بیرونی تناظر

اپ ڈیٹ 10 دسمبر 2014
پاکستان مسئلے کا حصہ نہیں، بلکہ یہ خطے اور عالمی دہشت گردی کے مسئلے کے حل کا اہم حصہ ہوسکتا ہے۔
پاکستان مسئلے کا حصہ نہیں، بلکہ یہ خطے اور عالمی دہشت گردی کے مسئلے کے حل کا اہم حصہ ہوسکتا ہے۔

پاکستان کی 'دہشت گردی کے خلاف جنگ' لگ بھگ چار ماہ پرانی ہوچکی ہے، اب تک اس میں کیا کچھ حاصل ہوچکا ہے اور کیا کچھ کرنا باقی ہے؟

پاک فوج کے شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب میں ایجنسی کے بیشتر حصے کو تحریک طالبان پاکستان اور دیگر دہشت گرد و عسکریت پسند گروپس سے کلئیر کردیا گیا ہے، اس کارروائی کے دوران ٹی ٹی پی مرکزی ہدف تھی جبکہ وہاں موجود دیگر گروپس القاعدہ، حقانی نیٹ ورک، ازبک اور اویغور بھی اس حملے کی زد میں آئے اور علاقہ خالی کرنے پر مجبور ہوگئے۔ وہاں موجود 'دہشت گردی کا انفراسٹرکچر' یعنی تربیتی کیمپس، اسلحے کے ٹھکانے، رابطے کی سہولیات سب کو تباہ کردیا گیا۔

ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کے چھوٹے اور بڑے شہروں میں تین ہزار سے زیادہ آپریشنز کیے گئے، جس کے دوران چار ہزار سے زائد دہشت گرد ہلاک ہوئے اور سینکڑوں کو حراست میں لیا گیا۔ اس دباؤ کے نتیجے میں طالبان کئی دھڑوں میں تقسیم ہوگئے، جبکہ کچھ نے پاکستان کے خلاف تشدد نہ کرنے کا بھی اعلان کردیا۔

ٹی ٹی پی اور اس سے منسلک گروپ 'بھاگ رہے' ہیں، جس کا ثبوت دہشت گرد حملوں کی تعداد میں نمایاں کمی ہے۔ معصوم شہریوں کو آسان ہدف جان کر واہگہ بارڈر پر حملہ ہوا جو کہ واضح طور پر مایوسی کی علامت ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستانی رائے عامہ انسدادِ دہشت گردی مہم کے پیچھے ہے، اور واہگہ پر ہونے والے قتل عام نے اس عوامی اتفاقِ رائے کو مزید مضبوط کیا ہے۔

تاہم اندرونی طور پر متعدد چیلنجز تاحال باقی ہیں۔ شمالی وزیرستان کے کچھ گھنے جنگلات والے ناقابلِ رسائی علاقوں کو وہاں چھپے ہوئے دہشت گردوں سے پاک کرنا باقی ہے۔ اس کے لیے سخت فوجی آپریشنز کی ضرورت ہوگی۔ کچھ دہشت گرد ابھی بھی شہری ٹھکانوں میں موجود ہیں، جنہیں وہاں سے نکالنا ہوگا۔ انتہاپسند گروپس جو ٹی ٹی پی کے اتحادی ہیں، کی جانب سے فرقہ وارانہ تشدد کی لہر میں کمی ضرور آئی ہے مگر اس کا خاتمہ نہیں ہوسکا ہے۔

دہشتگردی کے خلاف کامیابیاں اسی صورت میں پائیدارہوسکتی ہیں، جب ایسا سیاسی، سماجی اور اقتصادی پروگرام لایا جائے جو دہشت گردوں کی فنانسنگ روک دے، ٹی ٹی پی کے پروپگینڈے کا توڑ کرے، لوگوں کی جائز شکایات کو دور کرے، ملازمتیں پیدا کرے اور انفراسٹرکچر تشکیل دے، اور دہشت گردوں کا حصہ بننے والے افراد کی معاشرے میں واپسی کو ممکن بنائے۔ یہ پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت کی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔

لیکن پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اور اہم چیلنج کا سامنا ہے اور وہ بیرونی تناظر میں ہے۔

ٹی ٹی پی اور اس کے بیشتر کمانڈرز اور اتحادی افغانستان میں موجود 'محفوظ ٹھکانوں' کی جانب فرار ہوگئے ہیں، یہ یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ امریکی اور نیٹو افواج یا افغان نیشنل آرمی ٹی ٹی پی اور اس کے اتحادیوں کے سرحد پار پاکستان کے خلاف حملوں کو روکنے کی اہلیت اور چاہ رکھتی ہیں یا نہیں۔ اور اگر وہ ایسا نہ کریں، تو پاکستان کو افغان سرزمین میں بھی دہشتگردوں کا پیچھا کر کے ان کا خاتمہ کرنے کا اپنا حق استعمال کرنا چاہیے۔ یہ ایک ناگزیر معاملہ ہے جس پر اسلام آباد نئی افغان حکومت، امریکا، اور ان ممالک کے تعاون کی توقع کرتا ہے جو افغانستان، پاکستان اور خطے کے استحکام میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس کے بدلے میں پاکستان افغان متحدہ حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کرسکتا ہے، اور اگر اس کی خواہش ہو تو افغانستان کے اندر مصالحت کے فروغ کے لیے تعاون بھی کرسکتا ہے۔

اس تناظر میں پاکستان کو اپنے حصے کا کردار ادا کرتے ہوئے ملا عمر اور حقانی نیٹ ورک کے ٹی ٹی پی، القاعدہ اور دیگر گروپس جیسے ایسٹ ترکمانستان انڈی پینڈنس موومنٹ کے ساتھ رابطوں کو توڑنے کو ترجیح بنانا چاہیے۔

چین کے ساتھ اپنے اسٹرٹیجک تعلقات کو مدِنظر رکھتے ہوئے پاکستان کا ایسٹ ترکمانستان موومنٹ کو شکست دینے کا عزم بہت اہم ہے۔ یہ افسوسناک ہے کہ صدر اشرف غنی کے حالیہ دورہ چین کے دوران افغان ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل انٹیلی جنس، جو گزشتہ سال ٹی ٹی پی سے تعاون کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑی گئی تھی، اور جس کے ای ٹی آئی ایم سے مضبوط روابط ہیں، نے اس موومنٹ کی سرگرمیوں کے الزام کا رخ پاکستان کی جانب موڑنے کی کوشش کی۔ یہ کوشش پاکستان اور چین کے درمیان عدم اعتماد کا بیج بونے میں ناکام ہوگی، مگر افغان انٹیلی جنس کی اس طرح کی کوششیں اسلام آباد اور کابل کے درمیان موجود عدم اعتماد کی خلیج کو صرف بڑھا ہی سکتی ہیں۔

اسی طرح ہندوستان کے ساتھ انسداد دہشت گردی کی سیاست بھی کافی پیچیدہ ہے۔ یہ واضح ہے کہ پاکستان کو کشمیر کے حامی جہادیوں، جیسے کہ کالعدم لشکرِ طیبہ کے خلاف بھرپور کارروائی کرنی چاہیے تاکہ وہ مستقبل میں ہندوستان کے خلاف مزید حملے نہ کریں۔ لیکن اسی وقت پاکستان کو چاہئے کہ وہ ہندوستان کو افغان سرزمین سے ٹی ٹی پی اور بلوچستان لبریشن آرمی کی مدد سے روکے۔ پاکستان کے خلاف لشکر طیبہ کو استعمال کرنے کے بے بنیاد الزامات کو پھیلانے سے گریز کیا جائے، جیسا کہ حالیہ پینٹاگون رپورٹ میں کیا گیا۔ اس کے بجائے امریکا کو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان مصالحت کرانی چاہیے، تاکہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف دہشتگردی سے گریز کریں۔

بدقسمتی سے مودی حکومت کے مقاصد اور ہندوستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں اقدامات اس طرح کی باہمی مفاہمت تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ کشمیر میں ہندوستان کے خلاف احتجاج کی شدت میں اضافہ ہوا ہے، اور اس کی بنیادی وجوہات میں نئی دہلی کا حالیہ سیلاب میں کشمیریوں کو نظرانداز کرنا، اور معصوم کشمیریوں کا حالیہ قتل شامل ہے۔

اگر سرینگر میں ہندو وزیراعلیٰ لانے، اور خطے کو تین حصوں (لداخ، جموں اور وادی کشمیر) میں تقسیم کرنے کے بی جے پی کے پلان پر عملدرآمد ہوگیا، تو 1989 کے انتخابات کے بعد کے واقعات، یعنی بڑے پیمانے پر کشمیریوں مسلمانوں کا احتجاج، ہندوستانی کا احتجاج کو کچلنا، عسکریت پسندوں کی کارروائیاں، ہندوستان کے پاکستان ہر الزامات اور اپنے مکمل ملحقہ خطرات کے ساتھ پاک بھارت تنازع، ایک بار پھر رونما ہوسکتے ہیں۔

داخلی دہشت گردی اور دہشت گردی کی افغان اور بھارتی جہت سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو تہران کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات کو بڑھانا چاہیے۔ دیگر جگہوں پر توجہ کے ساتھ ساتھ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کو بلوچستان کا مکمل کنٹرول دوبارہ حاصل کرنا چاہیے، اور وہاں سے جنداللہ اور اس سے ملحق سنی انتہاپسند گروپس کو نکال باہر کرنا چاہیے، جو ایران کے خلاف سرگرم ہیں۔ اس بات میں شبہ نہیں کہ بی ایل اے اور ایران مخالف گروپس کو خفیہ طور پر بیرونی تعاون مل رہا ہے۔ سخت سیکیورٹی اقدامات اور جارحانہ سفارتکاری کے ذریعے پاکستان ایسی بیرونی تخریب کاری کا خاتمہ کرسکتا ہے۔

عالمی برادری واضح طور پر اب تک اس بات کا تعین نہیں کرسکی ہے کہ خطے میں دہشت گردی کی صورتحال کتنی پیچیدہ ہے۔ اہم طاقتوں یعنی امریکا، چین اور روس کو اس بات کو سمجھنا چاہیے اور اس پیچیدگی کا مناسب انداز میں سامنا کرنا چاہیے۔

اس خطے میں انسدادِ دہشت گردی کے ایجنڈا میں ٹی ٹی پی، القاعدہ اور ای ٹی آئی ایم کے حامی گروپس کو شکست دینا اور تباہ کرنا؛ ان کے افغان طالبان سے لنکس ختم کرنا؛ پاکستان، ایران اور دیگر اہم طاقتوں کے تعاون سے بات چیت کے ذریعے افغانستان میں مصالحتی عمل کو فروغ دینا؛ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان مفاہمت کو بڑھانا؛ کشمیر پر بی جے پی کی خطرناک حکمت عملی کو پلٹنا؛ اور ایران کے خلاف تخریب کاری کا خاتمہ شامل ہونا چاہیے۔

پاکستان اس خطے میں اب تک سب سے کامیاب اور سب سے بڑا انسداد دہشت گردی آپریشن کرنے والا ملک ہے۔ یہ ملک مسئلے کا حصہ نہیں، بلکہ یہ خطے اور عالمی دہشت گردی کے مسئلے کے حل کا اہم حصہ ہوسکتا ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں