ملازمت پیشہ خواتین

24 نومبر 2014
مردوں کو یاد دلایا جائے کہ بطور مسلم ان کا کام خواتین کو خود کو ڈھانپنا کہنا ہی نہیں بلکہ اپنی نظریں نیچی کرنا بھی ہیں۔
مردوں کو یاد دلایا جائے کہ بطور مسلم ان کا کام خواتین کو خود کو ڈھانپنا کہنا ہی نہیں بلکہ اپنی نظریں نیچی کرنا بھی ہیں۔

یہ ستمبر 1997 کی بات ہے، اس وقت میں برطانیہ سے قانون کی ڈگری مکمل کرکے واپس آئی تھی اور اسی وقت کراچی کی ایک معتبر قانونی فرم میں کام شروع کیا تھا، ہمارے دفاتر ایک بڑے ہال میں تھے جس میں ریسیپشن، انٹرنس اور انتظارگاہ وغیرہ بھی شامل تھے، ہال میں ہر ایک کے الگ کمرے تھے، مجھ جیسے جونئیر وکیل اور کلرکس ہال میں بیٹھتے تھے، جبکہ سنیئر وکلاءکے لیے کمرے مختص تھے، میری ڈیسک انٹرنس کے بالکل سامنے تھی جس کے بعد آگے دیگر وکلاءبیٹھتے تھے۔

کچھ ہفتوں کے دوران میں نے نوٹس کیا کہ موکل کمرے کی تمام دیگر کرسیوں کو نظرانداز کرکے میرے ڈیسک کا رخ کرتے ہیں، ایک سہ پہر ایک موکل میرے سامنے لگ بھگ آدھے گھنٹے اس وقت تک بیٹھا رہا جب میرے سنیئر نے اسے دیکھ نہیں لیا، میں اس وقت بہت زیادہ اپ سیٹ تھی اور جب وہ چلا گیا تو میں نے ہیڈکلرک سے پوچھا کہ آخر اس شخص کو جانے کے لیے کیوں نہیں کہا گیا، اس کا سادہ جواب تھا"اگر تم کام کے لیے باہر نکلی ہو تو تمہیں ان سب کے لیے تیار ہونا پڑے گا"، حیرت زدہ ہوجانے کے باوجود میں نے کچھ دیر بعد کہا" میں یہاں کام کرنے آئی ہوں اپنی ذات کی نمائش کرنے کے لیے نہیں"۔

یہ واقعہ کافی چھوٹا تھا مگر پھر بھی یہ میرے ذہن میں ایک یاددہانی کے طور پر محفوظ ہوگیا جس سے اظہار ہوتا تھا کہ دفاتر میں قدم رکھنے والی کسی بھی خاتون کو کس طرح کے رویے کا سامنا ہوتا ہے۔

گزرے برسوں کے دوران میں نے اس حوالے سے متعدد ملازمت پیشہ خواتین سے بات کی ہے جس سے مجھے احساس ہوا ہے کہ وہ اس حقیقت کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتی، متعدد خواتین کو اس سے بھی زیادہ مشکل صورتحال کا سامنا ہوتا ہے اور وہ یا تو مفاہمت کرتے ہوئے اپنی ملازمتیں جاری رکھتی ہیں اور ماتحت پوزیشنز پر خود کو ضائع کردیتی ہیں یا پریشان و چپ چاپ ہوجاتی ہیں۔

سال 2010 میں دفاتر میں خواتین کو ہراساں کیے جانے کے خلاف قانون کا اطلاق ہوا، جس سے میرے اندر یہ تجسس پیدا ہوا کہ خواتین کو درپیش صورتحال میں کیا تبدیلی آتی ہے، یقیناً اس قانون میں متعدد اچھی چیزیں ہیں، جس میں ہراساں کیے جانے کی وسیع وضاحت کی گئی ہے، جس میں ناپسندیدہ جنسی پیشرفت سے لے کر سادہ گھیٹا جنسی رویہ وغیرہ بھی شامل تھے، جس سے خواتین کے کام میں مداخلت یا ان کے لیے ماحول خراب کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ قانون میں مالکان پر ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ اس کا مناسب طریقے سے اطلاق کریں۔

تاہم اس قانون کو چار سال گزر جانے کے باوجود "ہراساں" کیا جانے کا مسئلہ تاحال پوری طرح موجود ہے، اب تک صرف دو فیصلے ہی سامنے آچکے ہیں، جو محتسب مسرت ہلالی نے تحریر کیے، جن میں کہا گیا ہے کہ درخواستوں کی سماعت سے لے کر تحقیقاتی کمیٹیوں کے فیصلے تک، جس میں عوام کو شامل نہیں کیا جاتا، انہوں نے یہ جانا کہ جب کوئی کسی کو 'جاہل اور غیرمہذب عورت' کہتا ہے وہ جنسی ہراساں کرنے کی تعریف پر پورا نہیں اترتا ، جبکہ کچھ معاملات میں مسرت کو پتا چلا کہ جنسی فیور بھی ہراساں کرنے کی اصطلاح کا حصہ نہیں۔

مسرت ہلالی نے 'جنسی' کی سیاہ و سفید وضاحت کی ہے جو کہ کسی قانون کی نہیں بلکہ ان کے ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر ہے۔

اس اصطلاح کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ جانچا جائے کہ دیگر ممالک میں اس کی وضاحت کیسے کی جاتی ہے۔

مثال کے طور پر برطانیہ میں جہاں جنسی رسوم و رواج کافی چھوٹ دینے والے ہیں، وہاں کسی خاتون کے لباس اور شخصیت پر جملہ کسنا جنسی مذاق میں سمجھا جاتا ہے یہاں تک کے گھورنا بھی جنسی ہراساں کرنے کے زمرے میں آتا ہے، جس سے اس طرح کے جملے کسنے یا حرکتیں کرنے والوں کے لیے زندگی آسان نہٰں ہوتی۔

یہ سمجھنا مزید اہمیت رکھتا ہے کہ جنسی ہراساں کرنے کے مسئلے کا مرکز اخلاقیات نہیں بلکہ طاقت کا حد سے زیادہ استعمال ہے، دو بالغ افراد کے درمیان جملوں کا کوئی تبادلہ جو دیکھنے میں بے ضرر لگے اس وقت سرگوشیوں کی شکل اختیار کرجاتا ہے جب دفتر کے کسی اعلیٰ عہدیدار پر بات ہورہی ہے، یقیناً ایک قدامت پسند معاشرے جیسے پاکستان ، جہاں مردوخواتین کے درمیان فاصلے کے اصول کافی سخت ہیں، وہاں بھی ہراساں کیے جانے کے واقعات کی شرح مغرب کے مقابلے میں زیادہ بلند نہیں۔

پارلیمنٹ نے جنسی ہراسگی پر بل منظور کرکے اپنا فرض پورا کردیا مگر یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا بامعنی انداز میں اطلاق کرے، خصوصاً اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ کسی خاتون کو محتسب کا بنادینا اس کا حل نہیں، دفتری خواتین اس وقت تک مردانہ تعصب پر مبنی خیالات کو اس وقت تک نہیں روک سکتی جب تک اسے باضابطہ طور پر جنسی حساسیت کی تربیت فراہم نہ کردی جائے، اسی طرح دفاتر میں اس قانون کا اطلاق زیدہ موثر طریقے سے بنایا جائے اور جنسی ضابطہ اخلاق بھی اس کے لیے ضروری ہے۔

زیادہ اہم بات یہ ہے کہ میڈیا کو استعمال کرکے اس حوالے سے شعور اجاگر کیا جائے، مردوں کو یاد دلایا جائے کہ بطور مسلم ان کا کام خواتین کو خود کو ڈھانپنا کہنا ہی فرض نہیں بلکہ انہیں بھی اپنی نظریں نیچی کرنا ہوتی ہیں، اور دفتری خواتین بھی ان کی رشتے دار خواتین جیسی ہی قابل احترام ہوتی ہیں جن کے احترام کی حفاظت کے لیے وہ سب کچھ کرگزرتے ہیں۔

میری کہانی کا مثبت اختتام ہوا جس کی وجہ یہ تھی کہ میں تعلیم یافتہ اور اتنی پراعتماد تھی کہ اپنے لیے کھڑی ہوسکتی تھی، زیادہ اہم امر یہ ہے کہ میرے سنیئر بھی تعاون کرنے والے اور روشن خیال تھے جنھوں نے یقین دلایا کہ اس طرح کے واقعات دوبارہ کبھی نہٰں ہوں گے، تاہم ہر ایک اتنا خوش قسمت نہیں ہوتا۔

انگریزی میں پڑھیں۔


لکھاری بیرسٹر اور اخبارات میں کالم لکھتی ہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

shahbaz naeem Nov 24, 2014 10:34pm
ویسے میں امبر ڈار صاحبہ کی تحریر سے کافی متاثر ہوا ہوں اور آپ کی بات سے کافی حد تک اتفاق بھی کرتا ہوں ۔ واقعی میں نے اندازہ لگایا ہےکہ پاکستان میں ہم صرف اپنی ماوں بہنوں بیٹیوں ہی کو نصیحیتیں کرتے پھرتے ہیں کہ وہ ہی شرم پردئے کا انتظام کرئیں جبکہ ہماری مائیں اس حوالئے سے بیٹوں خواتین کے احترام کے حوالئے سے کچھ خاص تربیت نہیں دیتیں ۔
راضیہ سید Nov 25, 2014 02:07pm
یہ بات بالکل درست ہے کہ جن مرد حضرات یا لڑکوں کی تربیت خاندان میں درست انداز سے نہیں ہوتی وہ پیشہ وارانہ امور میں بھی خواتین کا جینا محال کر دیتے ہیں ، کئی اتنے ڈھیٹ مرد بھی میں نے اپنے آٹھ سالہ میڈیا کے کرئیر میں دیکھے ہیں جو نہ تو اپنی عمر کا لحاظ رکھتے ہیں نہ انھیں اپنے رتبے اور عہدے کے ساتھ دوسروں کی عزت کا خیال ہوتا ہے بلکہ ان کے نزدیک صرف ان کی بیویاں یا بیٹیاں ہی قابل اھترام ہیں جو بقول ان کے بہت سیدھی اور معصوم ہوتی ہیں ، ملازمت پیشہ خواتین کو وہ ایک آسان ٹارگٹ اور غلط عورت سمجھتے ہیں میں سب مردوں کی بات نہیں کر رہی ، میرے اپنے کرئیر میں مجھے یہ کہہ کر لیٹ ڈائون کرنے کی کوشش کی گئی کہ نہیں جناب یہ کورٹ کچہری ، سپریم کورٹ ، پارلیمانی رپورٹنگ آپکے بس کی بات نہیں ، آپ گھریلو ذمہ داریاں سنبھالیں ، لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جو لوگ یہ کہتے رہے وہی مجھ سے خبروں کی تصدیق کرتے اور خبر لیتے ہوئے دکھائی دیئے ، مجھے تو اپنے شعبے میں کافی اچھے اساتذہ یا لوگ ملے جو کہ لڑکا اور لڑکی کی تخصیص کے بغیر میری راہنمائی کرتے رہے ، تاہم میں پھر بھی یہ ضرور کہوں گی کہ ایسے اچھے مردوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ، زیادہ لوگ وہی ہیں جو موبائل پر گھٹیا پیغامات ، غلط ای میلز ، سوشل میڈیا پر گھٹیا پوسٹس ، جملے بازی اور غلط ھرکات کرتے ہیں اور یہ جانتے بھی نہیں کہ اس سے وہ اپنی والدہ محترمہ کئ دی ہوئی تربیت ہی شو کر رہے ہیں ۔۔۔