ہر دور میں مقبول پاکستانی لیجنڈ اداکار

ہر دور میں مقبول پاکستانی لیجنڈ اداکار

سعدیہ امین اور فیصل ظفر

پاکستانی ڈراموں کا جادو ہمیشہ سے لوگوں پر چلتا رہا ہے اور جب بھی ڈراموں کی بات ہوتی ہے تو سب سے پہلے لوگوں کے ذہنوں میں کچھ چہرے ابھر کر سامنے آجاتے ہیں جو اس کے مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔

جی یہ ہیں اداکار اور اداکارائیں جن کے بغیر کسی ڈرامے کی مقبولیت کا سوچا بھی نہیں جاسکتا کیونکہ مضبوط اور اچھی کہانی کو اپنی کردار نگاری کے ذریعے پردہ اسکرین پر بہترین انداز میں پیش کرنا ہی کسی ڈرامے کی کامیابی کی بنیادی ضمانت ہوتی ہے اور پاکستان میں ٹی وی کی خوش قسمتی یہ رہی ہے کہ اسے شروع سے ہی ایسے اداکاروں کی خدمات حاصل رہی ہیں جن کے کام پر مبنی ڈراموں نے تہلکہ سا مچا کر رکھ دیا اور ہم نے ان میں سے ہی چند بہترین افراد کو منتخب کیا ہے جنھیں ٹی وی ڈراموں کا معمار بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔


معین اختر


— بشکریہ ہیرالڈ میگزین
— بشکریہ ہیرالڈ میگزین

اداکاری کی ہر صنف میں اپنے صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے معین اختر نے 1966 میں سولہ سال کی عمر میں اپنی فنکارانہ زندگی کا آغاز چھ ستمبر کو پاکستان کے پہلے یوم دفاع کی ایک تقریب سے کیا اور حاضرین کے دل جیت لئے۔

کراچی میں ٹیلی ویژن کی آمد کے ساتھ ہی معین اختر کا فن اسٹیج سے نکل کر لوگوں کے ڈرائنگ روم تک پھیل گیا اور 1970 تک معین اختر پاکستانی ناظرین کا ایک جانا پہچانا چہرہ بن گئے۔ ان کے مشہور اسٹیج، ٹی وی ڈراموں اور پروگرامز میں سے کچھ کے نام یہ ہیں: بکر ا قسطوں پر، بڈھا گھر پر ہے، روزی، ہاف پلیٹ، عید ٹرین، بندر روڈ سے کیماڑی، سچ مچ، فیملی 93، آنگن ٹیڑھا، اسٹوڈیو ڈھائی، اسٹوڈیو پونے تین، لوز ٹاک وغیرہ۔ لوز ٹاک چار سو قسطوں پر مشتمل تھا اور اس کی ہر قسط میں معین اختر نے ایک الگ بہروپ اختیار کیا تھا۔

معین اختر نے اپنی فنی زندگی کے دوران ہزاروں روپ دھارے، شاید ہی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا ہو جس پر انہوں نے اپنی اداکاری کے جوہر نہ دکھائے ہوں۔ پاکستان میں کامیڈی، سنجیدہ اداکاری، فلم، اسٹیج، ریڈیو، گلوکاری، نقالی، میزبانی، لطیفہ گوئی، ماڈلنگ، غرض فن کے ہر شعبے میں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا جبکہ انہیں اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی، سندھی، پنجابی، میمنی، پشتو، گجراتی اور بنگالی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔

معین اختر کو ان کی فنکارانہ صلاحیتوں اور خدمات کے اعتراف میں پرائیڈ آف پرفارمنس اور ستارۂ امتیاز سمیت بہت سے اعزازات سے نوازا گیا۔


فردوس جمال


— اسکرین شاٹ
— اسکرین شاٹ

وہ آیا، اس نے دیکھا اور اس نے فتح کرلیا، یہ محاورہ فردوس جمال کے حوالے سے بالکل ٹھیک لگتا ہے جو کہ پاکستانی ڈرامے کے بہترین اداکاروں میں سے ایک ہیں، درحقیقت ان کا تو اداکاری کے میدان میں آنے کا کوئی ارادہ ہی نہیں تھا بلکہ وہ گلوکاری میں نام بنانا چاہتے تھے مگر پھر وہ ریڈیو اور تھیٹر سے ہوتے ہوئے ٹی وی ڈراموں کا حصہ بن گئے۔

انہوں نے ہندکو ڈرامے سے اداکاری کا آغاز کیا اور پھر 'وارث' کے ذریعے چھوٹی اسکرین پر شہرت حاصل کی اور پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ سائبان شیشے کا، من چلے کا سودا، دلدل، محبوب، پاگل احمق بیوقوف، ساحل، دھوپ دیوار، رسوائیاں اور دیگر درجنوں سپر ہٹ ڈرامے ان کے کریڈٹ پر ہیں جو آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہیں۔

فردوس جمال کو صرف 26 سال کی عمر میں یعنی 1986 میں پرائیڈ آف پرفارمنس کا ایوارڈ دیا گیا اور وہ سب سے کم عمر فنکار ہیں جو یہ اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب رہے، انہوں نے 300 اردو، ہندکو، پشتو اور پنجابی ڈراموں، پچاس کے قریب فلموں اور ڈیڑھ سو اسٹج ڈراموں میں کام کیا ہے۔


شکیل


— بشکریہ ریڈیو پاکستان فوٹو
— بشکریہ ریڈیو پاکستان فوٹو

یوسف کمال المعروف شکیل 1938 میں بھوپال میں پیدا ہوئے اور 1966 میں ایک فلم 'ہنر' کے ذریعے اپنے کریئر کا آغاز کیا تاہم ٹی وی پر ان کی آمد 1971 میں حسینہ معین کے لکھے ہوئے ایک ڈرامے 'نیا راستہ' کے ذریعے ہوئی۔

شکیل ایک قدرتی اداکار ہیں جن کی صلاحیتوں سے انکار ممکن نہیں اسی لیے وہ جلد ہی حسینہ معین کے ایک اور ڈرامے 'شہزوری' میں مرکزی کردار کرتے ہوئے شہرت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے مگر انہیں عروج 'انکل عرفی' سے ملا جو ان کے طویل کریئر کے تین بہترین ڈراموں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔

اس کے بعد وہ شمع، ان کہی، عروسہ، آنگن ٹیڑھا سمیت متعدد یادگار کلاسیک ڈراموں کا حصہ رہے اور اب بھی سدا بہار ہیں، ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں انہیں 1992 میں پرائیڈ آف پرفارمنس کے اعزاز سے نوازا گیا۔


قوی خان


— اسکرین شاٹ
— اسکرین شاٹ

محمد قوی خان المعروف قوی خان پی ٹی وی کے آغاز سے ہی منسلک ہوئے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اس دوران انہوں نے متعدد فلموں میں بھی کام کیا جبکہ تھیٹر سے بھی ان کا تعلق برسوں پرانا ہے۔

لیجنڈ قرار دیئے جانے والے قوی ریڈیو پاکستان کا حصہ صرف پانچ سال کی عمر میں بن گئے تھے جہاں سے کامیابی کے بعد 1964 میں پی ٹی وی کا حصہ بنے اور پہلے ڈرامے 'نذرانہ' میں مرکزی کردار میں نظر آئے اور اگلے سال فلموں میں نظر آنے لگے۔

پی ٹی وی نے جب پہلی ڈرامہ سیریل 'لاکھوں میں تین' تیار کی تو قوی خان بھی اس کا حصہ تھے جس کے بعد اندھیرا اجالا، دو قدم دور تھے، من چلے اور درجنوں ہٹ ڈرامے ان کے کریڈٹ میں ہیں اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے، تاہم دو سو کے قریب فلموں میں مختلف کردار ادا کرنے کے بعد انہوں نے فلمی صنعت سے ضرور ریٹائرمنٹ لے لی ہے۔


طلعت حسین


— بشکریہ وکی پیڈیا فوٹو
— بشکریہ وکی پیڈیا فوٹو

طلعت حسین جیسے باصلاحیت اداکار پی ٹی وی کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں تھے جو 1967 میں پی ٹی وی سے جڑے اور ان کا پہلا ڈرامہ 'ارجمند' 1972 میں نشر ہوا، اس کے بعد وہ برطانیہ منتقل ہوئے اور وہاں لندن اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈرامیٹک آرٹ کے ساتھ منسلک رہے۔

اہوں نے وہاں کئی غیر ملکی فلموں اور ٹیلیویژن سیریلز و لانگ پلے وغیرہ میں کام کیا اور پھر وطن واپس آئے جہاں بندش، دیس پردیس، فنونی لطیفے، ہوائیں، ایک نئے موڑ پر، پرچھائیاں، دیس پردیس، ٹائپسٹ، انسان اور آدمی اور کشکول سمیت متعدد یادگار ڈراموں میں کام کیا۔

انہوں نے متعدد لولی وڈ فلموں میں بھی اپنی صلاحیت کے جوہر دکھائے اور 1982 میں پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ کے حقدار ٹھہرے۔


قاضی واجد


چھبیس مئی 1930 کو لاہور میں پیدا ہونے والے قاضی واجد پاکستانی شوبز سے پانچ دہائیوں سے جڑے ہوئے ہیں اور انہوں نے اپنے کریئر کا آغاز 1956 میں ریڈیو سے کیا اور پی ٹی وی کے آغاز کے ساتھ ہی اس کا حصہ بنے اور متعدد سدابہار ڈراموں کے ذریعے خود کو منوایا۔

ان کے کریڈٹ میں خدا کی بستی، حوا کی بیٹی، باادب باملاحظہ ہوشیار، دھوپ کنارے، مرزا غالب بندر روڈ پر، تنہائیاں، پل دو پل، کرن کہانی، ننگے پاﺅں، شمع، سوتیلی، کسک، ہوائیں، مہندی، شہزوری، خالہ خیرن اور دوراہا جیسے سپر ہٹ و کلاسیک ڈرامے ہیں — آن لائن فوٹو


عابد علی


— بشکریہ شوبز ڈاٹ کام
— بشکریہ شوبز ڈاٹ کام

عابد علی سترہ مارچ 1952 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے جنھوں نے اداکاری کے ساتھ ساتھ ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی اپنی صلاحیتوں کو منوایا تاہم وہ بنیادی طور پر اداکاری کے میدان کے ہی شہسوار کہلاتے ہیں۔

کوئٹہ میں کالج کی تعلیم کے دوران ہی وہ ریڈیو پاکستان کا حصہ بنے اور پھر 1973 میں لاہور منتقل ہوکر پی ٹی وی میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا اور 'جھوک سیال' کے ذریعے اس میدان میں قدم رکھا، تاہم انہیں اصل شہرت 80 - 1979 میں نشر ہونے والی سیریل 'وارث' سے ملی، جس کے بعد انہوں نے وہ عروج حاصل کیا جس کی لوگ تمنا کرتے ہیں، انہوں نے سورج کے ساتھ ساتھ، غلام گردش، مہندی، سمندر، دوسرا آسمان، دشت، ایک حقیقت سو افسانے اور دیگر سپرہٹ ڈراموں میں کام کیا۔

انہوں نے پہلی بیوی سے علیحدگی کے بعد معروف اداکار رابعہ نورین سے شادی کی جبکہ انہوں نے کئی فلموں میں بھی کام کیا۔


راحت کاظمی


— بشکریہ وکی پیڈیا فوٹو
— بشکریہ وکی پیڈیا فوٹو

راحت کاظمی معروف اداکار، اینکر، اسپیکر اور بہت کچھ ہیں جو تیس جون 1946 کو شملہ میں پیدا ہوئے، جن کی شادی معروف پروڈیوسر، ڈائریکٹر و اداکار ساحرہ کاظمی سے ہوئی۔

راحت کاظمی نے شروع میں پاکستان سول سروسز کو جوائن کیا مگر 1976 میں اداکاری کے شعبے کا رخ کیا اور بطور اینکر معیار، راحت کاظمی شو اور کامیڈی کامیڈی جیسے شوز کیے، اس کے بعد اداکاری کے شعبے میں خود کو منوایا جس میں گونگے، انار کلی، اوراق، تیسرا کنارہ (مصنف بھی خود تھے)، دھوپ کنارے، کارواں، ننگے پاﺅں، پرچھائیاں، سراب، ذکر ہے کئی سال کا جیسے سپر ہٹ سیریلز سے پی ٹی وی کو مالا مال کردیا، جبکہ پی ٹی وی کی تاریخ کے سب سے مقبول لانگ پلے 'رگوں میں اندھیرا' کا مرکزی کردار بھی انہوں نے ہی ادا کیا تھا۔

وہ کئی فلموں میں بھی نظر آئے تاہم ان میں زیادہ کامیاب نہیں ہوسکے۔


شفیع محمد شاہ


— بشکریہ فوٹو گریب
— بشکریہ فوٹو گریب

شفیع محمد شاہ کا شمار ٹیلی وژن کے ان ورسٹائل فنکاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے انداز، اپنی آواز اور اپنی اداکاری کے وہ ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں جس نے ان کو امر کر دیا۔

فنی دنیا میں آمد بحیثیت صدا کار ہوئی اور طویل عرصے تک ریڈیو پاکستان حیدر آباد سے منسلک رہے۔ انھوں نے 70 کی دہائی میں ٹیلی وژن پر 'اڑتا آسمان' نامی ڈرامے میں ایک چھوٹا کردار ادا کرکے اپنے کریئر کا آغاز کیا تاہم ہر کردار میں جان ڈال دینے کی صلاحیت نے جلد ہی اپنا لوہا منوایا اور ڈرامہ سیریل 'تیسرا کنارہ' ان کی شہرت کی وجہ بنا اور وہ پاکستان کے ہر گھر کے جانے پہچانے شخص بن گئے۔

اس کے بعد ڈرامہ سیریل 'آنچ' نے انہیں مقبولیت کے بامِ عروج پر پہنچا دیا، اس کے علاوہ چاند گرہن، دائرے، دیواریں، جنگل، بند گلاب، کالی دھوپ، ماروی، تپش اور محبت خواب کی صورت جیسے مقبول عام ڈرامے ان کی فنی شناخت تھے۔ اپنے 30 سالہ کریئر میں شفیع محمد نے 50 سے زائد ڈرامہ سیریلز میں کام کیا جبکہ 100 سے زائد ایک قسط کے اردو و سندھی ڈراموں میں بھی وہ نظر آئے۔ انھوں نے 8 فلموں میں بھی کام کیا تاہم زیادہ مقبولیت حاصل نہ کرسکے۔


خیام سرحدی


— اسکرین شاٹ
— اسکرین شاٹ

خیام سرحدی ہدایتکار ضیاء سرحدی کے بیٹے تھے اور ان کا شمار ملک کے منجھے ہوئے اداکاروں میں ہوتا تھا۔ فنی خدمات کے اعتراف میں انہیں پرائڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا۔

خیام سرحدی ممبئی میں پیدا ہوئے اور پھر اپنے گھر والوں کے ساتھ لاہور آگئے اور یہاں سے کراچی منتقل ہوگئے۔ انہوں نے بیرون ملک امریکہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ستر کے دہائی میں ڈرامہ ’ایک تھی مینا‘ سے اپنی فنی زندگی کا آغاز کیا۔ ان کے مشہور ڈراموں میں دہلیز، داستان، لازوال، من چلے کا سودا، غلام گردش اور سورج کے ساتھ ساتھ شامل ہیں۔

خیام سرحدی نے اپنی فنی زندگی میں دو فلموں ’بوبی‘ اور ’ڈاکو‘ میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے، انہوں نے قائداعظم پر بننے والی دستاویزی فلم میں سردار عبدالرب نشتر کا کردار بھی ادا کیا تھا۔


وسیم عباس


— اسکرین شاٹ
— اسکرین شاٹ

نو ستمبر 1960 کو لاہور میں پیدا ہونے والے وسیم عباس معروف اداکار و گلوکار عنایت حسین بھٹی کے بیٹے ہیں اور ٹی وی کی دنیا کا معروف نام ہیں، جنھوں نے اداکاری و ہدایتکاری میں اپنا لوہا منوایا ہے۔

انہوں نے پی ٹی وی لاہور سے اپنے کریئر کا آغاز کیا اور آشیانہ، دن، فیملی فرنٹ، فشار، لنڈا بازار، رات، سمندر، ریزہ ریزہ سمیت دیگر مقبول ڈراموں میں کام کیا اور اب بھی کافی سرگرم ہیں۔


توقیر ناصر


— آن لائن فوٹو
— آن لائن فوٹو

توقیر ناصر پی ٹی وی کے ایک اور لیجنڈ اداکار ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ یعنی ماس کمیونیکشن میں ماسٹرز کی ڈگری کے حامل ہیں، تاہم صحافت میں جانے کا کبھی نہیں سوچا بلکہ ان کے خوابوں کی تعبیر فوجی وردی زیب تن کرنا تھا مگر وہ بھی پورا نہ ہوسکا، پھر استاد بننے کے بعد ایک دن ٹی وی ڈرامے کے لیے آڈیشن دیا اور سلیکٹ ہوگئے۔

انہوں نے پناہ، ایک حقیقت سو افسانے، سمندر، دہلیز، درد اور درمان، پرواز، ریزہ ریزہ، لنڈا بازار، راہیں، کانچ کا پل، کشکول، تھکن، دھرتی اور دیگر میں لازوال اداکاری نے ان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔

انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس اور تمغۂ امتیاز جیسے اعزازات سے نوازا گیا جبکہ وہ اس وقت پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر بھی کام کر رہے ہیں۔


شبیر جان


— پبلسٹی فوٹو
— پبلسٹی فوٹو

شبیر جان پشاور میں پیدا ہوئے اور ستر کی دہائی کے آخر میں ٹی وی میں اداکاری کے کریئر کا آغاز کیا اور آج مقبول ترین اداکاروں میں سے ایک ہیں، 'باغی' اور ڈرامہ سیریل 'میری جان' نے انہیں ٹی وی اسکرینوں کا مقبول ترین اداکار بنایا۔

تاہم انہیں اصل شہرت 'جانگلوس' سے ملی اور پھر ایک کے بعد ایک ہٹ ڈرامے دیتے چلے گئے جن میں ملال، آنچل، کرب، ان داتا، غازی شہید، جب جب دل ملے، بنت آدم، رنجش ہی سہی، آندھی سمیت درجنوں سپر ہٹ ڈرامے شامل ہیں۔


نعمان اعجاز


— اسکرین شاٹ
— اسکرین شاٹ

نعمان اعجاز لگ بھگ پچیس سال سے ٹی وی اسکرین کا حصہ بنے ہوئے ہیں اور لگتا ہے کہ بڑھتی عمر بھی ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکی جب ہی وہ پہلے دن جیسے جوان ہی نظر آتے ہیں اور ان کی مقبولیت بھی روز بروز بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔

انہوں نے پی ٹی وی سے اپنے کریئر کا آغاز کیا اور شروع میں بطور ولن 'راہی' نامی ڈرامے میں نظر آئے، انہوں نے فشار، گمشدہ، امتحان، خیال، نجات، دشت، خاموشیاں، قیمت، ملنگی، سرگوشی، کمی رہ گئی اور آﺅ کہانی بنتے ہیں سمیت دیگر ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے بلکہ اب تو پی ٹی وی سمیت متعدد چینلز پر ان کے ڈرامے ہر سال ایوارڈ جیتنے میں کامیاب رہتے ہیں۔


ہمایوں سعید


— پبلسٹی فوٹو
— پبلسٹی فوٹو

اداکار ہمایوں سعید ستائیس جولائی 1971 کو کراچی میں پیدا ہوئے اور کامرس میں بی کام کرنے کے بعد کچھ عرصہ نجی ملازمت کرتے رہے اور 1995 میں وہ پہلی بار پی ٹی وی پر نظر آئے اور ان کا پہلا ڈرامہ 'یہ جہان' 1996 میں نشر ہوا، اور 'اب تم جاسکتے ہو' پر بہترین اداکار کا پی ٹی وی ایوارڈ جیتا، اسی سال انہیں ٹیلی فلم 'زہر' پر بھی بہترین اداکار کا ایوارڈ ملا، تاہم ان کی پہلی سیریل 1998 'کروڑوں کا آدمی' نشر ہوا اور پھر اپنے ڈرامے بنانا شروع کیے اور انا، ولکو، مہندی، ایک کیسل ایک امید، امید سحر، یہ جہاں، یہ زندگی، جانے انجانے اور دیگر لاتعداد بہترین سیریلز میں کام کیا۔

انہوں نے 1999 میں 'انتہا' سے فلمی کریئر بھی شروع کیا اور 'میں ہوں شاہد آفریدی' کے ساتھ اب بھی کئی جلد ریلیز ہونے والی فلموں میں نظر آنے والے ہیں۔