حکومت پی ٹی آئی کے 30 نومبر جلسے سے پریشان

19 نومبر 2014
دونوں اطراف کی جماعتوں کے رہنماﺅں نے واضح طور پر کہا کہ دونوں پارٹیاں تصادم کی راہ پر گامزن ہے— اے ایف پی فائل فوٹو
دونوں اطراف کی جماعتوں کے رہنماﺅں نے واضح طور پر کہا کہ دونوں پارٹیاں تصادم کی راہ پر گامزن ہے— اے ایف پی فائل فوٹو

اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے تیس نومبر کو اسلام آباد میں تاریخ ساز جلسے کے وعدے نے حکومت کو احتجاجی جماعت کے منصوبے نے مزید پریشان کردیا ہے۔

منگل کو اپنے سنیئر مشیروں سے کئی ملاقاتوں اور مشاورت کے دوران وزیراعظم نواز شریف اور ان کی کابینہ نے احتجاجی جماعتوں کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے کئی طریقوں پر غور کیا۔

یہ خدشات پی ٹی آئی کور کمیٹی کے پیر کو ہونے والے اجلاس کا بھی مرکزی ایجنڈہ تھے، اگست کے آزادی مارچ کے برعکس پارٹی کے متعدد رہنماﺅں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اس بار حکومت پارٹی کارکنوں کو بلامزاحمت آنے کی اجازت نہیں دے گی۔

دونوں اطراف کی جماعتوں کے رہنماﺅں نے واضح طور پر کہا کہ دونوں پارٹیاں تصادم کی راہ پر گامزن ہے، جب تک وہ میز پر آکر بات چیت کو دوبارہ شروع نہیں کرتی موجودہ بحران کا خاتمہ ممکن نہیں۔

عمران خان کی جانب سے وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے کو واپس لیے جانے کے بعد حکمران جماعت کے ایک چھوٹے حصے نے کہنا شروع کردیا ہے کہ حکومت مذاکرات کی میز پر واپس آئے، تاہم اس سے ایسا نظر آتا ہے کہ حکومت کا پی ٹی آئی سے بات چیت کا کوئی ارادہ نہیں۔

مسلم لیگ ن کے ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ وزیراعظم نے اب دیگر جماعتوں کے رہنماﺅں سے ملاقاتیں کرکے پی ٹی آئی کے تیس نومبر کے ایونٹ سے نمٹنے کی حکمت عملی کو حتمی شکل دیں گے" پارلیمنٹ کے اندر موجود سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہونے اور سول فوجی تعلقات معمول پر ہونے کے باعث وزیراعظم کافی خوشگوار موڈ میں ہیں اور وہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے یا اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں ملتوی کرنا نہیں چاہتے"۔

عہدیدار نے بتایا کہ حکومتی حلقوں میں اعتماد بڑھ گیا ہے اور اب وہ اگست و ستمبر کی مشکل صورتحال سے نکل گئی ہے جو پارلیمنٹ ہاﺅس کے باہر پی اے ٹی اور پی ٹی آئی کے دھرنے سے پیدا ہوئی تھی۔

اس کا کہنا تھا کہ حکومت کے لیے اس وقت واحد فکرپی ٹی آئی کی جانب سے خیبرپختونخوا حکومت کو تحلیل کرنے یا صوبائی اسمبلی سے مستعفی ہونا ہے۔

وزیراعظم نے منگل کو جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کرکے اس معاملے پر بات کی اور عہدیدار کے مطابق مولانا کی جماعت نے کے پی وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تھی"ہوسکتا ہے کہ یہی اقدام دوبارہ کرکے کے پی کے وزیراعلیٰ کو صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے سے روکنے کے لیے اختیار کیا جائے"۔

اسی طرح حکومت ہائی سکیورٹی زون کے اندر ایک صدارتی آرڈنینس کے ذریعے احتجاج کو غیرقانونی قرار دینے پر بھی غور کررہی ہے، جبکہ ذرائع نے عندیہ دیا ہے کہ یہ تجویز بھی زیرغور حکمت عملیوں میں سے ایک ہے تاہم ابھی اس کو حتمی شکل نہیں دی گئی۔

پی ٹی آئی کے رہنما اور کورکمیٹی کے رکن ڈاکٹر عارف علوی نے ڈان کو بتایا کہ حکومت پہلے ہی تحریک انصاف سے مضبوط ہاتھوں سے نمٹنے کی کوشش کررہی ہے اور اس کی مثال ہمارے رہنماﺅں کے خلاف ضلعی اور تحصیل کی سطح پر مقدمات درج کرنا ہے، جبکہ اعلیٰ قیادت کی گرفتاری کے وارنٹس جاری ہوچکے ہیں جس سے واضح عندیہ ملتاہے کہ حکومت تیس نومبر کے جلسے کو کس طرح روکنا چاہتی ہے۔

پی ٹی آئی کے ایک اور رہنماءنے بتایا کہ پارٹی کو یہ اطلاعات بھی حکومتی ذرائع سے ملی ہیں کہ ورکرز کو تیس نومبر کو اسلام آباد خاص طور پر ڈی چوک پہنچنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اس رہنماءنے کہا کہ پی ٹی آئی کی صفوں میں خوف پایا جاتا ہے کیونکہ ان کے مطالبات کے جواب میں حکومت کے ہٹ دھرم رویے میں اضافہ ہورہا ہے"ہم پر بہت زیادہ دباﺅ ہے کہ تیس نومبر کے جلسے کو کامیاب شو بنائیں، اس بار یہ صرف پی ٹی آئی کا ایونٹ ہوگا اور ہمیں اپنے ناقدین پر ثابت کرنا ہوگا کہ جو کہتے ہیں کہ آخری بار ہمیں کامیابی پاکستانی عوامی تحریک اور اس کے کارکنوں کی موجودگی کے باعث ملی تھی"۔

دوسری جانب وزیراعظم کے ایک قریبی مشیر کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ماضی کے تجربے سے سبق سیکھتے ہوئے اس بار زیادہ بہتر طریقے سے ہجوم کنٹرول کرسکیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اہم عمارات کی سیکیورٹی کی سیکیورٹی فوج کے سپرد رہے گی جبکہ پی ٹی آئی کے جلسے کو ایک خاص علاقے تک محدود رکھا جائے گا جس کے لیے دیگر صوبوں سے پولیس اور ایف سی کے دستے طلب کیے جاسکتے ہیں۔

مشیر نے بتایا"یقیناً اس بار حکومت مظاہرین کو شارع دستور پر اس طرح اازادی سے گھومنے کا موقع نہیں دے گی جیسا اگست میں پی اے ٹی اور پی ٹی آئی کے ورکرز کو دیا گیا تھا"۔

ایک اور عہدیدار کے مطابق حکومت کا ماننا ہے کہ پی اے ٹی کے ورکرز اب جاچکے ہیں، جبکہ پی ٹی آئی کے ورکرز پرامن ہیں تاہم اس بار کسی کو بھی طے کردہ حدود عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

پی ٹی آئی ورکرز اور سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان ممکنہ تصادم کے سوال پر ڈاکٹر عارف علوی نے وضاحت کی کہ ان کی جماعت پرامن جلسوں کے حوالے سے جانی جاتی ہے مگر پولیس نے طاقت کا استعمال کیا تو پارٹی رہنماﺅں کے لیے اتنے بڑے ہجوم کو کنٹرول میں رکھنا مشکل ہوجائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں