پولیو ویکسین کی افادیت پر سوالیہ نشان

30 اکتوبر 2014
ایک بچے کو پولیو سے بچائو کی ویکسین پلائی جارہی ہے— فائل فوٹو
ایک بچے کو پولیو سے بچائو کی ویکسین پلائی جارہی ہے— فائل فوٹو

کراچی : حال ہی میں معمول کی ویکسینشن سے گرزنے کے باوجود ایک گھرانے کے دو بچوں میں پولیو وائرس کی تصدیق سے ویکسین کی قوت تاثیر پر سنجیدہ سوالات سامنے آگئے ہیں۔

سرکاری سطح پر اس کا الزام زندگی بھر کے لیے مفلوج کردینے والے مرض سے متاثرہ بھائی بہن کے اندر قوت مدافعت کی کمی پر ڈالتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ممکنہ طور پر اس کی وجہ ناقص غذا یا کسی قسم کی جنیاتی خرابیاں ہوسکتی ہیں۔

مگر سندھ کی وزارت صحت کے ایک سنیئر عہدیدار نے تسلیم کیا ہے کہ اس طرح کے واقعات سے ویکسین کی افادیت اور اس کے کولڈ چین سسٹم پر متعدد سوالات اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

اس نے نام چھپانے کی شرط پر بتایا"اس طرح کے واقعات ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں اور ہمیں مستقبل میں اس مرض کی روک تھام کے لیے اس طرح کے ہر واقعے کی مکمل جانچ پڑتال کرنا ہوگی"۔

صوبائی حکومت جو پہلے ہی ویکسین کے مخالفین کے خیالات تبدیل کرنے میں ناکام نظر آرہی تھی اب اسے مزید مشکل کا سامنا ہے اس موذی مرض کی ویکسین لینے کے باوجود اس کا شکار بن جانے والے بچوں کی خبروں کے بارے پروپگینڈہ کرنے والے حلقوں کا مقابلہ کس طرح کیا جائے۔

اس مرض نے حال ہی میں تین بچوں کو اپنا شکار بنایا جس میں سگے بھائی بہن بھی شامل تھے جس کے بعد رواں برس سندھ بھر میں پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد انیس ہوگئی، جبکہ ملک بھر میں مجموعی طور پر دوسو بیس کیسز سامنے آچکے ہیں۔

دوسری جانب سندھ میں ای پی آئی کے حکام کا کہنا ہے کہ انہیں اسلام آباد میں واقع قومی ادارہ صحت سے اطلاع ملی ہے کہ کراچی کے علاقوں جمشید ٹاﺅن اور اورنگی ٹاﺅن سے تعلق رکھنے والے دو ڈیڑھ سال کی عمر کے بچوں کو پولیو سے پاک قرار دیا گیا ہے۔

ایک عہدیدار نے بتایا کہ اس کا مطلب ہے کہ کراچی میں اب نومبر کے وسط تک کسی پولیو کیس کے سامنے آنے کا امکان نہیں کیونکہ گزشتہ تین ہفتوں کے دوران کراچی کے بچوں کے مزید نمونے قومی ادارہ صحت کو نہیں بھیجے گئے۔

سات لاکھ سے زائد بچوں کی ویکسینیشن

طبی حکام کا کہنا ہے کہ کراچی کی 75 یونین کونسلوں میں سات لاکھ سے زائد بچوں کو ہدف بناکر کی جانے والی انسداد پولیو مہم کے 'حوصلہ بخش' نتائج سامنے آئے ہیں۔

کراچی ہیلتھ ڈائریکٹر ڈاکٹر ظفر اعجاز کا کہنا ہے" پولیو مہم کے دوران اس بات پر خصوصی توجہ دی گئی کہ جن علاقوں میں بچے گزشتہ مہمات کے دوران ویکسین کے عمل سے گزر نہیں سکے تھے انہیں بھی اس میں شامل کیا جائے اور ہمیں اس میں کامیابی حاصل ہوئی"۔

حکام نے یہ مہم دو حصوں میں تقسیم کردی تھی تاکہ شہر کے مختلف حصوں میں سیکیورٹی کے انتظامات کیے جاسکیں۔

پہلے مرحلے میں 33 یونین کونسلوں میں تین لاکھ 26 ہزار بچوں کو کور کیا گیا جبکہ دوسرے مرحلے میں بقیہ 42 یونین کونسلوں میں 3 لاکھ اٹھاسی ہزار بچوں تک رسائی حاصل کی گئی۔

ڈاکٹر اعجاز کے مطابق یہ پولیو مہم کامیاب رہی جبکہ رضاکاروں کے لیے پولیس کی جانب سے مناسب انتظامات کیے گئے تھے۔

ایک اور عہدیدار نے بتایا کہ پولیو مہمات کے دوران انہیں ایک بار پھر والدین کی جانب سے بچوں کو ویکسین سے انکار کا سامنا کرنا پڑا جن میں اکثریت پختون آبادیوں کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں