انصاف کے لیے ایک ٹیسٹ کیس

اپ ڈیٹ 26 نومبر 2014
گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے جنوری 2011 میں قتل کے بعد سے توہین مذہب قانون کو کالعدم کرنے کا مطالبہ بھی اپنی موت آپ مرگیا۔
گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے جنوری 2011 میں قتل کے بعد سے توہین مذہب قانون کو کالعدم کرنے کا مطالبہ بھی اپنی موت آپ مرگیا۔

ایک جوان عیسائی جوڑے شمع اور سجاد کو قصور کے ایک گاﺅں میں مشتعل ہجوم کی جانب سے جلانے اور قتل کا خوفناک واقعہ حکومت کے لیے ٹیسٹ کیس ہے کہ ایسے سانحات جن میں غیر محفوظ طبقوں پر ہونے والے حملوں کے واقعات میں قانون کی حکمرانی یقینی بنانے کے اپنے عزم کا اعادہ کرے

ملکی تاریخ میں پہلی بار ریاست اس طرح کے مقدمے میں مدعی بنی ہے اور اس نے ایک وزیر کامران مائیکل کو اس کیس کے حوالے سے اپنا فوکل پرسن مقرر کیا ہے۔

تاہم اس بات کی توقع نہیں کرسکتے کہ انصاف معجزانہ طور پر ہوتا نظر آئے گا۔ ماضی کی مثالوں پر نظر ڈالیں، تو دیکھا جاسکتا ہے کہ اقلیتی برادری کے افراد ہی نشانہ بنے، اور ان پر ہی مقدمات چلائے گئے، جبکہ حملہ آور آزاد ہوگئے۔ ناانصافی پر مبنی ان حالات کی مکمل ذمہ داری انتظامیہ اور عدلیہ پر ہے۔

دوسری جانب شمع کے خاندان نے حکومت کے مدعی بننے کو مسترد کرتے ہوئے خود مدعی بننے کا فیصلہ کیا ہے، جس سے حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار ہوتا ہے۔

موجودہ صورتحال میں سب سے بڑا چیلنج ایک تو سزا سے بریت ہے۔ توہین مذہب کے قانون پی پی سی 295 (جنہیں گستاخی کے قوانین بھی کہا جاتا ہے) میں جب 1986 میں جنرل ضیاءالحق کے دورِ حکومت میں سیکشن بی اور سی کا اضافہ کیا گیا، تب سے اب تک ساٹھ سے زائد افراد مشتعل ہجوم، اور فرد بشمول جیل کے اندر پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں قتل ہوچکے ہیں۔

اس حوالے سے پہلا مقدمہ جو عوامی توجہ کا مرکز بنا وہ 1992 میں نعمت احمر کا تھا۔ وہ فیصل آباد کے ایک 45 سالہ عیسائی اسکول استاد تھے جنہیں ایک طالبعلم نے خنجر کے وار کرکے ہلاک کردیا تھا۔ بعد میں سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق نعمت نے دوسرے علاقے میں ٹرانسفر ہونے سے انکار کردیا تھا جس پر انہیں ہدف بنایا گیا۔ سرکاری اسکول میں ان کی پوزیشن پر ایک مسلم ٹیچر قبضہ چاہتا تھا۔ اس کے بعد وال چاکنگ کرکے نعمت پر توہینِ رسالت کا الزام عائد کیا گیا جس پر ایک بیس سالہ طالبعلم فاروق نے اسے قتل کردیا۔

اس وقت سے اب تک ہلاکتوں کی تعداد بڑھی ہے۔ منظور مسیح کو بھی اسی طرح کے الزامات عائد کرکے اپریل 1994 میں لاہور کے ایک بس اسٹاپ پر قتل کیا گیا۔ فاروق نامی ایک انتہائی مذہبی شخص اور ہومیوپیتھک ڈاکٹر کو گوجرانوالہ میں 1994 میں تشدد کے بعد زندہ جلا دیا گیا۔ سموئیل مسیح کو 2003 میں اس پولیس اہلکار نے قتل کردیا جسے ہسپتال میں اس کی حفاظت کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔

اپریل 2008 میں کراچی میں ایک فیکٹری ورکر جگدیش کمار کو بھی ساتھیوں نے تشدد کا نشانہ بنایا، اور یہ فہرست کافی طویل ہے۔

چاہے ایک فرد کو نشانہ بنایا جائے یا ایک برادری کو، ذاتی دشمنی یا جائیداد ہمیشہ ہی ایک عنصر ہوتا ہے۔ 1997 میں شانتی نگر، 2009 میں گوجرہ، اور 2013 میں جوزف کالونی لاہور، فرانسس کالونی گوجرانوالہ اس کی مثالیں ہیں جہاں مشتعل ہجوم نے عیسائیوں کی پوری بستیوں پر مبینہ طور پر لینڈ مافیا کے اکسانے پر حملہ کیا۔

رواں برس جولائی میں گوجرانوالہ میں احمدی برادری کے چار افراد کو مشتعل افراد نے ان کے گھروں پر حملہ کر کے ہلاک کردیا۔ اس حملے کے لیے گھر کے ایک فرد کے مبینہ طور پر توہینِ مذہب کرنے کا جواز پیش کیا گیا۔

ان تمام کیسز میں کسی بھی ملزم کو سزا نہیں دی جا سکی۔ ہر مقدمے میں 'انصاف' کا راستہ اس تکلیف دہ حقیقت کا انکشاف کرتا ہے کہ غیرمسلم افراد انتظامی یا قانونی نظام سے کسی قسم کی توقعات وابستہ نہیں کرسکتے۔ شفافیت اس وقت مشکوک ہوجاتی ہے، جب ہم سنتے ہیں کہ ہلاکتوں اور جائیداد کے نقصان کے واقعات کے بعد عیسائی برادری نے حملہ آوروں، یعنی مسلم اکثریت سے تعلق رکھنے والے افراد کو معاف کردیا ہے۔

ایسا گوجرہ کیس میں ہوا جب سات عیسائیوں کو زندہ جلادیا گیا جبکہ چار کو فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا، اس واقعے میں متعدد گھروں کو بھی نقصان پہنچایا گیا اور یہ سب اس لیے ہوا کیونکہ ایک عیسائی شخص نے مبینہ طور پر قرآن مجید کے اوراق کی بے حرمتی کی تھی۔ پنجاب حکومت نے فخریہ انداز میں اعلان کیا کہ اس کی کوششوں سے 'مصالحت' ہوگئی ہے، اگرچہ متعدد گھر دوبارہ تعمیر ہوگئے مگر اس برادری میں تاحال پایا جانے والا ناانصافی کا شدید احساس قابلِ فہم ہے۔

جوزف کالونی کے کیس میں جن افراد کو عیسائی برادری کے 160 سے زائد گھروں کو تباہ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا انہیں فوری طور پر ضمانت پر رہا بھی کردیا گیا اور ان کے ٹرائل پر مزید پیشرفت کی رپورٹ بھی کبھی سامنے نہیں آئی۔ دوسری جانب وہ عیسائی شخص ساون مسیح جس پر توہین کا الزام تھا، جس کے بعد واقعہ پیش آیا، اسے سزائے موت سنادی گئی جو تیز رفتار انصاف کی نایاب مثال ہے۔

شانتی نگر سے گوجرہ، اور فرانسس کالونی سے جوزف کالونی تک پنجاب پولیس کے کردار پر خصوصی تفتیش کی ضرورت ہے۔

شفافیت اس وقت بھی مشکوک ہوجاتی ہے جب ہم پنجاب پولیس کو غیر مسلموں پر حملہ کرتے مشتعل ہجوم کے سامنے بے بس دیکھتے ہیں۔ جبکہ وہی اہلکار کسی احتجاجی مظاہرے کو روکنے میں ظلم کے نئے ریکارڈز قائم کردیتے ہیں، چاہے وہ ماڈل ٹاﺅن لاہور میں منہاج القرآن کے چودہ کارکنوں کی ہلاکت ہو یا اسلام آباد میں او جی ڈی سی کے غیر مسلح ورکرز پر لاٹھیوں کی بارش۔

ایسا نظر آتا ہے کہ پنجاب پولیس میں شامل عناصر انتہاپسند ہوچکے ہیں اور یہ وہ پہلو ہے جس کے بارے میں صوبائی حکومت کی جانب سے تحقیقات کی ضرورت ہے۔ احمدی برادری نے اپنے لوگوں کے خلاف تشدد پر اکسانے کے حوالے سے پنجاب پولیس کے خلاف متعدد شکایات کی ہیں۔

جنوری 2011 میں اس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے بعد سے توہینِ مذہب قانون کو کالعدم کرنے کا مطالبہ بھی اپنی موت آپ مرگیا ہے۔

اس معاملے پر بحث بھی پیچیدہ ہوگئی ہے۔ اس قانون کا دفاع کرنے والے دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ لوگوں کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے سے روکتا ہے۔ لیکن اضافی شقوں سے اس چیز کو بڑھاوا ہی ملا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جب اس طرح کے مقدمات میں سزا نرم تھی، (زیادہ سے زیادہ دس سال قید) اور اس کا اطلاق خصوصاً اسلام کے بجائے تمام مذاہب پر ہوتا تھا، تو شاید ہی کبھی توہینِ مذہب کا کوئی کیس سامنے آتا تھا۔ کیا ان شقوں کو متعارف کرانے کے بعد لوگ اچانک ہی اتنے بے عقل ہوگئے ہیں کہ دانستہ طور پر توہین مذہب کرنے لگیں؟

سلمان تاثیر کے قتل کے بعد وزیر اقلیتی امور شہباز بھٹی کا قتل اس بات کا مظہر ہے کہ توہین مذہب قانون پر تنقید بھی توہینِ مذہب تصور کی جاتی ہے۔ حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والی ان دو ہائی پروفائل شخصیات کے قتل پر حکومت کی جانب سے کمزور ردِ عمل نے معتصب افراد کا حوصلہ بڑھایا، اور ان دونوں اموات کے بعد اس قانون کے خلاف اٹھنے والی چند آوازیں بھی مرگئیں۔

پیپلز پارٹی کی اس وقت کی رکن قومی اسمبلی شیری رحمان کی جانب سے اصلاحات متعارف کرانے کی ایک کوشش کو ان کی اپنی جماعت نے ہی تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔

تنقید کا گلا گھونٹنے سے یہ بات یقینی ہوگئی کہ ظلم کا یہ سلسلہ بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہے گا۔ کوئی بھی شخص جس کے خلاف آپ کینہ یا حسد رکھتے ہیں، (ترجیحاً ایک غیرمسلم) اس پر الزام عائد کریں، اس کے خلاف مساجد سے اعلانات کرائیں، ہجوم جمع کریں اور اس شخص یا برادری کو گھیر لیں۔

لیجیے مشن بھی پورا ہوگیا، اور کچھ ہی سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ یہ موقع ہے کہ شمع شہزاد کیس کے ذریعے انصاف کی اصل شکل کو بحال کیا جائے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئرپرسن ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 17 نومبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں