'بیٹے کی موت پر کوئی افسوس نہیں'

اپ ڈیٹ 23 اکتوبر 2014
۔—اے پی فوٹو۔
۔—اے پی فوٹو۔
۔—رائٹرز فوٹو۔
۔—رائٹرز فوٹو۔
۔—اے پی فوٹو۔
۔—اے پی فوٹو۔

اوٹاوہ : کینیڈین پارلیمنٹ پر حملے کے بعد وزیراعظم اسٹیفن ہارپر نے اپنے ملک میں "دہشت گرد تنظیموں" کے خلاف جنگ میں دوگنی شدت لانے کا عزم ظاہر کیا ہے ۔

کینیڈین دارالحکومت پر ایک تنہا مسلح شخص نے بدھ کی صبح قومی یادگار پر حملہ کرکے ایک فوجی کو ہلاک کردیا تھا جب کہ اس کے بعد شاٹ گن سے مسلح ایک شخص نے پارلیمنٹ کے وسطی بلاک پر برسٹ فائر کیا جس کا پولیس نے تعاقب کیا اور وہ پولیس کی جوابی کارروائی میں اس وقت مارا گیا جب وہ وزیراعظم اور اراکین پارلیمنٹ سے کچھ ہی دور رہ گیا تھا۔

اوٹاوہ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ایک ہی شخص ان دونوں حملوں کا ذمہ دار ہے، کینیڈین فوجی کی ہلاکت ایک ہفتے کے دوران دوسرا واقعہ ہے جس کا ممکنہ تعلق مسلم عسکریت پسندوں سے ہوسکتا ہے۔

'بیٹے کی موت پر کوئی افسوس نہیں'

پارلیمنٹ پر حملے کے دوران مارے جانے والے حملہ آور مائیکل زیاف بیباؤ کی والدہ سوزن بیباؤ کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے بیٹے کے مرنے کا کوئی افسوس نہیں ہے۔

اے پی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کی تمام ہمدردیاں اپنے بیٹے کے بجائے مرنے والے فوجی اور زخمی ہونے والے دو افراد کے ساتھ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اس واقعے پر افسردہ ہیں، اور وہ نہیں جانتیں کہ ہلاک و زخمی ہونے والوں کے لواحقین سے کیا کہا جانا چاہیے۔

'حملوں سے خوفزدہ نہیں'

کینیڈین وزیراعظم کا کہنا ہے کہ کینیڈا اس طرح کے حملوں سے خوفزدہ نہیں ہوگا۔

وزیر اعظم اسٹیفن ہارپر کا کہنا تھا کہ ملک میں موجود دہشتگرد تنظیموں کے خلاف اب کارروائیوں میں شدت لائی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ابھی یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ مسلح شخص کس گروپ سے تعلق رکھتا تھا تاہم انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ واقعے میں ملوث گروپ کا جلد از جلد پتہ چلایا جائے گا، اور کسی کو بھی کینیڈا کی سیکیورٹی کو چیلنج کرنے نہیں دیا جائے گا۔

اس سے پہلے اتوار کو ایک نومسلم فرد نے دو کینیڈین فوجیوں پر اپنی گاڑی چڑھا دی تھی جس سے ایک ہلاک ہوگیا تھا۔

یہ دونوں حملے رواں ماہ کینیڈا کی جانب سے عراق اور شام میں ریاست اسلامیہ کے جنگجوﺅں کے خلاف فضائی حملوں کے لیے چھ جنگی طیارے بھیجے جانے کے اعلان کے بعد ہوئے۔

کینیڈین پولیس ایک شخص مائیکل زیاف ببیاﺅ کے خلاف تفتیش کررہی ہے جو بدھ کی صبح فوجی پر حملے کے حوالے سے مشتبہ قرار دیا جارہا ہے۔

حملے کے بعد پارلیمنٹ کی عمارت کو بند کردیا گیا تھا اور اراکین پارلیمان کو دس گھنٹے عمارت کے اندر بند رہ کر گزارنے پڑے تھے۔

عدالتی دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ اس شخص نے مانٹریال اور وینکوور میں مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے۔

امریکی حکام کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ بدھ کو پارلیمنٹ پر حملے کی کوشش کے دوران مارے جانے والے شخص نے حال ہی میں اسلام قبول کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں