اسلام آباد:الیکشن کمیشن کا پاکستان تحریک انصاف کے ارکان پارلیمنٹ کے استعفوں سے کوئی تعلق نہیں اور کمیشن کا کردار استعفے منظور ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے جب وہ آئین کے تحت خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخابات کرائے گا۔

قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ پی ٹی آئی اراکین کے استعفوں پر ای سی پی سے رابطہ کریں گے۔

ایاز صادق کے مطابق وہ کمیشن کو بتائیں گے کہ آخر کن وجوہات کی بناء پر وہ دو مہینے قبل جمع کرائے گئے استعفوں کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکے۔

کمیشن کے ایک سینئر افسر نے بدھ کو ڈان سے گفتگو میں بتایا کہ ایاز صادق کا یہ اقدام 'غلط پتہ پر خط ارسال کرنے جیسا ہو گا '۔

انہوں نے بتایا کہ سپیکرکے لئے ضروری نہیں کہ وہ کمیشن کو مطلع کریں کہ انہوں نے کسی کا استعفی کیوں منظور نہیں کیا۔

'ای سی پی کو یہ بتانے کی کوئی منطق نہیں کہ اسمبلی کے ایک رکن کا استعفی قبول نہیں کیا جا رہا'۔

انہوں نے مزید بتایا کہ استعفی منظور ہونے کی صورت میں سپیکر نشست کے خالی ہونے کا نوٹس جاری کرتا ہے اور اس نوٹس کی ایک کاپی کمیشن کو ارسال کی جاتی ہے تاکہ اس خالی نشست پر ضمنی الیکشن کرایا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک خالی نشست پر 60 دنوں کے اندر اندر ضمنی انتخاب کرا دے۔

دوسری جانب، مبصرین کی رائے ہے کہ نا تو حکومت پی ٹی آئی کے استعفے منظور کرنا چاہتی ہے اور نا ہی پی ٹی آئی اسمبلی کو خیرآباد کہنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔

مبصرین کا ماننا ہے کہ سپیکر کی جانب سے الیکشن کمیشن سے رابطہ کرنے کا فیصلہ معاملہ کو طول دینے کے حکمت عملی ہے۔

مبصرین کے مطابق، قانون میں استعفی قبول ہونے کا کوئی ٹائم فریم متعین نہیں لیکن عموماً دو سے تین دنوں میں سپیکر استعفی قبول کرلیتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان دنوں سپیکر کے پاس متعدد آپشن موجود ہیں۔

'سپیکرایس ایم ایس یا پھر ای میل کے ذریعے پی ٹی آئی ارکان کو بتائیں کہ انہیں استعفے موصول ہوئے ہیں اور اگر کوئی یہ دعوی کرتا ہے کہ اس نے استعفی نہیں دیا تو وہ سپیکر کے چیمبر میں آ سکتا ہے'۔

ایک تجزیہ نگار کے مطابق، سپیکر جان بوجھ کر معاملہ کو طول دے رہے ہیں ورنہ وہ اگست میں اپنے استعفے قومی اسمبلی کے سکریٹریٹ میں جمع کرا نے والے شاہ محمود قریشی اور چار دوسرے پی ٹی آئی ارکان کے استعفی تو منظور کر سکتے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں