سوئس عدالت میں حکومتی کامیابی سے وزیراعظم مشکل کا شکار

24 نومبر 2014
وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری— اے پی فائل فوٹو
وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری— اے پی فائل فوٹو

اسلام آباد : اگرچہ غیرملکی بینکوں میں جمع ملکی اثاثوں کو واپس لانا مسلم لیگ ن کی حکومت کے لیے اچھی خبر ہوسکتی ہے مگر حکومت پاکستان کے حق میں آنے والے حالیہ فیصلے کے وقت نے ممکنہ طور پر وزیراعظم نواز شریف کو کافی پریشان پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے۔

ایک سوئس فیڈرل ٹربیونل نے حال ہی میں فیصلہ سنایا تھا کہ سابق صدر آصف علی زرداری یا بے نظیر بھٹو کے قانونی وارثوں کی ملکیت سمجھے جانے والے قیمتی زیورات، جن پر سیاسی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھا کر حاصل کرنے کے مبینہ الزامات سامنے آئے تھے، کو ضبط کرلیا جائے۔

یہ زیورات ایک نیکلس، ایک بریسلیٹ، انگوٹھی اور دیگر پر مشتمل ہیں جن کی مالیت ایک لاکھ 80 ہزار ڈالرز ہے۔

عدالت کی جانب سے 29 اکتوبر کو جاری ہونے والے فیصلے، جس کی ایک نقل ڈان کو دستیاب ہوگئی ہے، میں ٹربیونل نے بومر فنانس کی جانب سے زیورات کی ملکیت کے دعوے کو مسترد کردیا ہے، یہ کمپنی مبینہ طور پر جینز شکیلی گیلمیلچ نے تشکیل دی تھی اور ان کا تعلق آصف علی زرداری سے تھا، اور ان کے خلاف ایس جی ایس کونیٹکنا تحقیقات بھی جاری ہے۔

سوئس ٹربیونل میں حکومت پاکستان کی نمائندگی کرنے والی قانونی فرم پیتھون اینڈ پیٹر وکیل فرانکوئس روجر مچلی کے مطابق فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جینز شکیلی گیلمیلچ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے اٹارنی کے طور پر پیش ہوئے۔

حکومتی موقف درست ثابت ہونے اور جنیوا کی کورٹ آف اپیل کے ایک حالیہ فیصلے کو دیکھتے ہوئے ذرائع نے بتایا کہ سوئس قانونی فرم نے حکومت پاکستان کو اس فیصلے سے آگاہ کردیا ہے کہ بومر فنانس اب خود کو ان زیورات کا قانونی مالک قرار نہیں دے سکتی۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ جینز شکیلی گیلمیلچ یہ بات ثابت نہیں کرسکے کہ انہوں نے بومر فنانس کے ایک بوڈ رکن کی حیثیت سے ان زیورات کو خریدا تھا۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ حکومت ٹربیونل کے فیصلے کی اطلاع باضابطہ ذرائع سے ملنے کے بعد اس معاملے میں اقدام کا تعین کرے گی، مگر دوسری جانب فیصلے کی ایک نقل پہلے ہی اسلام آباد ارسال کی جاچکی ہے۔

اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کردیا جبکہ وزیراعظم کے ترجمان ڈاکٹر مصدق ملک سے متعدد کوششوں کے باوجود رابطہ نہیں ہوسکا۔

مگر اس کیس کی پیشرفت سے واقف سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل کے دفتر کو فیصلے کی غیرسرکاری نقل موصول ہوچکی ہے تاہم اس وقت وزیراعظم بیرون ملک تھے۔

ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم کو اس حوالے سے بریفننگ دی جائے گی اور اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔

حکومت کو اب مشکل سیاسی انتخاب کا سامنا ہے، عوامی سطح پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار وعدہ کرچکے ہیں کہ غیرملکی بینکوں میں موجود ملکی اثاثوں کو واپس لایا جائے گا اور یہ مقدمہ اس کا موقع فراہم کرتا ہے۔

مگر حکمران جماعت کو حالیہ عرصے میں پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے ہاتھوں درپیش مشکلات کو دیکھتے ہوئے متعدد حلقوں کو لگتا ہے کہ یہ پیپلزپارٹی کو بھی مخالف بنانے کا مثالی وقت نہیں جو حالیہ مہنوں میں حکومت کی ناگزیر اتحادی ثابت ہوچکی ہے۔

سرکاری ذرائع نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا"قانونی طور پر یہ حکومت کے لیے بیرون ملک موجود اثاثوں کی ریکوری کے لیے ایک مضبوط کیس ہے"۔

یہ مقدمہ اکتوبر 1997 میں اس وقت کے اٹارنی جنرل آف پاکستان نے بے نظیر بھٹو، ان کی والدہ نصرت بھٹو اور شوہر آصف علی زرداری کے خلاف دائر کیا تھا۔

یہ زیورات ان اشیاءمیں شامل ہیں جنھیں 1997 میں ضبط کیا گیا تھا تاہم این آر اور کے اجراءکے بعد 2008 میں اصل مقدمات بند ہوگئے تھے تاہم سپریم کورٹ آف پاکستان کے بعد انہیں دوبارہ کھولا گیا۔

آصف زرداری ماضی میں اپنے بیانات میں ان زیورات کی ملکیت کی تردید کرچکے ہیں جبکہ انہوں نے ایس ایس جی کونٹیکنا اسکینڈل میں کرپشن الزامات کو بھی مسترد کردیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں