روسی انقلاب کا سبق

اپ ڈیٹ 25 اکتوبر 2014
روس کے سوشلسٹ رہنما ولادیمیر لینن ماسکو میں سرخ سپاہیوں سے خطاب کر رہے ہیں — 5 مئی 1920 — فوٹو بشکریہ Lenin: A Biography
روس کے سوشلسٹ رہنما ولادیمیر لینن ماسکو میں سرخ سپاہیوں سے خطاب کر رہے ہیں — 5 مئی 1920 — فوٹو بشکریہ Lenin: A Biography

97 سال پہلے 25 اکتوبر 1917 کو دنیا میں پہلی کمیونسٹ حکومت روسیوں نے بنائی تھی۔ 20 ویں صدی کی سیاست میں اس انقلاب نے نہ صرف ہلچل مچائے رکھی بلکہ نوآبادیاتی ملکوں اور امریکہ و یورپ میں بھی کروڑوں لوگ اس سے متاثر ہوئے۔

75 سال بعد جس ملک میں یہ پہلا تجربہ کیا گیا وہ 1992 میں ٹوٹ گیا، مگر یہ تجربہ انسانوں کو یہ پیغام دینے میں ضرور کامیاب رہا کہ سرمایہ داری نظام حرف آخر نہیں، ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ خود سرمایہ داری نظام نے بھی 20 ویں صدی میں کمال لچک (flexibility) کا مظاہرہ کیا اور سیکنڈے نیویا سے سنگاپور تک مختلف ماڈل پیش کیے۔

یہ اس لیے بھی ممکن ہوا کہ یورپ اور امریکہ نے بالعموم کم از کم اپنے اپنے ملکوں میں 20 ویں صدی کے تیسرے عشرے کے بعد مرحلہ وار جمہوریت، آزادی اظہار، بالغ رائے دہی، سیاسی و معاشی حقوق کا تحفظ وغیرہ کو طرزحکومت (governance) سے مشروط کر دیا۔ البتہ خارجہ امور میں جلیل القدر جمہوری روایات کا قطعاً خیال نہ رکھا اور نہ آج رکھتے ہیں۔

یوں 19ویں صدی کے ظالمانہ سرمایہ داری نظام نے 20 ویں صدی میں خود کو بدلتے ہوئے فری مارکیٹ، رلی ملی معیشت (mixed economy) اور ویلفیئر سٹیٹ کے دلکش مظاہرمیں ڈھال لیا۔ یہ وہی مطالبات تھے جن کے لیے ترقی پسند، انسان دوست اور جمہوریت پسند طویل عرصہ سے جدوجہد کر رہے تھے۔ اس کے مقابلہ میں 1917 میں درآنے والے روسی انقلاب کا ماڈل نہ صرف ”غیرلچکدار“ تھا بلکہ خود عملی سطح پر ترقی پسندی کی نفی پر بھی اصرار کرتا رہا۔

حزبِ اختلاف کی عدم موجودگی اور اظہار رائے پر پابندیوں پر مبنی سیاسی نظام کو ترقی پسند قرار دینا کسی بھی طرح اس جدوجہد سے میل نہیں کھاتا تھا جو دنیا بھر کے ترقی پسند، انسان دوست اور جمہوریت پسند کرتے آئے تھے۔ انقلاب کے بعد جو روش اپنائی گئی اس نے ترقی پسند، انسان دوست اور جمہوریت پسندقوتوں کو بوجوہ منقسم کر دیا۔ یاد رہے کہ 1872 میں جب جرمنی نے پہلی دفعہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر مردوں کو ووٹ کا حق دیا تھا تو کارل مارکس کے دوست فریڈک اینگلز نے اس کو سراہا تھا۔

یہ خط ریکارڈ کا حصہ ہے۔ مگر انقلاب کے بعد یک پارٹی سسٹم (one party rule) اور آہنی پردہ (iron curtain) پر مبنی اک ایسا حکومتی بندوبست شروع کیا گیا جس میں جمہوریت کو سرمایہ داری کی لونڈی قرار دیتے ہوئے یکسر مسترد کر دیا گیا۔ زیادہ مسئلہ اس وقت بنا جب روز لکسمبرگ جیسی جہاندیدہ کامریڈوں کی مخالفت کے باوجود اس غیرجمہوری طرز پر انقلاب کو ماڈل بنا کردنیا بھر کے ترقی پسندوں کے لیے اسے ایک قابل تقلید مثال بنا ڈالا گیا۔

ترقی پسندوں میں بہت سے گروہ ایسے رہے جو اوّلین دور ہی سے روسی انقلاب کے ناقد تھے۔ ان میں جرمنی کے انسٹی ٹیوٹ برائے سماجی تحقیق کا نام نمایاں ہے۔ 1923 میں بننے والا یہ وہی ادارہ ہے جس نے بعد ازاں ”فرینکفرٹ مکتبہ فکر“ کی بنیاد رکھی اور ان دونوں ادارون کو بنانے اور چلانے میں مارکسٹوں اور کمیونسٹوں کی بڑی تعداد موجود تھی جو سرمایہ دارانہ نظام اور روسی طرز انقلاب کے بیک وقت ناقد تھے۔

مگر کامیاب انقلاب کے دعویداروں نے کسی کی نہ سنی۔ روسی انقلاب کے ناقد ترقی پسند مکاتب فکر ”سیاسی تبدیلی“ کے بجائے ”سماجی تبدیلی“ پر زیادہ زور دیتے تھے۔ روسی انقلاب کی دوسری بڑی کمزوری روسی قوم پرستی کا بھوت تھا جس نے پہلے دن سے روسی انقلاب کی نظریاتی جہت کو اپنے مفادات کے ماتحت رکھا۔

مولاناعبیداللہ سندھی 1921 میں ماسکو پہنچے تو اُس وقت کے روسی وزیرخارجہ چیچرن سے ان کی ملاقات کروائی گئی۔ انقلاب کے بعد کمیونسٹ سرکار نے چھوٹے، بڑے زمینداروں کی تمام زمینوں کو حکومتی تحویل میں لے لیا تھا۔ اس کے باعث وسط ایشیائی خطے میں زمینداروں اور کسانوں نے انقلابی حکومت کے ناک میں دم کیا ہوا تھا۔ یہاں اکثریتی آبادی مسلمانوں کی تھی۔

مولانا نے جب چیچرن کو بتایا کہ زمینوں کو قومی تحویل میں لینا عین اسلامی اصولوں کے مطابق ہے تو چیچرن نے انھیں بخارا میں اہم عہدہ دینے کی پیشکش کی۔ نئے انقلابی بندوبست کے تحت کسی بھی صوبہ میں دو اہم عہدے ہوتے تھے جنھیں ہم آسانی کے لیے وزیراعلیٰ اور گورنر کہہ سکتے ہیں۔ مولانا نے کہا کہ وزیراعلیٰ تو میں بن جاﺅں گا مگر گورنر میری مرضی سے بخارا کے کسی باشندے کو بنانا ہوگا۔ مگر چیچرن نے کہا کہ انقلابی حکومت کی پالیسی کے مطابق گورنر تو روسی قوم ہی کا باشندہ بن سکتا ہے۔ اس پر مولانا سندھی نے اس کام سے معذرت کر لی۔ یہ واقعہ مولانا سندھی کی سوانح از پروفیسر سرور میں بھی ہے اور ظفر احسن ایبک کی کتاب میں بھی۔

اب ذرا سوچیں کہ جب انقلابی بھی کسی ایک قوم کے مفادات کو اولیت دیں گے تو پھر قوموں کے حقوق والی نظریاتی جہت پر سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔ انقلاب کی یہ کہانی ابھی جاری ہی تھی کہ یورپی طاقتوں کی آپسی لڑائیوں کی وجہ سے دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی۔ انقلابی روس نے پہلے تو اسے منڈیوں پر قبضے کی لڑائی قرار دیتے ہوے ”سامراجی جنگ“ کہا مگر جب ہٹلر نے روس پر حملہ کر دیا تو پھر روسی قوم پرستی کے تحت ”سامراجی جنگ“ کا نام بدل کر اسے ”عوامی جنگ“ قرار دے دیا گیا۔

یہ وقتی مسائل سے نمٹنے کا روسی قوم پرستانہ طریقہ تھا جسے ”نظریاتی“ قلب میں ڈھالا گیا۔ بس اس کے بعد روسی ریاست امریکہ کے بنائے ہوئے نئے بندوبست کا حصہ بن گئی اور بعدازاں نئے عالمی ڈرامے (سرد جنگ) میں اس کا بطور ولن کردار امریکہ ہی نے تجویز کیا۔

1940 میں لینڈ اینڈ لیز قانون (Land & Lease Act) منظور کروانے کے بعد امریکہ نے سپر طاقت بنتے ہی جس نئی سیاست کا آغاز کیا اس کا ایک بڑا کردار سویت یونین ٹھہرا۔ سویت یونین کو 1941 سے لینڈ اینڈ لیز کے تحت اسلحہ بھی ملنے لگا اور بین القوامی تال میل میں اہمیت بھی۔ 1943 کی تہران کانفرنس اس نئے تال میل میں سنگ میل تھی لیکن اس کے بعد سویت یونین نے دنیا بھر کے کمیونسٹوں کی عالمی تنظیم ”تھرڈ انٹرنیشنل“ کو توڑ ڈالا۔

مشہور بنگالی کمیونسٹ موہیت سین نے ان واقعات کو اپنی کتاب A Traveler and the Road میں بخوبی نقل کیا ہے جبکہ پیٹرکلارک کی کتاب ”برٹش راج کے آخری ہزار دن“ (انگریزی) میں مصنف نے برطانوی نقطہ نظر سے ان بین الاقوامی اجلاسوں کا تذکرہ کیا جن میں امریکی روسیوں کو اہمیت دیتے اور برطانیہ کے افسروں کا سرعام ٹھٹھا اڑاتے تھے۔ روس امریکہ سرد جنگ کو ”نظاموں کی لڑائی“ قرار دیتے ہوئے یالٹا معاہدہ کے تحت دنیا کی نئی تقسیم کی گئی۔ روسی فوجوں کے دم قدم سے مشرقی یورپ میں قبضے کیے گئے اور انہیں انقلاب قرار دے کردنیا بھر کے ترقی پسندوں پر لازم ٹھہرا کہ وہ ان فوجی مداخلتوں کے گن گائیں۔

اب دنیا امریکی اور روسی بلاکوں میں بٹ گئی اور جن ممالک کو ان بلاکوں میں براہ راست شامل کرنا مناسب نہ سمجھا گیا انھیں اسلامی بلاک، غیرجانبدار تحریک اور ایفروایشائی اتحاد جیسے دلفریب نعروں سے بہلایا گیا۔ یہ سب بندوبست وطنی ریاستوں کے مفادات کے تابع تھا کہ جس میں 5 بڑوں (امریکہ، روس، برطانیہ، چین اور فرانس) کی حکمرانی کا اصول مسلم تھا۔

اکتوبر 1945 میں یہ نیا بندوبست بنا تو دیا گیا مگر چینی انقلاب کے بعد 1971 تک چین کی انقلابی حکومت کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں نمائندگی نہ لینے دی گئی اور اس کے بجائے امریکہ کی کٹھ پتلی جلاوطن چینی گروپ ہی کو ویٹوپاور حاصل تھی۔ یوں روس کی حیثیت بظاہر دوسری بڑی سپرپاور کی رہی مگر عملاً عالمی سیاست میں امریکہ ہی کا راج رہا۔

1949 کے چینی کمیونسٹ انقلاب نے دنیا بھر کے ترقی پسندوں کو اک نئی امید دلائی تھی مگر محض 8 سال بعد ہی دونوں ترقی پسند ممالک ایک دوسرے سے لڑنے مرنے کو تیار ہو چکے تھے۔ سوشلسٹ بلاک کی سربراہی کے چکر میں روسی و چینی قوم پرستیوں کی تکرار شروع ہوئی جس سے دنیا بھر کی ترقی پسند لہر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تتربتر ہو گئی۔ یہ بھی وقتی مسائل سے نمٹنے کا قوم پرستانہ طریقہ تھا جسے ”نظریاتی“ قلب میں ڈھالا گیا۔

افغانستان میں روسی فوجوں اور پولینڈ میں جمہوریت کے نام پر امریکی اور برطانیہ کی مداخلتوں نے یالٹا کے فیصلوں پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ 1980 کی دہائی سردجنگ کا آخری پڑاﺅ تھا۔ انقلابی چین اب محدود جمہوری حقوق کے ساتھ ساتھ سرمایہ داری کی طرف تیزی سے بڑھنے لگا جبکہ روسیوں نے گورباچوف کی سربراہی میں سردجنگ سے خود کو نکالنے کا بندوبست کیا۔ یوں 1917 سے ”سیاسی غلبہ“ کو اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے جن انقلابات کا آغاز کیا گیا تھا اس کی تطہیر کا مشاہدہ خود ترقی پسندوں نے بھی کیا اور دنیا نے ان کا مذاق اڑایا۔ بس، روسی انقلاب کا سبق یہی ہے کہ سماجی تبدیلی کے بغیر اگر سیاسی غلبہ حاصل ہو بھی جائے تو وہ پائیداری کا ضامن نہیں ہوتا۔

دوسرا سبق جو ان انقلابات سے حاصل ہوا وہ ہے وطنی ریاستوں کے مفادات کی حقیقت۔ جب تک دنیا وطنی ریاستوں میں منقسم ہے اس وقت تک نظریات (چاہے وہ مذہبی ہوں یا سیکولر) وطنی ریاستوں کے مفادات کے تابع ہی رہیں گے۔ آج عالمگیریت (globalization) کی مہم وطنی ریاستوں کے بندوبست کے لیے اک نیا چیلنج ہے مگر اس کا راستہ علاقائی تعاون (regional cooperation) کی گلی سے ہو کر گذرتا ہے۔ مگر یہ سبق کچھ ترقی پسندوں کو بوجوہ پسند نہیں۔

25 اکتوبر روسی انقلاب کی 97 ویں سالگرہ ہے۔ اس نے دنیا کو تیزی سے بدلنے میں اہم کردار ادا کیا مگر اسے حرف آخر یا ماڈل سمجھنے والوں کو بس یہی بات یاد رکھنی چاہیے کہ نظریات بانجھ نہیں ہوتے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ نئے خیالات کو جنم دیتے ہیں۔ اگر21 ویں صدی میں بھی ہم نئے خیالات کو جگہ دینے کو تیار نہیں تو شاید دائروں میں ہی گھومتے رہیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں