اسلام آباد: متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہاہے کہ پاکستان اور انڈیا ایک دوسرے کوایٹمی طاقت ہونے کی دھمکی دینے کے بجائے ایک دوسرے کے وجودکااحترام کریں۔

الطاف حسین نے ان خیالات کااظہار کل اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں منعقدہ اپنی کتاب ’’فلسفۂ محبت‘‘ کے انگریزی ترجمے کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ اگرہم ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھ لیں، مارکٹائی اور اکھاڑ پچھاڑ کے بجائے ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرلیں اور نفرتوں کے بجائے محبت کو پروان چڑھائیں توسارے مسائل حل ہوجائیں گے۔

ایم کیو ایم کے قائد نے کہا جہاں محبت ہوگی وہاں انصاف ہوگا، مساوات ہوگی، ایمان ہوگا، نزاکت ہوگی، حسن ہوگا، تہذیب وشائستگی ہوگی، خندہ پیشانی ہوگی، عزت وتکریم ہوگی، ایک دوسرے کے دکھ درد کومحسوس کرنے کاجذبہ ہوگا۔ جہاں محبت ہوگی وہاں علم ہوگا، تاریخ ہوگی، انسانیت ہوگی، شرافت ہوگی، ایمانداری ہوگی اورکچھ لینے کے بجائے زیادہ سے زیادہ دینے کاجذبہ ہوگا۔ محبت اتنی طاقتورچیزہوتی ہے کہ یہ خونی رشتوں، مذہب اوروطن کی جغرافیائی سرحدکوبھی عبورکرجاتی ہے۔

الطا ف حسین نے کہاکہ ہمارے ہاں بچوں کومسخ شدہ تاریخ پڑھائی جاتی ہے اورحقائق سے آگاہ نہیں کیاجاتا، انہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ علامہ اقبال ایک وطن پرست انسان تھے اورمتحدہ ہندوستان پریقین رکھتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری نوجوان نسل اس بات سے واقف نہیں ہے کہ 1930ء کے تاریخی خطبۂ الہ آبادمیں علامہ اقبال نے یہ تجویزپیش کی تھی کہ ہندوستان کے شمال مغربی علاقوں کو آزاد اور خودمختار ریاستوں میں تبدیل کردیاجائے ۔

متحدہ کے قائد نے کہا کہ جب ان کے ایک شاگردنے یہ لکھا کہ علامہ اقبال نے قیام پاکستان کاتصورپیش کیا ہے تو انہوں نے اس پر ناراضگی کااظہارکیا۔

انہوں نے واضح کیا کہ قائداعظم بھی متحدہ ہندوستان کے متوالوں میں سے ایک تھے، اسی لیے انہوں نے آل انڈیانیشنل کانگریس میں شمولیت اختیارکی لیکن جب انہیں اس میں متعصبانہ سوچ کارفرما نظرآئی تو انہوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے پاکستان کامطالبہ کیا اور تقسیم ہند کا کڑوا گھونٹ پینے پر مجبور ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب جبکہ پاکستان اورہندوستان دو الگ الگ ملک ہیں تو دونوں ملکوں کو انسانوں کاملک بن کر رہنا چاہیے اور ایک دوسرے کوایٹمی طاقت ہونے کی دھمکی دینے کے بجائے ایک دوسرے کے وجودکااحترام کرنا چاہیے۔

الطاف حسین نے کہا کہ علامہ اقبال نے رام، بابا گرو نانک اور دیگر مذاہب کی شخصیات کے بارے میں بھی لکھا تاکہ مسلمانوں پر تنگ نظری کاالزام نہ لگے۔

انہوں نے کہاکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی غیرمسلم نہیں رہے گا، اگرامریکہ اوربرطانیہ نے بھی یہ فیصلہ کرلیاکہ یہاں کوئی پاکستانی نہیں رہے گاتوپھرآپ کیاکریں گے؟ج

متحدہ کے قائد نے کہاکہ بدقسمتی سے ہمارے بچوں کوابتداء ہی سے نفرت کے زہرمیں ڈوبی ہوئی تحریریں پڑھائی گئیں، جس سے ظاہر ہے کہ ان کے ذہن زہر آلود ہی ہوں گے۔

انہوں نے واضح کیا کہ آج اگر داعش اور ISIS جیسی تنظیمیں وجودمیں آگئی ہیں تو پھرہم پریشان کیوں ہوتے ہیں؟ ہم جوبوئیں گے وہی کاٹیں گے۔

الطاف حسین نے کہاکہ مسجدوں اورامام بارگاہوں میں خودکش بم دھماکے کرکے معصوم نمازیوں کوشہیدکرنے کادرس قرآن مجید کی کس آیت اورکس حدیث مبارکہ میں دیاگیاہے؟بازاروں، مارکیٹوں، مسلح افواج کے ہیڈکوارٹرز، کامرہ ،نیول بیس، جی ایچ کیو اورآئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز ، پولیس اورایف سی کے کیمپوں پر حملے کرناکونسا جہاد ہے؟ گرجاگھروں، مندروں اوردیگرمذاہب کی عبادت گاہوں کونقصان پہنچانا کس مذہبی تعلیم کے تحت کیاجارہا ہے؟

انہوں نے یاد دلایا کہ دنیا اپنے ثقافتی ورثے کاتحفظ کرتی ہے، ہم اپنے ثقافتی ورثے کوکیوں تباہ کررہے ہیں؟ دنیاچاندپر پہنچ چکی ہے اوریہ تک بتادیا جاتا ہے کہ چاندگرہن کب ہوگا مگرہم آج تک چاندنظرآنے نہ آنے کے معاملے پر جھگڑتے ہیں۔

الطاف حسین نے کہاکہ یہ بات نہایت افسوسناک ہے کہ بلوچستان میں معصوم پنجابیوں کوقتل کیاجارہاہے، مگر جو معصوم بلوچ مارے جارہے ہیں اس کاحساب کون دے گا؟کیا ہماری عدالتیں آزاد ہیں؟ کیا کوئی غریب آدمی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے؟

انہوں نے کہا کہ اگر ہم اپنی متعصبانہ سوچ کو عملی طورپرختم کردیں تو ہم ایک پاکستانی قوم بن سکتے ہیں، ہم مارکٹائی کے عادی ہوچکے ہیں، یہاں کوئی کوئی ٹارزن، کوئی رستم زماں اورکوئی گلوبٹ بنناچاہتاہے، اگرہم ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرلیں اور نفرتوں کے بجائے محبت کو پروان چڑھائیں توسارے مسائل حل ہوجائیں گے۔

اس موقع پر الطاف حسین نے دعاکی کہ اللہ تعالیٰ محبت کوعام کردے اورایساکردے کہ محبت عام ہوجائے، نفرتیں ختم ہوجائیں اورہم محبت کی زنجیرمیں بندھ جائیں، پاکستان میں پیارمحبت، امن بھائی چارہ پیداکردے، ایساماحول کردے کہ ہم جھوٹ سے پرہیزکریں، سچ بولیں، لین دین میں ایمانداری اوردیانتداری اختیارکریں، چوری چکاری سے خودبھی پرہیزکریں اوردوسروں سے بھی پرہیزکرائیں، ہم سب ایک بنیں، ملک کی حفاظت کریں، فرسودہ جاگیردارانہ نظام ، چائلڈلیبر ، کاروکاری اور خواتین کے استحصال کے خلاف جدوجہد کریں۔

انہوں نے تقریب میں شرکت پر تمام مہمانوں کاشکریہ ادا کیا اور شاندارتقریب کے انعقاد پر ایم کیوایم پنجاب کے صدرمیاں عتیق سمیت تمام ذمہ داروں اور کارکنوں کو خراج تحسین پیش کیا۔

تقریب کے مہمان خصوصی معروف کالم نگار حسن نثار تھے جبکہ تقریب سے سینیٹر مشاہد حسین سید، ممتاز اینکر پرسن حامد میر، سماجی کارکن ماروی سرمد، لاہور کے سینئر صحافی اورمقامی اخبارکے ایڈیٹر ذوالفقار راحت سندھو، ایم کیوایم کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، ڈاکٹرفاروق ستار، ایم کیوایم پنجاب کے صدرمیاں عتیق اورایم کیوایم خیبرپختونخوا کے صدر بیرسٹر محمد علی سیف نے بھی خطاب کیا۔

اس تقریب میں سفارتکاروں، دانشوروں، سینئرصحافیوں، کالم نگاروں، ریٹائرڈججوں، سینئر وکیلوں، تاجروں، ارکان پارلیمنٹ اوردیگرشعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افرادکی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔

اس سے قبل ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین نے جمعیت علمائے اسلام فضل کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو ٹیلی فون کرکے ان کی خیریت دریافت کی۔

انہوں نے معروف سماجی رہنماء مولانا عبدالستار ایدھی سے بھی بذریعہ ٹیلی فون بات کی، اور ڈکیتی کی واردات پر ان سے اظہار ہمدردی کیا۔

مولانافضل الرحمان سے گفتگو میں الطاف حسین خودکش حملے میں مولانا کے محفوظ رہنے پر اللہ کا شکر ادا کیا، اورکہا کہ خدا نے ایک علمی خزانے اوراصولوں کے لیے جدوجہد کرنے والی ایک نڈر شخصیت کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھا۔

مولانا فضل الرحمان نے اظہار ہمدردی پرالطاف حسین کاشکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مارنے والے سے بچانے والا بہت بڑا ہے۔

الطاف حسین نے معرف سماجی رہنما عبدالستار ایدھی سے ڈکیتی کی واردات پر اظہار ہمدردی کرتےہوئے کہا کہ آپ نے پوری زندگی غریب، معصوم اور دکھی عوام کی خدمت میں صرف کردی، جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔

متحدہ کے قائد نے ڈکیتی میں ملؤث ملزمان کی فوری گرفتاری کابھی مطالبہ کیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں