حضرات! خواتین کی ترقی کے لیے کام کریں

24 نومبر 2014
صرف مشترکہ کوششیں اور بنیادی اقدامات ہی پاکستان میں موجود صنفی فرق کو ختم کرنے میں کردار ادا کرسکتے ہیں — فوٹو اے پی/فائل
صرف مشترکہ کوششیں اور بنیادی اقدامات ہی پاکستان میں موجود صنفی فرق کو ختم کرنے میں کردار ادا کرسکتے ہیں — فوٹو اے پی/فائل

ہم مردوں میں سے زیادہ تر لوگ رینکنگز پر توجہ دیتے ہیں۔

ہم اپنی پسندیدہ ٹیموں، کھلاڑیوں، یونیورسٹیوں، شہروں، اور ملکوں کا بھی باقیوں سے موازنہ کرتے ہیں۔

پچھلے ہفتے ہی بی بی سی نے 2014 کی 100 خواتین کے نام سے ایک فہرست جاری کی، تاکہ ان خواتین کو منظرِعام پر لایا جائے جو دنیا میں تبدیلی لانے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ان 100 میں سے 6 یا تو پاکستانی ہیں، یا بیرونِ ملک مقیم پاکستانی نژاد ہیں۔ صاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں ہنرمند اور باصلاحیت خواتین کی کمی نہیں ہے۔

فوٹو بشکریہ بی بی سی
فوٹو بشکریہ بی بی سی

لیکن ایک اور بھی فہرست ہے جو پچھلے ہفتے ہی جاری کی گئی، بی بی سی کی فہرست سے صرف ایک دن پہلے۔

ورلڈ اکنامک فورم نے 28 اکتوبر 2014 کو صنفی فرق (gender gap) پر اپنی 2014 کی رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ میں 142 اقوامِ عالم کا اس حوالے سے موازنہ کیا گیا کہ وہاں پر خواتین نے تعلیم، صحت، سیاست، اور آمدنی میں مردوں کے مقابلے میں کتنی ترقی کی ہے۔

یہ رپورٹ کوئی بہت حوصلہ افزا نہیں ہے، اور ایسا بہت عرصے سے جاری ہے۔


پڑھیے: جنسی مساوات: پاکستان خواتین کیلئے 'بدترین' ملک


جینڈر گیپ سروے میں اسکور 1 ہونے کا مطلب ہے کہ وہاں خواتین اور مردوں کے درمیان تمام مواقع میں مکمل برابری ہے۔ زیادہ سے زیادہ جو اسکور حاصل کیا گیا ہے وہ 0.95 ہے، جبکہ پاکستان کا اسکور صرف 0.55 ہے۔

اسکینڈے نیوین ممالک آئسلینڈ، فنلینڈ، ناروے، ڈینمارک، اور سوئیڈن نے پہلے پانچ پوزیشنز حاصل کیں۔ حیرت انگیز طور پر روانڈا اور فلپائن ٹاپ ٹین لسٹ میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہے۔ کینیڈا اور امریکہ بالترتیب 19 اور 20 نمبر پر رہے۔ برطانیہ 26ویں اور انڈیا 114ویں نمبر پر رہا (مکمل رینکنگ دیکھیے)۔

افسوسناک طور پر پاکستان 142 ممالک کی لسٹ میں 141ویں نمبر پر رہا۔

اس سے پہلے کہ ہم رینکنگ کو معاشروں کے بارے میں جانبدار قرار دے کر مسترد کردیں، یہ بات دیکھنا ہوگی کہ برِصغیر کے دوسرے ممالک نے اتنی بری رینکنگ حاصل نہیں کی۔ بنگلادیش 68ویں نمبر پر رہا، جو ٹاپ ہاف میں ہے۔ اس رینکنگ میں بنگلادیش نے اٹلی، برازیل، روس، چین، اور گریس کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ سری لنکا 79ویں جگہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔

اگر کسی ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی ترقی کے فوائد حاصل نہیں کرپارہی، تو سماجی ترقی کا دعویٰ کرنا مشکل ہے۔

امید کی ایک کرن

اگر آپ پاکستان کے اسکورز کا بغور مطالعہ کریں، اور چاروں معیارات، یعنی آمدنی، تعلیم، صحت، اور سیاست کا موازنہ کریں، تو یہ دیکھنا کافی آسان ہے کہ پاکستان کا اسکور سیاست میں اچھا ہے۔

اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ دوسرے زیادہ تر ممالک کے برعکس پاکستان میں ایک خاتون سربراہِ مملکت رہ چکی ہیں۔

بھلے ہی تعلیم کے شعبے میں ترقی کی بہت گنجائش ہے، لیکن یہاں پر بھی امید کی ایک کرن موجود ہے۔ پاکستانیوں کی ایک بہت ہی تھوڑی تعداد کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیرِتعلیم ہے، اور اس میں مردوں اور خواتین کے تناسب کا اسکور 0.95 ہے، جبکہ دوسرے تمام ممالک میں یہ اوسطاً 0.88 ہے۔

آبادی کے کچھ حصوں میں صنفوں کے درمیان یہ خلیج ختم ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ حقیقت میں پاکستانی خواتین شاید بالائی سماجی سطحوں پر مردوں کو پیچھے چھوڑ رہی ہیں۔

لیکن سب سے زیادہ صنفی فرق معاشی سرگرمیوں میں شراکت اور مواقع میں موجود ہے، خاص طور پر یہ فرق پروفیشنل اور ٹیکنیکل کام میں دیکھا جاسکتا ہے۔

آخر ہم اعلیٰ تعلیم میں خواتین کی بے مثال شرکت، اور پروفیشنل اور ٹیکنیکل کریئرز میں ان کی کم موجودگی کے اس تضاد کو کس طرح سمجھ سکتے ہیں؟

اگر اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ پاکستان کی وہ باصلاحیت نوجوان لڑکیاں جو اس وقت اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیرِتعلیم ہیں، اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ٹیکنیکل اور پروفیشنل فیلڈ میں کامیابی سے داخل ہوجائیں، تو ہم نہ صرف پاکستان کا صنفی فرق ختم ہوتا ہوا دیکھیں گے، بلکہ اگلی ہی نسل میں معاشی پیداوار میں بھی اضافہ نظر آئے گا۔


مزید پڑھیے: دنیا سے اوجھل پاکستانی گاﺅں کی روایت شکن خواتین


صنفی فرق کو مٹانے میں مردوں کا کردار

خواتین کی معاشی میدان میں شرکت کو بڑھانے کے لیے پاکستانی مرد مرکزی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ گریجویٹ ہونے والی خواتین کو پروفیشنل کریئرز میں مواقع فراہم کرنا اس میں اہم ثابت ہوسکتا ہے۔ ہم سب ذیل میں دیے گئے کچھ طریقوں سے اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔

1۔ مانیٹرنگ نیٹ ورکس بنائے جائیں

اگر ہم اپنے دوستوں، خاندان، یا اپنے پروفیشنل ساتھیوں میں سے کامیاب مردوں اور خواتین کو جانتے ہیں، تو ہم انہیں رہنمائی کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔ یونیورسٹی کے کسی اسٹوڈنٹ کے لیے رول ماڈل پیش کر کے، خاص طور پر اگر رول ماڈل کوئی خاتون ہوں، ہم پرعزم اسٹوڈنٹس کو پروفیشنل اور ٹیکنیکل فیلڈ میں اپنی جگہ بنانے کے لیے ہمت دلا سکتے ہیں۔ یہ کسی جگہ پر تقریر کرنے سے لے کر پروفیشنل فیلڈ میں کام کرنے کی خواہشمند کسی لڑکی کی فون پر رہنمائی کرنے جتنا آسان بھی ہوسکتا ہے۔

2۔ مساوی مواقع کو یقینی بنایا جائے

ہم مرد اکثر معمول کی بنیاد پر پروجیکٹس یا پوزیشنز کے لیے قابل امیدواروں سے موزوں شخص کا انتخاب کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ہم اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ میدان سب کے لیے ہموار، جبکہ ماحول تمام امیدواروں کے لیے سازگار ہے، بھلے وہ مرد ہوں یا عورت۔

اس بات کا امکان ہمیشہ رہتا ہے کہ خاتون امیدوار سے معاوضے پر زیادہ مذاکرات کر کے انہیں نیچے لایا جاسکتا ہے کیونکہ یہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ انہیں پورے گھر کا خرچہ نہیں اٹھانا ہوگا، یا یہ کہ انہیں اتنی ضرورت نہیں ہوگی جتنی مردوں کو۔ انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم صنف کی بنیاد پر معاوضے کی تفریق کو ختم کریں۔

3۔ ہنرمندی کی ترقی کے مواقع فراہم کیے جائیں

ایک ایسا ملک جہاں انجینیئروں اور نئے بزنسز کی کمی ہے، وہاں پاکستانی خواتین ایک غیراستعمال شدہ ٹیلنٹ کی طرح ہیں۔ خواتین کی قابلیتوں اور ہنروں کو ترقی دینے کے پروگرام اس معاملے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔


مزید پڑھیے: گریجویشن کے بعد 50 فیصد خواتین ڈاکٹرز کبھی کام نہیں کرتیں


ہم میں سے جو لوگ پڑھی لکھی خواتین کو ٹیکنیکل ہنر کی تعلیم دے سکتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ ٹیکنولاجی کا استعمال کرتے ہوئے یہ کام انجام دیں۔ کوچنگ اور ٹریننگ کے لیے اب ایک ہی چھت کے نیچے ہونا ضروری نہیں ہے، اور آپ ٹریننگ کے مواد کو ٹیکسٹ اور ویڈیو کی صورت میں بلاگ پر ڈال سکتے ہیں یا کمپیوٹر کال کے ذریعے بھی جاری کرسکتے ہیں۔

کامیابی یقینی نہیں، لیکن کوشش تو کریں۔

کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ صرف ہنر، لگن، اور قربانی سے تبدیلی نہیں آتی۔ اگر ہم اور کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم اتنا تو کرسکتے ہیں کہ پروفیشنل اور ٹیکنیکل فیلٹ میں موجود خواتین کی کامیابی پر انہیں مبارکباد پیش کریں اور خوشی کا اظہار کریں۔

مقابلے کو ایک طرف رکھیں، اور جب بھی ہمارے ساتھ کام کرنے والی خواتین یا ہمارے ساتھ پڑھنے والی لڑکیاں اچھی پروگریس دکھائیں، تو ہمیں ان سے جلنے کے بجائے اچھا برتاؤ کرنا چاہیے، اور ان کی کامیابی پر ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اور اگر ہم اپنے دیگر مرد ساتھیوں کو بھی اس بات پر آمادہ کریں، کام کرنے کے ماحول زیادہ خواتین دوست بن سکتے ہیں۔ اس کے الٹ ماحول دونوں میں سے کسی بھی صنف کے لیے سازگار ثابت نہیں ہوں گے۔

کیا ہوگا اگر ان تمام باتوں پر عمل کرنے کے باوجود پاکستان اگلے ساتھ جینڈر گیپ رپورٹ کی رینکنگ میں بہتر پوزیشن میں نہیں آتا؟

مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔

اگر صنفی فرق کو ختم ہونے میں وقت بھی لگتا ہے، تب بھی یہ زیادہ بہتر ہوگا کہ ہم اپنی اپنی جگہ پر پاکستانی خواتین کی معاشی سرگرمیوں میں شراکت کو بڑھانے کے لیے کردار ادا کریں۔ صرف مشترکہ کوششیں اور بنیادی اقدامات ہی پاکستان میں موجود صنفی فرق کو ختم کرنے میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔

ہر کوئی اونچی رینکنگ کا خواہشمند ہے، لیکن اصل مرد اس بات کو جانتے ہیں کہ غیرمتزلزل عزم و ارادے سے ہی مطلوبہ نتائج مل سکتے ہیں۔ ہمیں اس کام کو سرانجام دینے کے لیے کسی حکومت اور کسی سیاستدان کا منتظر نہیں رہنا چاہیے۔

حضرات، وقت آچکا ہے کہ ہم قدم بڑھائیں، اس مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھیں، اور اس کے حل کے لیے اپنی سی کوششیں کریں۔ یقین جانیں، تبدیلی آئے گی۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں