بولی وڈ ہمارے بل بورڈز پر، کیوں اور کیوں نہیں

24 نومبر 2014
آخر کیوں ہم سینما میں ان کی فلمیں دیکھنے کے لیے قطاریں لگاتے ہیں مگر پراڈکٹ کا چہرہ بننے پر ان سے نفرت کرنے لگتے ہیں؟
آخر کیوں ہم سینما میں ان کی فلمیں دیکھنے کے لیے قطاریں لگاتے ہیں مگر پراڈکٹ کا چہرہ بننے پر ان سے نفرت کرنے لگتے ہیں؟

اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ بطور ایک قوم ہم پر ہندوستان ایک آسیب کی طرح سوار ہے، ہم بولی وڈ کی فلمیں سینماﺅں میں دیکھنے کے لیے قطاروں میں لگتے ہیں، ٹی وی ناظرین کی اچھی خاصی تعداد ان کے دکھی ساس بہو ڈراموں کی لت میں مبتلا ہے اور ہم شادیوں پر ان کے گیتوں پر ناچتے ہیں، یعنی ایک 'شیلا' یا ایک 'فیوی کول'؟ ہمیں ناچنے پر اکسا دیتا ہے۔

مگر جب انڈین فنکار ہمارے بل بورڈز پر نظر آتے ہیں تو یہ فوری طور پر تنازع کا سبب بن جاتا ہے، ناقدین شکایت کرنے لگتے ہیں کہ آخر ایک ہندوستانی چہرہ پاکستانی مارکیٹ میں کوئی شے کیوں فروخت کررہا ہے۔

خیر ایسا کیوں نہ ہو؟ ہمارے کرکٹ ہیروز کے بعد ہندوستانی فنکار بہت زیادہ جانے جاتے ہیں اور پاکستان میں سب سے زیادہ پسند کیے جانے والے چہرے ہیں۔ کوئی بھی شخص جو شاہ رخ خان کی کسی نئی 'ہاﺅس فل' فلم کا ایک سینما ٹکٹ حاصل نہیں کرپاتا باآسانی اس بات کی تصدیق کرسکتا ہے۔ درحقیقت بولی وڈ فلموں کی طاقت ہی کے نتیجے میں ہمارے سینماﺅں کو نئی زندگی ملی ہے اور پاکستانی فلموں کی دوبارہ بحالی کا عمل شروع ہوا ہے۔

حقیقت میں بولی وڈ کی اسٹار پاور اور گلیمر ہمارے مقامی آئیکونز کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال موبائل فون برانڈ کیو موبائل کی اشتہاری مہم ہے جس میں مقامی اسٹار کی بٹالین جیسے عاطف اسلم، ہمایوں سعید، عائشہ خان، علی ظفر، دانش تیمور اور فواد خان وغیرہ شامل ہیں۔ مگر ہم سب 'نوئر' سے صحیح طریقے سے متعارف تب ہوئے، جب بولی وڈ اسٹار کرینہ کپور ایک ٹی وی اشتہار میں اپنے ہاتھ میں موبائل فون تھامے نظر آئیں، اس کے بعد بولی وڈ ہیرو ارجن کپور بھی جلد 'نوئر' کی ایک اور اشتہاری مہم میں نظر آئے اور اور اس کے فوری بعد اس نوآموز برانڈ کی مقبولیت میں کئی گنا اضافہ ہوا۔

 ارجن کپور، کرینہ کپور، اور سونم کپور کیو موبائل اشتہارات میں— فوٹو بشکریہ کیو موبائل آفیشل فیس بک پیج
ارجن کپور، کرینہ کپور، اور سونم کپور کیو موبائل اشتہارات میں— فوٹو بشکریہ کیو موبائل آفیشل فیس بک پیج

مارکیٹنگ کے ایک ماہر نے گمنامی کی شرط پر اس کی وضاحت یوں کی "اب کیو موبائل کافی اچھا لگ رہا ہے۔ دو سال پہلے آپ کسی صورت اسے استعمال کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، تاہم برانڈ کی انتظامیہ نے کافی چیزوں کو تبدیل کردیا ہے۔ بیشتر موبائل سیٹس فیچر کے لحاظ سے دیگر کمپنیوں جیسے ہی ہیں، تاہم اس برانڈ کی نمائندگی کرنے والے چہرے فروخت کو بڑھانے کا سبب بنے"۔

انہوں نے مزید کہا "ہوسکتا ہے کہ ایک انڈین اداکار کو ایک اشتہار میں لینا کروڑوں میں پڑے اور پاکستانی شخصیات کا معاوضہ لاکھوں تک ہی محدود ہے، مگر موبائل کمپنیوں کے پاس ٹی وی اشتہارات کے لیے بڑا بجٹ ہوتا ہے، ان کے لیے چند کروڑ کیا حیثیت رکھتے ہیں؟ یہ کاروباری نقطہ نظر سے بالکل قابلِ فہم ہے"۔

اور یہی وجہ ہے کہ لان سے لے کر موبائل تک، صابنوں سے شیمپوز اور ہیئر ریمول کریموں تک، ہندوستان کی جگمگاتی شخصیات ہمارے بل بورڈز اور ٹیلیویژن اشتہارات پر لوگوں کو ترغیب دینے کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور ہمارے اندر اشیاء کی خریداری کی من موجی لہر کو بڑھا رہے ہیں۔

کسی بھی نئے برانڈ کے لیے ایک انڈین چہرہ صارفین کی دلچسپی بڑھانے کا کام کرتا ہے۔ کوئی بھی فردوس لان کو یاد کرسکتا ہے جس نے چار سال قبل اس وقت مارکیٹ میں دھماکہ خیز انٹری دی تھی جب اس کے بل بورڈز پر کرینہ کپور نظر آئی تھیں۔ درحقیقت اس وقت کی یہ گمنام لان ایک کامیاب اداکارہ کی بدولت ساکھ پانے میں کامیاب ہوگئی اور لان کی خریداری کرنے والے فردوس کو نظرانداز نہیں کرپائے۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں اگلے سال اس برانڈ نے ایک اور بولی وڈ حسینہ دپیکا پڈوکون کو اپنی اشتہاری مہم کے لیے منتخب کیا۔

دپیکا پڈوکون فردوس لان 2011 کلیکشن کے اشتہار میں— فوٹو بشکریہ پاکستانی فیشن ٹرینڈز
دپیکا پڈوکون فردوس لان 2011 کلیکشن کے اشتہار میں— فوٹو بشکریہ پاکستانی فیشن ٹرینڈز

فردوس اس سے پہلے مقامی ماڈلز پر توجہ دے رہی تھی مگر اس کے ڈائریکٹر عمر سلیم وہ وقت یاد کررہے ہیں جب انہوں نے بولی وڈ چہروں کو اپنے برانڈ کے لیے استعمال کرنا شروع کیا اور بین الاقوامی سطح تک خود کو منوا لیا۔ "بولی وڈ اداکارائیں صرف پاکستان نہیں بلکہ ہمارے ملبوسات کی برآمدی مارکیٹ جیسے متحدہ عرب امارات، بنگلہ دیش اور ہندوستان وغیرہ میں بھی بہت مقبول ہیں، انہیں ابتدائی برسوں میں اپنی لان کے لیے ماڈل بنانے نے یقیناً ہمیں مارکیٹ میں مضبوط مقام دلانے میں مدد دی"۔

اس کے بعد متعدد لان برانڈز فردوس کے نقش قدم پر چلے۔ کنٹونمنٹ علاقوں کے سخت قوانین کے باعث بل بورڈز پر انڈین اسٹارز کے نظر نہ آنے کی پابندی کچھ کو تو روک سکی مگر زیادہ تر نے آگے بڑھنے کا راستہ ڈھونڈ لیا، جیسے خدیجہ شاہ کی اعلان میں نرگس فخری کو پیش کیا گیا جبکہ کریسینٹ لان طویل عرصے سے کرینہ اور کرشمہ کپور کے ساتھ کام کررہی ہے۔ جب کوئی برانڈ ناصرف پاکستان بلکہ دیگر ممالک تک یہ کام کررہا ہو تو اسے کنٹونمنٹ علاقوں کے قوانین کے ذریعے محدود نہیں کیا جاسکتا۔ درحقیقت انڈین چہروں کو اشتہارات میں لینا بجٹ کے حوالے سے بھی قابلِ فہم ہے۔

 (دائیں) کرشمہ کپور کریسنٹ لان کلیکشن کے اشتہار میں، (بائیں) نرگس فخری اعلان لان کلیکشن کے اشتہار میں
(دائیں) کرشمہ کپور کریسنٹ لان کلیکشن کے اشتہار میں، (بائیں) نرگس فخری اعلان لان کلیکشن کے اشتہار میں

اس وقت دیگر کے ساتھ ساتھ سیف علی خان اور ان کی بیوی کرینہ کپور، پرینیتی چوپڑا اور شلپا شیٹی سرحد کی دوسری جانب کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اندربھی شیمپو برانڈز کے اشتہارات کے کامیاب اسٹارز ہیں۔

کرینہ کپور نے بہت مزے سے پاکستان اور ہندوستان میں ایک میگنم بار کے ذریعے صارفین کی پسند کو بڑھایا، جبکہ کترینہ کیف تو ہر جگہ ہی چھائی ہوئی ہیں یعنی جوس سے لے کر صابن اور ہیرریموول کریم تک۔

کرینہ کپور مگنیم کے اشتہار میں— فوٹو کرٹسی بولی اسپائس ڈاٹ کام
کرینہ کپور مگنیم کے اشتہار میں— فوٹو کرٹسی بولی اسپائس ڈاٹ کام

اس بات پر دکھ محسوس کیا جاسکتا ہے، کہ کلیئر شیمپو کو پاکستان کے لیے اضافی بجٹ مختص کرنا پڑا۔ اس کے ہندوستانی اشتہار میں ویرات کوہلی نظر آئے پر چونکہ انڈین کرکٹرز پاکستانی عوام کو کبھی متاثر نہیں کرسکتے، اسی لیے پاکستان کے لیے اس برانڈ کے اشتہار میں بولی وڈ کی الینا ڈی کروز اور ڈیشنگ فواد خان کو جگہ ملی۔

ویٹ کی برانڈ منیجر معصومہ حسن یہ نکتہ اٹھاتی ہیں کہ کئی بار ایک انڈین اداکار کا انتخاب مارکیٹنگ ٹیم کے لیے واحد آپشن ہوتا ہے، اور یہ تو سب کو ہی معلوم ہے کہ ویٹ طویل عرصے سے کترینہ کیف کو اپنے اشتہارات کی زینت بنارہا ہے اور معصومہ حسن کا کہنا ہے کہ بولی وڈ باربی ڈول ان کے برانڈ کے لیے بہترین ہیں۔

ان کے بقول"ہم چاہتے ہیں کہ صارفین ویٹ کو صفائی کرنے والی پراڈکٹ کے مقابلے میں بیوٹی برانڈ تصور کرے۔ کترینہ ایسی خوبصورتی کو پیش کرتی ہیں جو ہر خاتون حاصل کرنے کی خواہش مند ہوتی ہے۔ وہ مقبول بولی وڈ آئیکون ہیں، ان کا چہرہ پرکشش اور جسمانی کشش بے مثال ہے، تو ہمارے خیال میں پاکستان میں کوئی اور اداکارہ اس وقت اس حوالے سے فٹ نہیں"۔

کترینہ کیف ویٹ اور سلائس کے اشتہارات میں
کترینہ کیف ویٹ اور سلائس کے اشتہارات میں

ایک اور برانڈ یونی لیور اپنی لاتعداد اشتہاری مہموں کے دوران مختلف فنکاروں کو پیش کرتا ہے۔ وہ اپنے برانڈ ایمبیسڈر کے انتخاب کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کا انحصار جغرافیائی تعلق کے مقابلے میں مقامی مارکیٹ میں اس فرد کی مقبولیت پر ہوتا ہے۔

یونی لیور پرسنل کیئر کے مارکیٹنگ ڈائریکٹر راحیل پاشا خان کے مطابق "صرف انڈین اسٹارز ہی پاکستان میں مقبول نہیں، مثال کے طور پر شان اور ایمان علی نے کبھی ہندوستان میں کام نہیں کیا مگر وہ مقامی طور پر بہت مقبول ہیں"۔

تاہم شان اور ایمان علی محض چند افراد کی ہی نمائندگی کرتے ہیں۔ جب تک ان جیسے مزید اسٹارز پاکستان میں ابھر کر سامنے نہیں آتے، ہندوستان یہاں مصنوعات کی فروخت کے میدان میں چھایا رہے گا اور مارکیٹنگ ماہرین بڑھتی فروخت کو دیکھتے ہوئے چند ناقدین کی آواز پر کان نہیں دھریں گے۔

اور اس سے فرق کیا پڑتا ہے؟ اچھی اشتہاری مہم سے معیشت کے لیے مزید سرمایہ پیدا ہوتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ بولی وڈ کا غلبہ ہمارے اپنے فنکاروں کو زیادہ بہتر طور پر آگے بڑھنے کا عزم دے۔

حقیقت پسندی سے دیکھا جائے، تو ہم میں سے کتنے افراد متھیرا یا وینا ملک کی جانب سے پیش کردہ اشیاء کو خریدنے کے خواہشمند ہوں گے؟ یقیناً بہت کم۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (3) بند ہیں

Libra Nov 24, 2014 03:22pm
Mthera and Veena malik are not the representatives of whole Lolly wood..... we have more talented actors/actress here in Pakistan . try to take good one example rather than commenting about just two notorious actresses.
Anwar Amjad Nov 25, 2014 07:55am
The reason why we hate Indian models on Pakistani billboards is simple - Why waste foreign exchange on such a stupid thing?
Shan Ahmed Nov 25, 2014 10:21am
Very well said about typical mentality of Pakistani people, Great