پاکستانی فلم انڈسٹری کے معروف اداکار وحید مراد کو دنیا سے منہ موڑے آج 31 سال بیت گئے۔

دو اکتوبر 1938 کو کراچی میں پیدا ہونے والے وحید مراد کو 'چاکلیٹی ہیرو' کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

وحید مراد ہیرو بھی تھے تو پروڈیوسر بھی اور ساتھ میں اسکرپٹ بھی لکھتے تھے۔

انہوں نے ایس ایم آرٹس کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد کراچی یونیورسٹی سے ایم اے انگلش کیا اور فلم ’اولاد‘ سے فنی سفر کا آغاز کیا جس میں انہوں نے سپورٹنگ اداکار کا رول کیا اور اس فلم کو 'نگار ایوارڈ' ملا۔

'ہیرا اور پتھر' وحید مراد کی پہلی فلم تھی جس میں انہوں نے بطور ہیرو کام کیا اور اس فلم کے لیے انہیں 'نگار ایوارڈ' بھی ملا۔

انیس سو چھیاسٹھ میں وحید مراد نے پہلی دفعہ اپنی پروڈکشن کے بینر تلے بنی فلم 'ارمان' میں کام کیا، اس فلم نے باکس آفس کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔

اس فلم کے مشہور ہونے والے گانوں میں 'کو کو رینا، اکیلے نہ جانا، بیتاب ہو ادھر تم اور زندگی اپنی تھی اب تک' شامل ہیں۔

برصغیر میں دلیپ کمار کے بعد وہ دوسرے اداکار تھے جو نوجوان نسل میں بے حد مقبول ہوئے۔

لیکن ستر کی دہائی میں ان کے پاس اپنی ساتھی اداکار چننے کی چوائس بہت کم باقی رہ گئی تھی، زیبا کو ان کی شادی کے بعد محمد علی نے وحید مراد کے ساتھ کام کرنے سے منع کر دیا تھا۔

پھر شبنم کی بھی شادی ہوگئی تو انہیں ان کے شوہر نے وحید مراد کے ساتھ کام کرنے سے منع کردیا، اس کے ساتھ ساتھ نشو کو بھی وحید مراد کے ساتھ کام کرنے کی اجازت نہیں تھی۔

اور یہی باتیں ان کو پستی کی طرف لے جانے کی وجہ بنیں، اس کے بعد وحید کو کم مقبول ڈائریکٹرز اور پروڈیوسرز کی طرف سے کاسٹ کیا جانے لگا۔

انہوں نے ایک سو چوبیس فلموں میں کام کیا جن میں آٹھ پنجابی اور ایک پشتو فلم بھی شامل ہے۔

انہیں 1964 میں ہیرا اور پتھر، ارمان (1966)، عندلیب (1969) اور مستانہ ماہی (1971) میں شاندار اداکاری پر نگار ایوارڈ جبکہ 2002 میں لائف ٹائم لیجنڈ ایوارڈ سے نوازا گیا۔

انیس سو اسی میں وحید کا ایکسیڈنٹ ہوا، جس سے ان کا چہرہ شدید زخمی ہوا اور پلاسٹک سرجری کرانی پڑی۔

اس کے بعد فلموں میں ہونے والی ناکامی نے وحید مراد کو دلبرداشتہ کر دیا اور 23 نومبر 1983 کی صبح فلم انڈسٹری کا بے تاج بادشاہ دنیا سے رخصت ہوگیا۔

وحید مراد کی وفات کے ستائیس سال بعد نومبر2010 میں انہیں ستارۂ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے مداحوں کی جتنی بڑی تعداد آج بھی پاکستان میں موجود ہے وہ کسی اور ہیرو کو نصیب نہیں ہوسکی۔

تبصرے (0) بند ہیں