پاکستانی اور عراقی عسکریت پسندوں کے تعلق بنانے والا الزرقاوی

23 نومبر 2014
ایک امریکی فوجی افسر جون 2006 میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک الرزقاوی کی تصویر دکھا رہا ہے— اے ایف پی
ایک امریکی فوجی افسر جون 2006 میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک الرزقاوی کی تصویر دکھا رہا ہے— اے ایف پی

پشاور : اگر یہاں پاکستانی عسکریت پسند اور عراق کے جنگجوﺅں کے درمیان کوئی مضبوط تعلق موجود ہے تو وہ ابو معصب الزرقاوی ہے۔

احمد فضیل النزال الخلایلہ المعروف ابومعصب الزرقاوی 40 سالہ اردن کا شہری جو لگ بھگ دس برسوں تک پاکستان میں مقیم رہا۔

وہ پشاور اور کچھ قبائلی ایجنسیوں میں رہائش اختیار کرتا رہا ، روانی سے پشتو بولنے اور ایک مقامی قبیلے کی ایک خاتون سے شادی کرکے اس نے اپنی جڑیں مضبوط کی تھیں۔

جب وہ جماعت التوحیدر الجہاد کو تشکیل دینے کے لیے عراق منتقل ہوا، جو بعد میں عراقی سرزمین میں القاعدہ کی شکل اختیار کرگئی، تو یہ اس کے بعد ہی پاکستانی عسکریت پسندوں کے پہلے عراقی اور پھر شامی جنگجوﺅں کے ساتھ روابط دوبارہ قائم ہوئے۔

ایک سیکیورٹی عہدیدار کے مطابق"ان کا تعلق کافی پرانا ہے، روس کے خلاف افغان جنگ میں شرکت کرنے والے اب عراق اور شام میں جنگوں کی قیادت کررہے ہیں"۔

اس کا مزید کہنا تھا"جنگجوﺅں نے خاموشی سے ایک سمت اختیار کرلی ہے، وہ کسی ہجوم کی بجائے ایک یا دو کی شکل میں کام کررہے ہیں"۔

سیکیورٹی عہدیدار نے پاکستانی اور غیرملکی جنگجوﺅں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا"صرف ہمارے نہیں بلکہ دیگر غیرملکی جو اس خطے میں طویل عرصے سے ہیں، لڑنے کے لیے عراق اور شام کا رخ کررہے ہیں"۔

مگر پاکستانی حکام نے اس پر سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ عسکریت پسند " ملک سے جاکر واپس نہیں آرہے" اور پھر داعش اور اس کے خلیفہ'ابوبکر البغدادی' ابھرا جو پاکستانی عسکریت پسندوں کے ذہن جیت نہیں سکا۔

یہ اوائل جولائی کی بات ہے جب پاکستانی سیکیورٹی اداروں کو یہ اشارے ملنا شروع ہوئے کہ مقامی عسکریت پسندوں نے داعش سے اطاعت قبول کرنا شروع کردی ہے۔

گزشتہ ماہ ایک تحریری کتابچہ'فتح' پشاور کے قریب ایک مہاجر کیمپ میں تقسیم ہوا جس میں داعش کی اطاعت قبول کرنے کا ذکر تھا۔

جس گروپ نے اس کتابچے کو تقسیم کیا اس نے خود کو دولت الاسلامیہ کے نام سے متعارف کرایا جس نے مقامی افراد سے خلافت کے قیام کے لیے حمایت کی درخواست کی۔

اس کے بعد تحریک طالبان پاکستان کے ایک سابق ترجمان ابو عمر مقبول ال خراسانی المعروف شاہد اللہ شاہد نے پانچ دیگر 'کمانڈرز' کے ساتھ داعش کی اطاعت قبول کرنے کا اعلان کردیا۔

اس کے بعد داعش کی حمایت میں مختلف شہروں کی دیواروں میں وال چاکنگ سامنے آنے لگی جبکہ بہاولپور میں تو اس تنظیم کے سیاہ پرچم تک نصب ہوگئے۔

پاکستان پر اس کے اثرات

وال چاکنگ، کتابچے کی تقسیم اور پرچم لہرانا اگرچہ پاکستانی عسکریت پسندوں کا ردعمل ہے مگر داعش اس حوالے سے خاموش ہے۔

یہاں تک کہ ابوبکر البغدادی کے پاس پاکستانی عسکریت پسندوں سے پاکستان میں داعش کی کوئی ضلعی شاخ قائم کرنے کے لیے بات چیت کا وقت ہی نہیں۔

ایک اور سیکیورٹی عہدیدار نے بتایا"البغدادی کے پاس اس وقت عراق اور شام سے آگے اپنی تنظیم کو پھیلانے کے بارے میں سوچنے سے زیادہ اہم کام ہیں"۔

اکتوبر کی وسط میں شاہد اللہ شاہد نے اپنی ایک عربی زبان کی ویڈیو کے ذریعے داعش سربراہ تک رسائی کی اپنی کوششوں کا ذکر کیا"پہلی اطاعت خلافت کے اعلان سے قبل ابو طیار الاردنی کے ہاتھوں پر ہوئی تھی "۔

اس نے مزید کہا"دوسری اطاعت گزشتہ رمضان کے پانچویں روزے کے موقع پر کی گئی جسے میں نے ابو ہدیٰ السوڈانی کے ذریعے بھجوایا اور تیسری بار رمضان کے اختتام پر ایسا ہوا جسے میں نے ٹیلیون پر عمر ابو الخطاب الشامی کے ذریعے بھجوایا"۔

اپنی اطاعت کی حمایت کرتے ہوئے شاہد اللہ شاہد نے البغدادی کو یاد کیا"یہ چوتھا موقع ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ اسے قبول کرکے جواب دیں گے"۔

اب تک بیشتر پاکستانی عسکریت پسند گروپس کھلے عام داعش کی اطاعت قبول رکنے کے لیے آگے نہیں آئے۔

اگرچہ تین اہم عسکریت پسند کمانڈر مولوی فضل اللہ، حافظ گل بہادر اور خان سعید سجنا نے داعش کی موجودگی کو تسلیم کیا ہے تاہم وہ تاحال ملاعمر کو ہی امیرالمومنین تسلیم کرتے ہیں۔

تحریک طالبان پاکستان سے منسلک جماعت الاحرار جس کی قیادت عبدالولی المعروف عمر خالد خراسانی کررہا ہے نے اپنی حالیہ اپیل میں داعش اور القاعدہ کے النصرہ گروپ سے اختلافات کو پس پشت ڈال کر مشترکہ دشمنوں کے خلاف ملنے کا مطالبہ کیا۔

عمر خالد خراسانی اور اس کا گروپ ماضی میں ملا عمر کی اطاعت تسلیم کرچکا تھا اور اور اس نے اب تک اپنے ذہن بدلنے کا کوئی عندیہ نہیں دیا، مگر جماعت الاحرار کا اطراف بدلنے کا کوئی بھی فیصلہ پاکستانی میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں تبدیلی کا سبب بن سکتی ہے۔

حکام کو ڈر ہے کہ اگر فرقہ وارانہ عسکریت پسند گروپس نے داعش کے پاکستانی ورژن کے قیام کی کوششوں میں شمولیت اختیار کرلی تو اس سے ملک پر کافی مضر اثرات مرتب ہوں گے، ایک حکومتی عہدیدار کے مطابق"ایسا بالکل ممکن ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، ایسا ہوا تو فرقہ وارانہ تشدد کی شرح میں اضافہ ہوجائے گا"۔

مشرقی کنڑ اور نورستان صوبوں کے کچھ افغان کمانڈرز نے بھی داعش کی اطاعت قبول کرنے کا اعلان کیا ہے، حکام کو فکر ہے کہ وسائل سے مالامال داعش اپنے ایجنڈے کو عالمی سطح پر پھیلانے کے لیے جنگجوﺅں کو بھرتی کرسکتے ہیں۔

مگر کچھ حکام پاکستان میں داعش کے خطرے کو مسترد کرتے ہوئے اسے مبالغہ آمیز قرار دیتے ہیں ، ان کا کہنا ہے"اس تبدیلی سے یہاں کا توازن کیسے بگڑے گا؟ تیکنیکی اصطلاح کے اعتبار سے یہاں کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا"۔

ایک عہدیدار نے کہا"جو برائے نام تبدیلی آئے وہ بس نام بدلنے کی ہوگی اور داعش کچھ ایسا نہیں کرسکتی جو ہم پہلے دیکھ نہ چکے ہو، ہم بم دھماکے دیکھ چکے ہیں اور ہم نے خودکش حملوں کو بھی دیکھا ہوا ہے"۔

اس نے مزید کہا"یہاں ایسا وقت بھی آیا ہے جب پاکستان نے دہشت گردوں کے حوالے سے عراق کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، تو اس سے کیا تبدیلی آئے گی"۔

سال 2012 میں پاکستان دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں 1404 حملوں کے ساتھ سرفہرست تھا، جس کے بعد عراق 1271 حملوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھا۔

القاعدہ پر اثرات

حکومتی اور سیکیورٹی حکام کو توقع ہے کہ داعش کی خطے میں توسیع سے القاعدہ کو مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسا بہت جلد ہونے کا کوئی امکان نہیں۔

ایک سیکیورٹی عہدیدار کے مطابق"القاعدہ کی اس خطے میں ایک تاریخ ہے، اس کی بنیادی اسی خطے میں پڑی اور اس کی جڑیں یہاں موجود ہے، تو جب تک اس کے متعدد عسکریت پسند گروپس سمیت اہم ترین حامی سمت بدلنے کا فیصلہ نہیں کرلیتے اور خود کو دوسری طرف فروخت نہیں کردیتے، اس وقت تک القاعدہ کو اپنی بقاءکے حوالے سے کسی فوری خطرے کا سامنا نہیں، اس کی موجودگی کو واحد خطرہ زمین سے ہی لاحق نہیں بلکہ یہ اوپر سے بھی ہے یعنی امریکی ڈرون جو فضاﺅں میں گردش کرتے رہتے ہیں'۔

ایک اور حکومتی عہدیدار نے کہا کہ اب تک صرف چند 'کمانڈرز' کے گروپ نے داعش کی اطاعت کو قبول کیا ہے"اور یہ اطاعت بھی ان افراد کی جانب سے سامنے آئی ہے جو یہاں وہاں بھاگ رہے ہیں، اگر داعش انہیں معاونت یا رقم دینے سے انکار کردے تو یہ لوگ القاعدہ کو کیسے چیلنج کریں گے؟، وہ تو بچنے پر ہی خوش قسمت ہوں گے"۔

مگر کچھ عہدیداران نے خبردار کیا ہے کہ یہ صورتحال اس وقت تبدیل ہوسکتی ہے جب داعش اس خطے کی جانب توجہ مرکوز کرے گی جو جہادی سرگرمیوں کی تاریخ رکھتا ہے ایک عہدیدار کا کہنا تھا"داعش شامی آئل فیلڈز سے تیل نکال کر کروڑوں ڈالرز کمارہی ہے، یہ رقم گیم تبدیل کرنے والا نکتہ ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ القاعدہ کی فنڈنگ کے ذرائع خشک ہوتے جارہے ہیں'۔

حکام کا مزید کہنا تھا کہ القاعدہ کی قیادت کو کافی نقصانات بھی اٹھانا پڑے ہیں، ایک طرف اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں اپنی رہائشگاہ میں امریکی آپریشن میں ہلاک ہوئے، اس کے کچھ اہم رہنماءیاتو پکڑے گئے یا قبائلی علاقے میں ڈرون حملوں میں مارے گئے۔

ایک سیکیورٹی عہدیدار نے کہا"القاعدہ کے پاس اس خطے میں اب صرف ایمن الظواہری اور اس کے کچھ سخت گیر ساتھی بچے ہیں، ان کی تعداد میں پندرہ سے زیادہ نہیں"۔

اس کا مزید کہنا تھا"متعدد افراد خطے سے شام اور عراق کا رخ کرچکے ہیں، جبکہ دیگر کو ڈرون کے ذریعے نشانہ بنایا جارہا ہے"۔

تاہم حکام کو خدشہ ہے کہ کمزور القاعدہ کو داعش سے فائدہ ہوسکتا ہے، کیونکہ اس کی توسیع سے القاعدہ کو مزید خلاءمل جائے گا۔

ایک عہدیدار نے کہا"ابھی تک تو داعش نے یہاں اپنی شاخ قائم نہیں کی اور خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے"۔

اس نے مزید کہا"ہم اس وقت پرچم کشائی اور وال چاکنگ دیکھ رہے ہیں، خطے میں داعش کی آمد سے القاعدہ کے ساتھ کیا ہوگا ؟ یہ فی الحال ایک مفروضات پر مبنی سوال ہے"۔

اس کے بقول"ہوسکتا ہے کہ وہ وہ ایک دوسرے کو تسلیم کرلے یا ایک دوسرے کے ساتھ الجھ پڑے، ایسا شام میں ہورہا ہے اور یہاں بھی ہوسکتا ہے، مگر اس وقت یہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہورہا"۔

تبصرے (0) بند ہیں