اسلام آباد: ایک عالمی ادارہ نے پاکستان سے دنیا بھر میں پولیو وائرس پھیلنے کے سنگین خدشات کی تصدیق کرتے ہوئے تجویز دی ہے کہ ملک کا انسداد پولیو پروگرام نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے حوالے کر دیا جائے۔

گلوبل پولیو ایریڈیکیشن انیشیٹیو کے انڈیپنڈنٹ مانیٹرنگ بورڈ (آئی ایم بی) نے اس مرض سے نمٹنے کے حوالے سے پاکستان کی کوششوں کو 'انتہائی ناکام ' قرار دے دیا۔

خیال رہے کہ عالمی خیراتی اداروں کے لئے کام کرنے والا آئی ایم بی ہر چھ مہینے بعد پولیو وائرس سے نبردآزما ملکوں کی کارکردگی پر ایک رپورٹ جاری کرتا ہے۔

نومبر، 2012 میں آئی ایم بی نے پاکستان پر سفری پابندیا لگانے کی تجویز دی تھی جس پر آخر کار رواں سال پانچ مئی سے عمل درآمد شروع کردیا گیا۔

تیس ستمبر، برطانیہ میں ہونے والے آئی ایم بی کے آخری اجلاس میں قومی صحت و خدمات (این ایچ ایس) کی وزیر سائرہ افضل تارڑ، وزیر اعظم کی پولیو کیلئے فوکل پرسن اور ایم این اے عائشہ رضا فاروق نے پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔

حالیہ رپورٹ پولیو کے خلاف پاکستان کی لڑائی کے خلاف فرد جرم ہے جس میں بار ہا ملک سے برآمد ہونے والے پولیو وائرس کو 'پاکستان پولیو وائرس' کا نام دیا گیا۔

رپورٹ میں مشورہ دیا گیا عالمی ادارہ صحت کے ماہرین کی ایک خصوصی کمیٹی وائرس سے متاثرہ ملکوں سے آنے والے مسافروں کو درست ویکسینیشن سرٹیفیکیٹ یقینی بنانے پر ہی اپنی حدود میں داخل ہونے کی اجازت دے۔

رپورٹ میں زور دیا گیا کہ اس مشورہ پر جلد از جلد عمل کیا جانا چاہیئے۔

وزارت برائے قومی صحت و خدمات کےایک اہلکار نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈان کو بتایا کہ اگر آئی ایم بی کی تجاویز پر عمل درآمد ہوتا ہے تو اس سے پاکستانیوں کا بیرون ملک سفر بہت مشکل ہو جائے گا۔

'پولیو ویکسینیشن سرٹیفیکیٹ پاسپورٹ جتنی اہمیت ہی اختیار کر جائے گا اور دوسرے ملک پاکستانیوں کو اس سرٹیفیکیٹ کے بغیر کسی صورت اپنی حدود میں داخل نہیں ہونے دیں گے'۔

رپورٹ کے مطابق رواں سال دنیا بھر میں اسی فیصد پولیو کیسوں کی ابتدا پاکستان سے ہوئی۔

رپورٹ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان کا پولیو پروگرام بری طرح ناکام ہو چکا۔'وائرس کے زیادہ تر شکار بچے ہیں جنہیں حکومت نے غیر محفوظ اور خطرہ میں چھوڑ دیا'۔

پڑوسیوں کے لئے خطرہ

رپورٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان پڑوسی ملکوں کے لئے بھی ایک خطرہ ہے کیونکہ پاکستان سے آیا پولیو وائرس افغانستان، مشرق وسطی، شام اور عراق میں ہونے والی ہلاکتوں اور معزوریوں کی بنیادی وجہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق، آئی ایم بی نے جس سے بھی بات کی ، اس نے پاکستان میں پولیو کے خاتمہ کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کیا۔ 'اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی عزم، علاقائی و مقامی رہنماؤں کی مدد، عوامی صحت کی قیادت و انتظام اور سول سوسائٹی کی شمولیت انتہائی ناکافی ہے۔

آئی ایم بی نے اپنی تجاویز میں پاکستان پر زور دیا کہ وہ نائجیریا میں کامیاب ہونے والے پولیو پروگرام کی طرز پر اپنا پروگرام چلائے۔

ایک اور تجویز انٹیلی جنس اور رابطوں کے لئے این ڈی ایم اے کی نگرانی میں ایک مضبوط ایمرجنسی آپریشنز سینٹر سے متعلق ہے۔

رپورٹ نے حکومت سے ایک جذباتی اپیل میں کہا کہ وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کرنے والے پولیو رضاکاروں کی قربانیوں کو ضائع ہونے سے ہر صورت بچائے۔

'گزشتہ دو سالوں سے شمالی وزیرستان میں پولیو وائرس کی گردش ایک پیچیدہ عنصر ہے۔اس قبائلی علاقے میں طالبان کی پابندی نے تقریباً ڈھائی لاکھ بچوں کو پولیو ویکسین سے محروم کئے رکھا'۔

'انیس جولائی، 2014 کو ایک موقع اس وقت ملا جب پاکستان فوج نے علاقے میں آپریشن کا آغاز کیا۔ آپریشن سے پہلے تقریباً تمام ہی خاندان اور بچے علاقے سے نکل گئے تھےجس کی وجہ سے عارضی ٹرانسٹ پوسٹوں پر ماضی میں محروم رہ جانے والے بچوں کو پولیو ویکسین مل سکی'۔

رپورٹ کے مطابق، شمالی وزیرستان تک رسائی نہ ہو سکنے کی وجہ اب کوئی معنی نہیں رکھتی۔

رپورٹ نے سیکورٹی خدشات اور رسائی نہ ملنے کی وجوہات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے دلیل دی کہ فوجی آپریشن کی وجہ سے بہت سے بچے شمالی وزیرستان سے محفوظ علاقوں میں منتقل ہو چکے ہیں لہذا ان تک رسائی اب ممکن ہے۔

رپورٹ کا کہنا ہے پنجاب میں سامنے آنے والے پولیو کیسوں کی وجہ سیکورٹی خدشات نہیں ہو سکتے،اور یہی معاملہ کراچی کا ہے جہاں کے کئی اضلاع سے پولیو کیس رپورٹ ہوئے۔

دوسری جانب، وزارت قومی صحت و خدمات کے ایک جاری بیان میں کہا گیا کہ رپورٹ میں بتائی گئی کچھ تجاویز (مثلاً ای او سی کو مضبوط بنانا) پر پہلے ہی عمل کیا جا چکا۔

بیان کے مطابق، پاکستان نےآئی بی ایم کی سفارشات پر 2015 سے انجیکشن کے ذریعے دی جانے والی پولیو ویکسین متعارف کرانے کا حتمی منصوبہ تیار کر لیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Khuram Murad Oct 26, 2014 08:23am
جہاں عوام کی صحت سے زیادہ میٹرو بس، میٹرو ٹرین، ذاتی کاروبار اور کمیشن کی اہمیت ہو وہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ جمہورئیت زندہ باد۔