تنازع سے پاک سرحد

20 نومبر 2014
چین کے ساتھ محفوظ سرحد کی بدولت ہمیں اربوں ڈالرز کی بچت ہورہی ہے۔
چین کے ساتھ محفوظ سرحد کی بدولت ہمیں اربوں ڈالرز کی بچت ہورہی ہے۔

وزیراعظم نواز شریف کا حالیہ دورہ چین کامیاب رہا جس کے دوران توانائی کے حوالے انیس بین الریاستی معاہدوں پر دستخط ہوئے اور چین نے 42 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا، دونوں ممالک کے درماین قریبی تعاون کی تاریخ دہائیوں پرانی ہے مگر متعدد افراد کو یہ معلوم نہیں 'ہر موسم کی یہ دوستی' درحقیقت مشترکہ سرحدوں کی حد بندی کا نتیجہ ہے۔

پاکستانی سرحدوں کے حوالے سے تنازعات اور تکرار اکثر شہ سرخیوں کا حصہ بنتے رہتے ہیں، حالیہ عرصے کے دوران ایل او سی اور پاک ایران سرحد پر جارحیت دیکھنے میں آئی، ڈیورنڈ لائن بھی ایک مسلمہ مسئلہ ہے جہاں سے عسکریت پسندوں کو سرحد کے دونوں جانب آنے کا موقع ملتا ہے، مگر چین کے سرحد کا کیا معاملہ ہے؟ کسی نے بھی اس کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں سنا ہوگا، جو اس کی سیکیورٹی اور تعین کا واضح ثبوت ہے۔

سال 962 تک دونوں ممالک کے درمیان تعلقات زیادہ مثالی نہیں تھے، تکرار کا ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ چینی نقشوں میں پاکستان کے زیرکنٹرول شمالی علاقوں کے حصوں کو چین کے علاقے دکھائے گئے تھے، پاکستان کی جانب سے چین کو سلامتی کونسل کی مستقل نشست کے لیے ووٹنگ نے ان متنازعات نقشوں کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور چین پاکستان کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کے لیے تیار ہوگیا، بتدریج سرحدی تناﺅ میں کمی آئی اور دونوں ممالک کے درمیان دو مارچ 1963 کو سرحدی بندی کے معاہدے پر دستخط ہوگئے۔

اس معاہدے کے بارے میں زیادہ تر افراد کو معلوم نہیں مگر یہ پاکستان کی بہت بڑی کامیابی قرار دیا جاسکتا ہے، پاکستان کمزور پوزیشن کے ساتھ مذاکرات کررہا تھا اور اس وقت حالات ایسے تھے جب اس کے اپنے دیگر پڑوسی ممالک جیسے ہندوستان، افغانستان اور سوویت یونین وغیرہ سے تعلقات زیادہ اچھے نہیں تھے۔

اس معاہدے کے تحت پاکستان اپنے زیرکنٹرول علاقوں کو اپنے پاس رکھنے کامیاب رہا جنھیں چین کے سنکیانگ خطے کا حصہ دکھایا گیا تھا، اس کے علاوہ پاکستان کو چین کے کنٹرول میں موجود 1942 اسکوائر کلومیٹر رقبہ بھی ملا۔

یہ اضاعی علاقہ شمشال کا خطہ تھا جو پاکستان اور چین کے درمیان حد بندی کرنے والا مرکزی خطہ ہے، شمالی ہنزہ میں واقع شمشال کو تاریخی طور پر حقوق حاصل رہے ہیں اور یہاں پہلے چینی اعتراضات کے بغیر بھی ایک پوسٹ قائم تھی، اس کے ساتھ ساتھ یہاں سے نکلنے والی ندیاں جو دریائے ٹریم کے ڈیلٹا اور دریائے سندھ کے طاس کے درمیان سرحد کا کردار ادا کرتی ہیں۔

اگرچہ اس معاہدے کے تحت چین نے ہنزہ پر اپنا دعویٰ ختم کردیا، مگر زمانہ قدیم میں چین گلگت اور ہنزہ پر قابض رہ چکا ہے مگر آٹھویں صدی کے اختتام تک اس کا کنٹرول خطے پر ختم ہوگیا تھا، مگر اس کے بعد بھی چین کا ہنزہ سے تعلق برقرار رہا، جس کا ثبوت یہ حقیقت ہے کہ 1911 میں ہنزہ کے حکمران نے چینی بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے چینی شہنشاہ کو سالانہ ڈیڑھ اونس سونا بطور خراج ادا کرنا شروع کردیا حالانکہ اس دور میں یہ خطہ برطانوی سامراج کے کنٹرول میں تھا۔

برطانیہ نے 1891-92 میں ہنزہ پر قبضہ کیا تھا اور پھر روس نے سنکیانگ میں اپنا اثررسوخ بڑھایا، روس سے مخالفت کے باعث برطانیہ کو تشویش ہوئی کہ چین ہنزہ پر اپنا دعویٰ کرسکتا ہے بلکہ وہ جنوب کی جانب مزید آگے بھی بڑھ سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس نے 1899 میں چین کے ساتھ سرحد کا دوبارہ تعین مرکزی واٹر شیڈ لائن میں کرنے کی کوشش کی گئی، یہی کوشش دوبارہ 1905 میں بھی کرنے کی کوشش کی گئی مگر اس بار شمشال کے خطے کے واٹرشیڈ کو بھی اس میں شامل کرلیا گیا۔

آنے والی دہائیوں میں برطانیہ نے اس بات پر زور دیا کہ شمالی سرحد اس کی 'فارورڈ پالیسی' حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کے تحت اس کے زیرتحت خطوں اور دیگر طاقتوں کے درمیان بفرزون قائم کیے گئے، تاہم 1927 میں برطانیہ نے اس جارحانہ موقف سے پیچھے ہٹتے ہوئے واٹر شیڈ کو خطے کی مرکزی سرحد کے طور پر تسلیم کرلیا۔

جب پاکستان 1947 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد قائم ہوا تو اسے ترکے میں خطے میں برطانیہ کی قائم کردہ سرحدیں ملیں، جو کہ جانشین کے عالمی قانون کا ایک اصول تھا۔

پاکستان اور چین کے درمیان سرحدی تنازع کے حل کرنے کے معاہدے نے پاکستان کے اربوں ڈالرز کے فوجی اخراجات بچائے جبکہ اپنے زیرکنٹرول خطے کو کھونے کا خطرہ بھی ختم کردیا۔

مزید یہ کہ مضبوط باہمی تعلقات بھی اسی کا نتیجہ ہیں جس کی بدولت چین پاکستان کو سفارتی، فوجی، اقتصادی اور سرمایہ کاری جیسے شعبوں میں تعاون فراہم کررہا ہے، قراقرم ہائی وے کی تعمیر سے ایک دوسرے سے جڑنے میں بہتری اور چین کے ساتھ تجارتی تعلقات بہتر ہوئے ہیں، تاہم ان تمام تر ڈویلپمنٹس کو سابقہ شمالی علاقہ جات(گلگت بلتستان) یا وہاں رہنے والی برادریوں کی ترقی کے عمل میں تبدیل نہیں کیا جاسکا۔

یہ خطہ سیاسی اور قانونی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں، یہاں کے رہائشی بنیادی سیاسی، شہری، سماجی اقتصادی یہاں تک کہ ثقافتی حقوق سے بھی محروم ہیں، جبکہ قومی سطح پر انہیں ووٹ کا حق بھی حاصل نہیں۔

اس خطے کو وفاقی پارلیمنٹ میں بھی نمائندگی حاصل نہیں،حالانکہ تقسیم کے وقت اس خطے کی آبادیوںنے پاکستانیوں کی بہت زیادہ حمایت کی تھی ان کے حقوق غضب کرنے سے ان کے اندر ناراضگی اور اشتعال میں اضافہ ہوا۔

ریاست کو چاہئے کہ وہ ان علاقوں کو مکمل طو پر پاکستان کے اندر ضم کرے، اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گلگت بلتستان صرف سیاحتی منزل نہیں۔

انگریزی میں پڑھیں۔


لکھاری وزارت خارجہ کے سابق قانونی مشیر ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں