بلاوجہ بھٹوازم

25 اکتوبر 2014
بلاول کو چاہیے کہ اپنے نانا کے قریبی ساتھیوں سے بھٹوازم کی روح کو سمجھیں، ورنہ نعرے بازی والا بھٹوازم استعمال نہ کریں۔
بلاول کو چاہیے کہ اپنے نانا کے قریبی ساتھیوں سے بھٹوازم کی روح کو سمجھیں، ورنہ نعرے بازی والا بھٹوازم استعمال نہ کریں۔

گزشتہ ہفتہ کراچی کے باغِ جناح میں ہونے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے جلسے میں شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھٹو اِزم کے خوب گُن گائے اوراپنی جوشیلی تقریر میں مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے نظریات دُہراتے ہوئے حاضرین و ناظرین کو باور کروایا کہ آج بھی پاکستانی غریب عوام کے مسائل کا حل بھٹو اِزم میں ہی پوشیدہ ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی عملی سیاست میں بھٹو اِزم کے ذریعے اینٹری کیا اس بات کا ثبوت نہیں کہ پیپلز پارٹی اپنے پانچ سالہ دور میں کوئی بھی ایسا خاطر خواہ کام نہیں کرسکی، جس کو گردانتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری عملی سیاست میں قدم رکھتے؟

کیا وجہ ہے کہ عملی سیاست میں اینٹری کے اعلان سے قبل بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے ماضی میں کی گئی غلطیوں کی معافی مانگی گئی؟ کیا وجہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے 36 سالہ پرانے بھٹو کے نظریے کے ذریعے عملی سیاست میں قدم رکھا؟

کیا پچھلے پانچ سالہ دور میں بلاول بھٹو زرداری کا بھٹو اِزم تیل لینے گیا تھا جو پورے پانچ سال دفن شُدہ نظریہ یاد نہیں آیا، یا بھٹو اِزم صرف اور صرف ذوالفقار علی بھٹو کی لواحقین کی میراث ہے اور پچھلے دور میں آصف علی زرداری کی زیر سایہ حکومت ہونے کے سبب بھٹو اِزم وقتی طور پر دفن ہوگیا تھا، جسے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری دوبارہ قابل استعمال بنانا چاہتے ہیں۔

خیر بلاول بھٹو کو بھٹو اِزم یا نظریہ بھٹو کا استعمال کرتے ہوئے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ نظریہ اِن کی پیدائش سے بھی پہلے کا ہے۔ جس وقت کے مسائل آج کے مسائل سے بالکل مختلف تھے۔ حالانکہ یہ نظریہ موجودہ حالات کے بیشتر مسائل کا حل تو ہے۔ مگر اس کے باوجود اس نظریے میں وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے چند تبدیلیاں درکار ہیں۔ جیسا کہ اُس دور کی عوام صرف روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے پر ہی بھٹو کی شیدائی ہوگئی تھی۔

مگر اب اِن تینوں چیزوں کے ساتھ ساتھ عوام کو سیکیورٹی، اچھا حال و مستقبل، اچھی تعلیم اور صحت کی سہولیات بھی درکار ہیں۔ عوام چاہتی ہے کہ جن مسائل کا سامنا انھیں سالہا سال سے ہے، وہ حل کیے جائیں اور اسی وجہ سے عوام پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے چنگل سے نکل کر عمران خان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ عوام کی پاکستان تحریک انصاف کے جلسوں میں شرکت کی وجہ یہ نہیں کہ عوام کو عمران خان پسند ہے۔ بلکہ اس کی وجہ عوام کی نواز لیگ اور پیپلز پارٹی سے نفرت ہے۔

اس کے علاوہ بلاول بھٹو کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کے 40 فیصد ووٹرز ایسے ہیں۔ جن کی عمریں 30 سال سے کم ہیں۔ جنھوں نے بھٹو کا نام یا تو کچھ کتابوں میں پڑھا ہوگا، یا پھر جنھوں نے بھٹو کے قصے اپنے بڑوں سے سنے ہوں گے۔ لہٰذا بلاول بھٹو زرداری کو چاہیے کہ وہ اپنے اَنکلوں کی مدد سے بھٹو اِزم کے فیچرز کو اپنے اقدامات کے ذریعے عملی جامہ پہنا ئیں۔ تاکہ نوجوان ووٹرز اس نظریے کی طاق میں پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں۔

بلاول بھٹو زرداری کو موجودہ حالات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس وقت مقابلہ نواز شریف اور عمران خان سے ہے جو کہ سیاسی دشت میں بھٹک بھٹک کر سنبھل چکے ہیں اور ان کے مقابلے میں بلاول بھٹو زرداری کل کے بچّے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ ان کی سیاسی پرورش سابق صدر آصف علی زرداری کر رہے ہیں مگر کوچ جتنا مرضی اچھا ہو، گراؤنڈ میں کھیلنے کا پریشر گراؤنڈ میں کھیل کر ہی فیس کیا جا سکتا ہے۔

انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے دادا، والدہ اور والد کے برعکس ایک جمہوری دور میں عملی سیاست میں حصّہ لینے جارہے ہیں۔ جہاں وہ ان کی طرح قوم کو فوجی ڈکٹیٹروں سے چھٹکارا دلوانے کا نعرہ نہیں لگا سکتے۔ ان کا مقابلہ ایسے لیڈران سے ہے جو کہ اپنا ووٹ بینک رکھتے ہیں۔

محترمہ کی ہونہار اور مغربی تعلیم یافتہ اولادِ نرینہ کو یہ پتا ہونا چاہیے کہ اِن کی ماں نے عملی سیاست میں قدم اپنے والد کی پھانسی کے بعد رکھا۔ جس وقت وہ 25 سال کی بھی نہیں تھیں۔ اس کے علاوہ اِن کے والد محترم نے پیپلز پارٹی کی باگ دوڑ محترمہ کی شہادت کے بعد سنبھالی۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ محترمہ بینظیر بھٹو اپنے والد اور آصف علی زرداری اپنی بیوی کی شہادتوں کے صلے میں وزیر اعظم اور صدر بنے۔

بد قسمتی سے موجودہ حالات میں بلاول بھٹو زرداری کے لیے کوئی ایسا موقع میّسر نہیں ہے کہ وہ بھی کسی سیاسی شہید کے کندھے پر سوار ہوکر سیاسی فائدہ اٹھا سکیں اور اللہ نا کرے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو ایک اور سیاسی شہید کروانا پڑے۔

بھٹو کے نواسے نے کشمیریوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے ہندوستان سے کشمیر حاصل کرنے کا اعلان تو کردیا، مگر بلاول بھٹو کو یہ بھی چاہیے کہ وہ جغرافیائی حقیقتوں کو مدّ نظر رکھتے ہوئے جذباتی ہوں۔ خالی جذباتی بیانات سے کشمیر اگر ملنا ہوتا تو ہر سال 5 فروری کو پورے پاکستان میں "کشمیر بنے گا پاکستان" کےنعرے لگائے جاتے ہیں۔ اگر نعروں سے کشمیر ملنا ہوتا تو آج کشمیر کو پاکستان کا حصّہ بنے دہائیاں ہوچکی ہوتیں۔ فِی الحال اگر بلاول بھٹو زرداری مقبوضہ کشمیر کو سائیڈ پر رکھتے ہوئے پاکستان کو ہی کشمیریوں سے بچا لیں تو ذوالفقار علی بھٹو کی روح کو شانتی ملے گی۔

کراچی کی سب سے بڑی جماعت ایم کیو ایم پر الزامات لگاتے ہوئے بلاول بھٹو کو یہ بھولنا نہیں چاہیے تھا کہ ایم کیو ایم کی ناراضگی شہرِ کراچی میں طوفان برپا کرسکتی ہے اور اگر ایم کیو ایم اتنی ہی بُری جماعت ہے تو ایم کیو ایم کی ناراضگی پر کیوں سینیٹر رحمان ملک جادو کی جپّھی ڈالنے نائن زیرو چلے جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ زرداری دور کا بھٹو اِزم اس بات کی اجازت دیتا ہو۔ مگر ہمارا نہیں خیال کہ ذوالفقار علی بھٹو کا بھٹواِزم روٹھوں کے منانے اور منائے ہوئے کو ناراض کرنے کا سبق دیتا ہے۔

محترمہ بینظیر بھٹو کے صاحبزادے کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ عوام نے 2013 کے انتخابات میں نواز لیگ کو ووٹ پنجاب میں ہونے والی ترقی کو دیکھتے ہوئے دیا۔ اس کے برعکس پیپلز پارٹی پچھلے پانچ سالہ دور میں سندھیوں کے لیے کوئی بھی خاطر خواہ کام نا کرسکی۔ بلکہ شہرِ کراچی کے حالات دن بدن بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ سندھ بھی پنجاب کے مقابلے میں ایتھوپیا کا منظر پیش کرتا ہے۔

ہاں، پیپلز پارٹی کے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت سندھ کے دیہاتیوں کو مبلغ ایک ایک ہزار دیا گیا۔ مگر برطانوی تعلیم یافتہ بلاول بھٹو زرداری اس ایک ہزار سے میکڈونلڈز کا برگر تو کھا سکتے ہیں۔ مگر یہ غریب سندھی ایک ہزار سے ایک مہینہ گزر بسر نہیں کر سکتے۔ لہٰذا ایسی صورتحال میں پیپلز پارٹی سندھ میں اپنی کارکردگی کو اگلے انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے کیسے پیش کر سکتی ہے؟

سابق صدر آصف علی زرداری کے صاحبزادے کو یہ بھی چاہیے کہ وہ اپنے نانا کے قریبی لوگوں کے مشوروں سے مُستفید ہوں اور زرداری دور کے حادثاتی جیالوں سے جان چھڑائیں۔

اگر تو بلاول بھٹو زرداری تجویز کردہ ہدایات پر عمل کرتے ہوئے عملی سیاست میں اینٹری کرتے ہیں تو پھر شاید کچھ فائدہ متوقع کیا جاسکتا ہے۔ ورنہ تو ہمارا مشورہ بلاول بھٹو کو یہی ہوگا کہ وہ بھٹو اِزم کا ڈھنڈورا پیٹنا بند کردیں۔ کیونکہ ایسا کرنے سے صرف مرحوم ذوالفقار علی بھٹو ہی نہیں بلکہ بھٹو اِزم بھی بدنام ہوگا۔ جس کو استعمال کرنے کے اصل حقدار میر مرتضٰی بھٹو کے اہلِ خانہ ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Muhammad Hanif Oct 26, 2014 12:31am
Very realistic.