چیف الیکشن کمشنر: انتخاب کیلئے فون پر مشاورت کا امکان

20 نومبر 2014
وزیراعظم نواز شریف اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ— ایجنسیز فائل فوٹو
وزیراعظم نواز شریف اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ— ایجنسیز فائل فوٹو

اسلام آباد : دیگر مصروفیات کی بناء پر وزیراعظم نواز شریف اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کے درمیان چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کو حتمی شکل دینے کے لیے ملاقات مشکل ہے اور ان کے درمیان اس حوالے سے ٹیلیفون پر مشاورت کیے جانے کا امکان ہے۔

حکومتی و اپوزیشن ذرائع کے مطابق وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لیے چوبیس نومبر یعنی سپریم کورٹ کی طے کردہ تیسری ڈیڈلائن تک ملاقات ممکن نہیں، کیونکہ خورشید شاہ 26 نومبر کو بیرون ملک سے وطن واپس پہنچیں گے جبکہ وزیراعظم شارک کانفرنس میں شرکت کے لیے 25 نومبر کو نیپالی دارالحکومت کھٹمنڈو کے لیے روانہ ہوجائیں گے۔

اس سے پہلے سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لیے اٹھائیس اکتوبر اور تیرہ نومبر کی ڈیڈ لائنز مقرر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا نہ ہونے کی صورت میں قائم مقام سی ای سی جسٹس ظہیر انور جمالی کی خدمات واپس لے لی جائیں گی۔

ڈان کے رابطہ کرنے پر خورشید شاہ کے ترجمان نے بتایا کہ اپوزیشن لیڈر برطانیہ سے سپریم کورٹ کی دی گئی ڈیڈلائن ختم ہونے کے دو روز بعد برطانیہ سے وطن واپس پہنچیں گے۔

تاہم اس کا کہنا تھا کہ خورشید شاہ نے ٹیلیفون پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے رابطہ کرکے اس معاملے پر بات چیت کی ہے۔

اسحاق ڈار نے اس حوالے سے ڈان کو بس یہ بتایا کہ یہ معاملہ اب وزیراعظم کا دفتر دیکھ رہا ہے اور یہ عندیہ دیا کہ تعیناتی کے عمل پر مشاورت اور حتمی اعلان کے لیے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان ایک یا دو روز میں ٹیلیفونک رابطہ ہوگا۔

ذرائع نے بتایا کہ اس معاملے پر وزیراعظم کی زیرصدارت ایک اجلاس میں تبادلہ خیال بھی کیا گیا جس میں وفاقی کابینہ کے سینئر اراکین شریک تھے، شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ حکومت چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لیے سپریم کورٹ سے مزید کی استدعا نہ کرے۔

اگر کسی کی جانب سے کوئی نیا نام تجویز نہ کیا گیا تو سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ طارق پرویز خان ہی اس عہدے کے لیے واحد امیدوار کے طور پر موجود ہیں کیونکہ دیگر پانچ ناموں کو مختلف وجوہات کی بناء پر فہرست سے نکال دیا گیا تھا۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ حکومتی و اپوزیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ آئین وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کو چھ ناموں کی فہرست پارلیمانی کمیٹی کے پاس ارسال کرنے کی اجازت دیتا ہے، تاہم وقت کی کمی کے باعث دونوں رہنماء ایک نام پر اتفاق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی اور جسٹس ریٹائرڈ رانا بھگوان داس کی جانب سے سی ای سی بننے سے معذرت سے مشاورت کے عمل کو دھچکا پہنچا کیونکہ ان دونوں کے ناموں پر لگ بھگ اتفاق ہوچکا تھا۔

اس سے پہلے اپوزیشن لیڈر نے حکومت کی جانب سے نامزد جسٹس ریٹائرڈ سعید الزماں صدیقی جبکہ وزیراعظم نے اپوزیشن کی جانب سے نامزد جسٹس ریٹائرڈ میاں اجمل کا نام مسترد کردیا تھا۔

وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے تجویز کردہ تمام ناموں کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف نے جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد کا نام تجویز کیا تھا مگر پی پی پی نے اس کی مخالفت کی۔

چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ جسٹس ریٹائرڈ فخرالدین جی ابراہیم کے گزشتہ سال جولائی میں استعفے کے بعد سے خالی ہے۔

فخرالدین جی ابراہیم پہلے سی ای سی تھے جنھیں اٹھارویں آئینی ترمیم میں دیئے گئے طریقۂ کار کے تحت اس عہدے کے لیے منتخب کیا گیا تھا، اس سے پہلے چیف الیکشن کمشنر کا انتخاب صدر کی جانب سے ہوتا تھا مگر اب وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے تین نام پارلیمانی کمیٹی کو ارسال کیے جاتے ہیں، جو ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں