نظریے کا فروغ

اپ ڈیٹ 26 نومبر 2014
ریاست کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ افراد کے اوپر اقدار اور نظریات تھوپے۔
ریاست کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ افراد کے اوپر اقدار اور نظریات تھوپے۔

حال ہی میں اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی نے ایک ماڈل یونائٹیڈ نیشنز (ایم یو این) کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں طالبعلم اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کا فرضی مظاہرہ کرکے دکھاتے ہیں۔ نوجوان طلبا مختلف ممالک کے سفارتکار بنے اور عالمی مسائل و تنازعات پر بحث میں حصہ لیا۔

یہ زبردست غیرنصابی سرگرمی ہے، جو طالبعلموں کو ذہنی طور پر بہتر بنانے اور ان میں سفارتکاری و بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں جاننے کی حوصلہ افزائی کا سبب بنتی ہے۔ ایم یو این کانفرنسز دنیا بھر میں ہوتی ہیں اور سینکڑوں طالبعلموں نے اس میں حصہ لے کر فائدہ حاصل کیا ہے۔

مباحثوں کے علاوہ اس یونیورسٹی کے ایم یو این آرگنائزرز نے طالبعلموں سے ایک گلوبل ولیج بھی قائم کیا، جہاں ایونٹ میں حصہ لینے والے ملکوں کو پروموٹ کیا گیا، اور دارالحکومت میں مقیم متعدد ممالک کے سفارتکاروں کو ان اسٹالز کے معائنے کے لیے مدعو کیا گیا۔

بدقسمتی سے معاملات اس وقت خراب ہوگئے جب قدامت پسند جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے طالبعلموں نے اس اسٹال کا نوٹس لیا جو دنیا کے دیگر ممالک کی طرح اسرائیل کی نمائندگی کررہا تھا اور پھر یہ ایک بڑا تنازع بن گیا۔ سینکڑوں طالبعلم لاٹھیوں کے ساتھ نمودار ہوئے اور گلوبل ولیج کو بند نہ کیے جانے پر ہنگامے و توڑ پھوڑ کی دھمکی دی۔

ایونٹ کے اگلے روز کے نتائج اس سے بھی زیادہ برے تھے۔ الزامات کا تبادلہ تو فوری طور پر ہی شروع ہوگیا تھا، جب یونیورسٹی انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ اسرائیلی اسٹال اس کے علم میں لائے بغیر یا منظوری کے بغیر لگایا گیا تھا۔ طالبعلموں نے اس کے ردعمل میں کہا کہ ایم یو این فیکلٹی ایڈوائزرز نے مباحثوں میں اسرائیل کو شامل کرنے کی منظوری دی تھی تاکہ فلسطین کے مسئلے اور غزہ و مغربی کنارے پر اسرائیلی قبضے کے خلاف اقوام متحدہ کی قراردادوں پر بات کی جاسکے۔ اس لیے اسرائیل کو دیگر سرگرمیوں سمیت گلوبل ولیج میں بھی شامل کرلیا گیا۔ طالبعلموں کا موقف کہ 'ہم اسرائیل کو پروموٹ نہیں کر رہے، بلکہ صرف نمائندگی کررہے ہیں'، اس پورے معاملے کا سب سے منطقی ردعمل تھا۔

پھر ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اس معاملے میں مداخلت کا فیصلہ کیا اور تمام یونیورسٹیوں کے لیے ایک تحریری ہدایت نامہ جاری کیا جس کا عنوان 'نظریہ پاکستان اور اصولوں سے وفاداری' تھا۔ ذرا سوچیں کہ نظریہ پاکستان پر مسلسل بحث ہماری قوم کی ترقی کے لیے کتنی فائدہ مند ثابت ہوئی ہے۔

مگر رکیے۔ یہاں اور بھی بہت کچھ ہے۔ ہدایت نامے میں کہا گیا ہے "یونیورسٹیوں اور ڈگری دینے والے اداروں کے اوپر یہ بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ نظریہ پاکستان اور اصولوں کو ترویج دیں۔ اس طرح کے درست نظریات کو پھیلانے سے قوم پرستی کو فروغ دیتے ہیں، الجھن کم کرتے ہیں، اور ان عقائد و اصولوں کو راسخ کرتے ہیں جن کے ذریعے معاشرے میں ہم آہنگی لانے، اور اتحاد اور کارکردگی کو بہتر بنا سکتے ہیں"۔

اس کے بعد یہ بیان ان یونیورسٹیوں کی مذمت کرتا ہے، جو نظریہ پاکستان سے متصادم ڈسکشنز اور نمائشوں کا انعقاد کرتے ہیں، جن سے 'ادارے کی بدنامی ہوتی ہے' اور 'منفی خیالات اور بے چینی کو فروغ ملتا ہے'۔ اور پھر یونیورسٹیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ پاکستان کے اصولوں اور نظریے کو چیلنج کرنے والی کسی بھی سرگرمی یا حکومت پاکستان کے موقف و نقطہ نظر کے خلاف سرگرمیوں پر "نظر" رکھیں۔

بائٹس فار آل ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والا گروپ ہے جو انٹرنیٹ اور کمپیوٹر ٹیکنولاجی کے ذریعے ترقی اور جمہوریت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس نے ایچ ای سی کے بیان پر شدید احتجاج کیا اور اپنے ٹوئیٹ میں کہا "نقصاندہ اقدامات میں ہمیشہ ہتھیار ملوث نہیں ہوتے، ایسا ایچ ای سی پاکستان کے ہدایت نامے سے بھی ہوسکتا ہے جو تعلیمی مستقبل کو سبوتاژ کرسکتا ہے"، درحقیقت یونیورسٹیوں کو یہ ہدایت کرنا کہ 'نظریے' کو پروموٹ کیا جائے، کچھ ایسا ہے جو آپ کسی جابرانہ حکومت جیسے شمالی کوریا، نازی جرمنی، یا اسٹالن کے روس سے ہی توقع کرسکتے ہیں، اور یہ سب ایسے ہیں، جن کا ساتھ پاکستان کے لیے کوئی فخر کی بات نہیں۔

ہر وہ شخص جو تعلیم کے مقاصد کے حوالے سے علم رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ تعلیم کا مقصد 'نظریے کے فروغ' نہیں۔ یہ برین واشنگ کہلاتی ہے۔ ریاست کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ لوگوں کو اقدار اور نظریات کی تعلیم دے۔ نہ ہی ریاست لوگوں کو حکومت کی مکمل اطاعت کا حکم دے سکتی ہے اور نہ ہی نہ ماننے پر سنگین نتائج کا انتباہ دے سکتی ہے۔ ہم اپنے ارگرد جو منفی سوچ، انتشار، بے ترتیبی اور نااتفاقی دیکھ رہے ہیں وہ برسوں سے ریاست کے منظورکردہ نظریات کو پڑھانے کی کوشش کا نتیجہ ہے جس نے حقیقی طور پر صرف نفرت اور عدم برداشت کے بیج بوئے ہیں۔

ماڈل یو این کے حوالے سے طالبعلموں کو ان کی ہمت پر مبارکباد دی جانی چاہیے جو ریت میں سر دبا کر مسائل سے پہلوتہی کرنے والے ہمارے رویے کے خلاف کھڑے ہوئے۔ فلسطین کی مدد اسرائیل کے وجود سے انکار کر کے نہیں کی جاسکتی۔ یہ طالبعلم زیادہ ذہین تھے جو سمجھنے میں کامیاب رہے کہ مذاکرات اور مباحثوں کے ذریعے ہی تنازعات کو حل کیا جاسکتا ہے، انہوں نے دنیا کو ویسا دکھایا جیسی وہ ہے، نہ کہ ویسا جیسا 'نظریہ پاکستان' چاہتا ہے۔

معیاری تعلیم طالبعلموں کے اندر تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی کرتی ہے نا کہ ریاستی سرپرستی والے عقائد کو ماننے کی۔ وہ بہترین مشورہ جو میں آج کے طالبعلموں کو دینا چاہتی ہوں کہ وہ یہ ہے کہ اگر کوئی آپ پر 'نظریہ' تھوپے، تو اسے مسترد کردیں۔ تاریخ، ادب اور سیاست کو پڑھیں۔ سوالات پوچھیں اور اپنے نتائج مرتب کریں۔ ذہنی سستی کا مظاہرہ نہ کریں اور ہر اس چیز کو قبول نہ کر لیں جو آپ کے بزرگ آپ کو بتائیں۔ انہوں نے بڑی بڑی غلطیاں بھی کیں تھیں، اب ان کے تعصبات اور تنگ نظری کی اندھی تقلید نہ کریں۔ آپ بہتر پاکستان چاہتے ہیں؟ یہی اس کے حصول کا بہترین راستہ ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری ایک مصنفہ ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں