حالیہ حکومت مخالف مظاہروں میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے کردار نے سیاسی ماہرین کو یہ تصور کرنے پر مجبور کردیا ہے وہ ملک کی مستقبل کی سیاست میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

انہوں نے اس احتجاج میں ایسے مادے کا کردار ادا کیا جو کیمیائی عمل کی رفتار تو بڑھا دے لیکن خود استعمال نہ ہو، انہوں نے کھلے دل سے چندے دے کر اور سوشل میڈیا میں پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے حق میں مہم چلا کر سیاسی بحران کی شدت کو بڑھایا۔

ایسے پاکستانی تارکین وطن جن کی بڑی تعداد یورپ اور شمالی امریکا کی رہائشی ہیں، نے ذاتی طور پر پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے اسلام آباد کے دھرنوں میں شرکت کی۔

یہ منتشر پاکستانی برادریاں ہوسکتا ہے یہاں بالادست سیاسی کردار کے خواہش مند نہ ہو مگر یقیناً وہ ملک میں بنیادی تبدیلیاں اور اصلاحات دیکھنا چاہتے ہیں، کیونکہ یورپ اور امریکا میں مقیم پاکستانیوں کا اپنے آبائی قصبوں سے تعلق مضبوط ہے۔

تاہم اپنے آبائی قصبوں اور وہاں کے باسیوں کے بارے میں ان کے خیالات میں بتدریج تبدیلی آئی ہے، متعدد عناصر نے ان کے تصورات کی شکل بدلنے میں کردار ادا کیا ہے۔

کچھ تحقیقی رپورٹس میں ان برادریوں کے بدلتے رویوں کو سمجھایا گیا ہے جس سے عندیہ ملتا ہے کہ ان کے اندر اپنے آبائی ممالک کے ساتھ تعاون کی مضبوط خواہش موجود ہے خاص طور پر مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی اولین دو نسلوں میں، مگر یہ سیاسی طور پر متحرک ہونے کے مقابلے میں مالیاتی تعاون پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔

تاہم ان برادریوں کے نوجوانوں میں اپنے والدین کے ممالک کے حوالے سے بیگانگی کا احساس بڑھ رہا ہے۔

اگرچہ مغربی معاشروں میں موجود ان منتشر برادریوں کے اندر یہ رجحان یکساں نہیں تاہم اس میں شدت آئی تو اس سے ان برادریوں کے آبائی ممالک کے سیاسی، مذہبی اور سماجی معاملات ضرور متاثر ہوں گے۔

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں یہ تصور عام ہورہا ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا، بطور مسلمان ایک اوسط پاکستانی اپنے مذہب کو بہت سنجیدگی سے لیتا ہے اور وہ اسے عوامی حلقہ اثر میں دیکھنا چاہتا ہے، تاہم اس کے باوجود ایک بڑی تعداد اپنی روزمرہ کی زندگی میں مذہبی عقائد پر عمل نہیں کرتی۔

تارکین وطن کی پہلی نسل کو ایسا لگتا تھا کہ وہ کسی جدید سماجی ثقافتی نظام میں بالکل نئے ہیں، وہ اور ان کی اگلی نسل کو میزبان معاشروں میں ایڈجسٹ ہونے کے لیے جدوجہد کا سامنا کرنا جہاں ان کے آبائی وطن کی سماجی، ثقافتی اور مذہبی روایات و اقدار کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔

کچھ ساختی عناصر کے ساتھ پاکستانی تارکین وطن کو ثقافتی بیگانگی اور شناخت کی تعمیر جیسے مسائل سے گزرنا پڑا جو کہ وقت گزرنے کے ساتھ مختلف واقعات میں ابھر کر سامنے آتے خاص طور پر نائن الیون اور 7/7 (لندن حملوں) جیسے واقعات، دہشت گردی کے خلاف واقعات، 'اسلاموفوبیا' اور میزبان معاشروں میں میڈیا کا کردار نمایاں ہیں۔

تاہم اب یہ پاکستانی تارکین وطن کی دوسری اور تیسری نسل ہے، وہ لوگ جو ستر کی دہائی میں ہجرت کرکے گئے تھے وہ شناختی تنازعے کی جدوجہد میں کامیاب ہوچکے ہیں، جو انہیں اپنے آبائی اور میزبان معاشروں کے سماجی و ثقافتی حقیقتوں سے دور لے جارہی تھی۔

یہ لوگ اس حوالے سے الجھن کا شکار ہیں کہ کس طرح اپنے بارے میں پائے جانے والے 'منفی تصورات' کا توڑ کرسکیں خاص طور پر اسلام کے بارے میں۔

ایکسپلورنگ اسلام فاﺅنڈیشن کے زیر تحت ہونے والے 2010 کے ایک عوامی سروے کے مطابق "مسلم نوجوان 'شناختی بحران' پر یقین رکھتے ہیں یہ خیال مسلم تارکین وطن کی نئی نسل میں اپنی ثقافتی شناخت کے بارے میں کنفیوژن کا سبب بن رہا ہے اور وہ انتہا پسندی کی جانب بڑھ رہے ہیں"۔

یہ عنصر بھی ان نوجوانوں کو اپنے والدین کی ثقافت، مذہب اور سیاسی جڑوں کے ساتھ جڑے رہنے کی حوصلہ افزائی کررہا ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ مغرب میں موجود پاکستانی برادریوں کے خیال میں صرف سیاست ہی ان کے آبائی معاشرے میں ان کے تصورات کے مطابق تبدیلی لانے کا واحد ذریعہ ہے تاہم یہ ملک کے پاور اسٹرکچر کا داخلی دروازہ ضرور ہے۔

یقیناً نئی سیاسی جماعتیں ان مقاصد کے لیے بہترین مواقع فراہم کرتی ہیں، جس کا ردعمل وہ ان سیاسی جماعتوں کی حمایت فنڈز اور آبائی قصبوں میں سیاسی مہمات چلا کر ظاہر کرتے ہیں، ان کی دولت انتخابات کے موقع پر ان جماعتوں کو دستیاب ہوتی ہے۔

سیاسی جماعتوں کے نمائندگان انہیں فون کرتے ہیں اور ان سے ملنے بیرون ملک جاتے ہیں تاکہ ان کا تعاون حاصل کرسکیں خاص طور پر مالی تعاون۔

کچھ افراد تو انتخابات کے موقع پر اپنے آبائی علاقوں میں آکر اپنی پسند کے امیدواروں کے لیے مہم بھی چلاتے ہیں۔

سیاسی جماعتیں ان تارکین وطن برادریوں سے اچھے تعلقات رکھنے کی کوشش کرتی ہیں کیونکہ وہ اپنے علاقوں میں رہائش پذیر خاندانوں اور رشتے داروں پر اثرانداز ہوکر ان جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ دلاسکتے ہیں۔

تارکین وطن کی اپنے رشتے داروں اور دوستوں کو دی جانے والی مالی امداد ان کے سیاسی انتخاب کی سوچ پر اثر انداز ہونے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، اس کے علاوہ مشترکہ برادری کی بنیاد پر تعاون بھی پاکستانی سیاست کا طاقتور عنصر ہے۔

پاکستانی تارکین وطن برادریاں اس عنصر کو انتخابات میں امیدواروں کی معاونت کرتے ہوئے بھی مدنظر رکھتے ہیں، تاہم یہ عنصر دیہی علاقوں میں زیادہ نمایاں ہے اور شہروں میں یہ زیادہ مضبوط نہیں۔

پاکستانی تارکین وطن بطور آزاد امیدوار پاکستان میں انتخابات جیت نہیں سکتے تاہم اگر وہ دولت خرچ کریں تو کسی ممتاز سیاسی جماعت کا انتخابی ٹکٹ ضرور حاصل کرسکتے ہیں۔

علاوہ ازیں وہ اپنی دولت کو اپنے علاقے میں اپنی شخصیت کا اثررسوخ اور پارٹی میں عہدہ بڑحانے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں، جس کے بدلے میں انہیں پارٹی کے حامیوں کے ووٹ ملتے ہیں۔

پاکستانی تارکین وطن جو آزاد کشمیر اور شمالی پنجاب کے دیہی و شہری علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں، وہ پاکستانی سیاست میں کراچی، کے پی اور وسطی پنجاب کے تارکین وطن کے مقابلے میں زیادہ سرگرم ہیں۔

اسی طرح وسطی اور شمالی پنجاب کے کچھ تارکین وطن ایسے ہیں جو اپنے میزبان ممالک کی سیاست میں بھی کافی متحرک ہیں۔

مثال کے طور پر پاکستانی نژاد برطانوی سیاستدان کے والدین گوجر خان کے علاقے بھلوال سے برطانیہ گئے، اسی طرح ایک اور برطانوی پاکستانی سیاستدان سجاد کریم جو یورپین پارلیمنٹ کے رکن ہیں، کے بزرگ منڈی بہاﺅ الدین کے کراری والا گاﺅں سے تعلق رکھتے تھے۔

ان مثالوں کے باوجود تارکین وطن پاکستانیوں کی اکثریت کو لگتا ہے کہ وہ اپنے وطن کی سیاست میں زیادہ اطمینان محسوس کریں گے۔

اس کے ساتھ ساتھ سیاسی اور نظریاتی اعتبار سے بھی پاکستانی تارکین وطن پاکستان بھر کے عوام کے تصورات کے مقابلے میں کم یا زیادہ وقت سے زیادہ مطابقت رکھتے ہیں۔

یہ سیاسی اور نظریاتی مماثلت ان کے اندر پاکستانی سیاست میں سرگرم شمولیت کے لیے حوصلہ افزائی کرتی ہے، مستقبل قریب میں اس سیاسی تعلق میں کمزوری کے آثار نظر نہیں آتے اور پاکستانی سیاسی جماعتیں اور تارکین وطن ایک دوسرے کی معاونت جاری رکھیں گے۔

انگریزی میں پڑھیں۔


لکھاری ایک دفاعی تجزیہ کار ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں