فراہم کیے جائیں، بلکہ اس کو تجارت کی تقاضائوں کے مطابق پیئسے کمانے اور بزنیس کو بڑہوتری دینے اور لوگوں کو زیادہ متوجہ بناکر کاروبار اور منافعوں میں اضافہ کا طریقہ ہائے کار ہے. جو دنیا میں ہر جگہ عورت کی عظمت کو کاروبار اور پیئسوں کے لالچ کی حوس کے نیلام کیا جا رہا ہے.
Imran Rashid Oct 21, 2014 12:31am
Soon Mullah will get active to make this trend a reverse gear .
Fay Oct 21, 2014 09:50am
@ghanizweb.com: hahaha :) ap ne dream dekha hoga
Mohammad Oct 21, 2014 10:57am
کچھ عرصہ پہلے ہم لوگ ملیشیا سیر کے لیے گئے اور یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ لنگاوی کی سب سے بڑی چئر لفٹ کا پورے کا پورا انتظام خواتین کے پاس ہے۔ مارکیٹ میں شاپنگ سینٹر سے لے کرمختلف قسم کے کاروباری دکانوں میں خواتین کی بھرپور شرکت تھی۔ اور یہ تو آپ کو پتا ہی ہو گا کہ متحدہ عرب امارات میں خواتیں ٹیکسی چلاتی ہیں۔
Ghazanfar Ali Oct 21, 2014 11:14am
West ki Naqali hay or kuch nahi sirf paint kameez may Q agar majboori kam kara rahi hay to khair laikin jo motive ye likh rahay hain khudmukhtari etc. ye Qabil-a-kabool nahi aaj mashra is waja say hi bikhar raha hay kia larko ko nokria pori ho gai jo in ko day rahay hain ya agay bara rahay hain aaj mashray may jo ye rona hay k larkay chori dakaitai etc may zyada involve hain us ka aik cause ye bhi hay nokria miltie nahie kum salary per in ko agay laya ja raha hay jab k mardo k liye lazmi hota hay k poray ghar ka bojh uthana hay is liye wo zyada demand kartay hain is waja say larkay aaj kal zyada parhai likhai bhi nahi kartay tasali di jati hay aaj kal ye to shaor k liye hay jo shaor pait ko roti nahi day sakta wo my foot. baqool shair " JIS KHAIT SA NA HO DEHKAN KO MAYASAR ROTI .....................................US KHAIT KA HER KHOSHAYE GANDUM KO JALA DO.
Yameen Oct 21, 2014 12:40pm
Is This An Islamic Country.?? Kiya Bakwaas Hay
Maz Oct 22, 2014 01:34am
Pakistani have always been very progressive and we embrace new things as part of our life. This is just one examle, Only our politicians are backwards and greedy
sajid jamil Oct 22, 2014 09:02am
ھم سب درمیان سے بات شروع کرتے ہیں اس لیے اختلاف ہوتا ہے۔ ہمیں اللہ نے پیدا کیا مرد اور عورت دونوں کو تو وہی حق رکھتا ہے کہ وہ بتائے کہ کس کا کیا کام ہے تو اس نے اپنی کتاب میں بتا دیا ہے کہ مرد پر معاش کی ذمہ داری ہے اور عورت پر گھر کی سکون دینے کی اور یہ اللہ کی طرف سے ہے جنت کی خواتین کی سردار حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے عمر بھر گھر کے ہی کام کیے ہیں ان ہی اعمال کی وجہ سے جنت کی سردار بنیں کیونکہ جیسا اللہ نے کہا وہ انہوں نے خوشی سے کیا۔ دو مرد عورت دونوں کا اپنا اپنا ایک مقام ہے کوئی کسی پر فوقیت نہیں رکھتا ۔ اب رہ گیا گئے اسپیشل کیس کہ کسی گھر میں مرد کمانے والا نہیں تو وہاں معاش کے لیے گورنمنٹ اور اربوں خرچ کرنے والی این جی اوز گھریلو صنعت کاری کو فروغ دیں ۔ عورت کو باہر نکالیں گے تو ہوس کے غلام شکاری ان کو ضرور تنگ کریں گے اور جنسی کشش کی وجہ سے کئی الجھنیں پیدا ہوسکتی ہیں جبھ اس خالق نے حکم دیا کہ عورتیں زیادہ تر گھر میں رہیں ان کے لیے زیادہ بہتر ہے مگر افسوس کہ یہاں ترقی پسندی کے نام پر ہم مسلمان اللہ سے بھی بڑے بن گئے ہیں۔
bashir Oct 23, 2014 01:35am
حوا کی بیٹی کی تزلیل