لاڈلے قاتل

اپ ڈیٹ 25 نومبر 2014
بلوچستان کی زمین کو بنجر کہنا غلط ہے، یہاں کی زمین زرخیز ہے جہاں سے دن رات انسانی لاشیں برآمد ہوتی ہیں۔
بلوچستان کی زمین کو بنجر کہنا غلط ہے، یہاں کی زمین زرخیز ہے جہاں سے دن رات انسانی لاشیں برآمد ہوتی ہیں۔

"بلوچستان بانجھ ہے، یہ کچھ نہیں دیتا۔" یہ میرے ایک غیر بلوچستانی دوست کا لاہور میں چند سال پہلے ہونے والی ایک ہلکی پھلکی بحث میں کیے جانے والا تبصرہ تھا۔" پنجاب پورے پاکستان کا پیٹ گندم فراہم کرکے پالتا ہے، خیبر پختونخواہ تمام پاکستان کو بجلی مہیا کرتا ہے، سندھ بندرگاہوں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ہماری جیبیں بھرتا ہے جبکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ہماری پیاس دریاوں سے بجھاتے ہیں۔ بلوچستان ہمیں کچھ نہیں دیتا، کچھ بھی نہیں۔"

اپنے دوستوں کے اس تبصرے پر میں صرف مسکرا کر رہ گیا۔ اسلام آباد میں سی این جی اسٹیشنز کے باہر کئی کلومیٹر پھیلی گاڑیوں کی لمبی قطاروں کو دیکھ کر میں اب تک بلوچستان سے نکالی گئی سوئی گیس کے بارے میں کچھ کہہ نہیں پایا۔ لیکن جب میں HRCP کی جانب سے شائع ہونے والی حالیہ رپورٹ کو دیکھتا ہوں تو جی چاہتا ہے کہ میں اپنے ان دوستوں کے ساتھ اس بحث کا بھر پورجواب دوں۔

بلوچستان اب بانجھ نہیں رہا۔ کوئٹہ سے لے کر خضدار اور قلات سے لے کر پنجگور تک کی تمام بنجر زمینوں نے پیداوار شروع کر دی ہے۔ یہ زمینیں راتوں رات انسان اگلتی ہیں۔ ہاں، ان انسانوں کی صحت کے بارے میں اختلاف ہو سکتا ہے کیونکہ یہ انسان نہ ہی سانس لیتے ہیں نہ ہی چل پھر سکتے ہیں۔ ان کے ناخن اکھاڑ لیے گئے ہیں، ان کی جلد جھلسی ہوئی ہے، ان کے ہاتھ پاؤں ٹوٹے ہوئے ہیں اور اکثر کی آنکھیں بھی نوچ لی گئیں ہیں۔ زمین کا بنجرپن اب ختم ہو چکا ہے کہ اب اکثر اس طرح کی درجنوں لاشیں بلوچستان کی زمین اگلتی رہتی ہے۔ یہ جادو نہیں تو اور کیا ہے؟

تاریخ بتاتی ہے کہ کسی بھی انسانی معاشرے میں سیاسی جدوجہد کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ چاہے وہ امام حسین ہوں یا چی گوویرہ ہو جس نے کیوبا کی حکومت کو چیلنج کیا۔ یا پھر وہ روسی جنہوں نے زار کے خلاف بغاوت کی یا مارٹن لوتھر کنگ جو کہ امریکا کے نسلی امتیاز کے نظام کے خلاف لڑا۔ بلکہ اتنا دور جانے کی کیا ضرورت، وہ سب معصوم بچیاں اور خواتین جو کہ دنیا کے جانے مانے انسانی حقوق کے حصول لیے جدوجہد کررہی ہیں جیسا کہ ملالہ تعلیم کے لیے کر رہی ہے یا لیڈی ہیلتھ ورکرز جو کہ پولیو کے خاتمے کی جنگ لڑ رہی ہے ہیں۔ ان سب کو اپنی جدوجہد کی بھاری قیمت چکانی پڑی۔

تمام حکومتیں اور ریاستیں اپنے موجودہ ڈھانچے کے بچاؤ کے لیے ان جدوجہد کرنے والوں سے لڑتی ہیں جو کہ نظام میں بنیادی تبدیلی کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ پر تشدد لاشیں جو روزمرہ کی بنیاد پر بلوچستان کی سرزمین سے برآمد ہوتی ہیں، ان لوگوں کی ہیں جو جنگجوانہ سرگرمیوں سے لے کر آزاد بلوچستان کی وال چاکنگ تک ریاست مخالف نعروں اور علیحدگی پسند مواد کی اشاعت، اور ریاست کو ناپسند عوامی تقاریر جیسے سرگرمیوں میں اپنے دوستوں یا رشتہ داروں کے ہمراہ مصروف رہے ہوں۔ یہ نظام اور ریاست کے خلاف کھڑے ہونے کے جرم میں چکائی جانے والی بھاری قیمت ہے۔

اسی سرزمین بلوچستان میں کچھ نام نہاد سیاسی گروپ ایسے بھی ہیں جن کا مقصد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں ترمیم کر کے شیعوں کو کافر قرار دینا ہے اور ان کا یہ "مشن" اس مقصد کے حصول کے لیے لاتعداد قربانیوں کا دعویٰ کرتا ہے، جو کہ اکژبلوچستان میں نہیں ہوتی۔ ان کا عسکری بازو 1500 ہزارہ شیعہ برادری کا قتل عام کر سکتا ہے اور پھر اپنے جیت کی خبریں پاکستان کے نمایاں اخبارات میں چھپوا بھی سکتا ہے جن سے پاکستان کی میڈیا کو مانیٹر کرنے کے ادارے بے خبر ہی رہتے ہیں۔ بد نام زمانہ ٹارگٹ کلرز، مثال کے طور پرسیف اللہ کرد اور داؤد بادینی، کوئٹہ چھاؤنی میں واقع ہائی الرٹ انسداد دہشتگردی کی جیل سے پراسرار طور پر غائب ہو جاتے ہیں۔

کوئٹہ شہر کے دو کناروں پر واقع ہزارہ ٹاؤن اور علمدار روڈ، جو کہ ہزارہ اور شیعہ برادری کے رہائشی علاقے ہیں، اب ان کے اپنے لیے ایک کھلی جیل کی مانند بن گئے ہیں کیونکہ اکثر ان علاقوں کے بیچ سفر کرنے والے شیعہ اور ہزارہ برادری کے افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ کچھ عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ موٹر سائیکل سوار افراد کسی بھی ہزارہ کو گولیوں سے چھلنی کرنے کے بعد ان کی لاشوں پر نہایت ہی فخر سے نعرے بلند کرتے ہیں اورپاکستان کو شیعوں سے "پاک" کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہیں۔

چیف منسٹرکے لیے گئے نوٹسز، چیف جسٹس کے لیے گئے از خود نوٹس (جن کی حقیقت نوٹس لینے کی حد سے آگے عملاً کچھ بھی نہیں)، اور ہمیشہ کی طرح صرف مذمت کرنے والے سیاستدانوں کی مذمتوں میں دہشت گردی تنظیموں کا نام نہیں لیا جاتا۔ ان کا نام اخبارات کے بیورو چیف ان کے بیانات کی صورت میں چھاپتے ہیں جس میں یہ کھلم کھلا قتل کا اعتراف کرتے ہیں، اور مزید قتل وغارت کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں۔

یہ سیاسی گروہ کوئٹہ کے مرکز زرغون روڈ پر واقع ہاکی گراؤنڈ، جو کہ گورنر ہاؤس اور وزیر اعلیٰ ہاؤس سے چند قدموں کے فاصلے پر موجود ہے، میں جلسہ منعقد کرتے ہیں۔ پھر کسی بھی عام سیاسی جلسے کی طرح، کوئٹہ شہر کی دیواروں پر' چلوچلوہاکی گراؤنڈ چلو' لکھوایا جاتا ہے۔

گزشتہ برس دو مختلف واقعات میں ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں پہلے علمدار روڈ پر یکے بعد دیگرے دو دھماکوں میں 115 ہزارہ شیعہ افراد لقمۂ اجل بنے اس کے بعد ہزارہ ٹاؤن میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں 116 افراد ان مذہبی شدت پسندوں کی وحشت کانشانہ بنے۔

کیا اس طرح کی سیاسی جدو جہد کوئی مذاق نہیں ہے؟ بالکل ہے۔ یہ اوپر بیان کردہ کسی بھی سیاسی جدو جہد سے بالکل مختلف ہے۔

پچھلے مہینے ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے 8 افراد کے قتل کے بعد ڈان نیوز میں محمد حنیف کا لکھا ہوا ایک کالم چھپا۔ کالم میں کوئٹہ پولیس کے ایک اعلیٰ ترین افسرکا غیر سرکاری بیان شامل کیا گیا ہے۔ خالصتاً ایک مردانہ معاشرے میں جہاں کمزور اور مظلوم افراد کو ہمیشہ صنف نازک کے برابر ٹھہرایا جاتا ہے اور عموماً مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اس طرح اس پولیس افسر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ "ہزارہ ہمارے لاڈلے بچے ہیں"۔ اس بیان کو پڑھنے کے ساتھ ہی میں اس افسر کے چہرے پر موجود طنزیہ ہنسی کو بخوبی محسوس کر سکتا ہوں جو کہ اسلام آباد یا کراچی کے سینئر صحافیوں کے سامنے بظاہرچہرے پر سنجیدگی لاتے ہوئے کہا گیا ہو گا۔

حنیف صاحب براہ مہربانی اس اعلیٰ پولیس افسر کو بتا دیجیے کہ یہ پورا بلوچستان جانتا ہے کہ ہزارہ لاڈلے بچے نہیں بلکہ ان کے قاتل لاڈلے ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔


ترجمہ: ملیحہ زیدی

یہ مضمون ڈان اخبار میں 30 اکتوبر 2014 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں