امریکی پولیس نے '12 سالہ' مجرم مار ڈالا

اپ ڈیٹ 24 نومبر 2014
بچے کے قبضے سے برآمد ہونے والی کھلونا بندوق،۔ فوٹو اے پی
بچے کے قبضے سے برآمد ہونے والی کھلونا بندوق،۔ فوٹو اے پی
ریاست اوہویو کے شہر کلیو لینڈ میں پیش آنے والے واقعہ ایک پارک میں پیش آیا۔ فوٹو اے پی
ریاست اوہویو کے شہر کلیو لینڈ میں پیش آنے والے واقعہ ایک پارک میں پیش آیا۔ فوٹو اے پی

واشنگٹن: امریکی شہر کلیو لینڈ میں کھیل کے میدان میں پستول کھلونا لے کر آنے والے 12 سالہ افریقی نژاد امریکی بچے کو اتوار کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔

ریاست اوہویو میں اس قتل کے بعد ایک بار لسانی کشیدگی بڑھ گئی ہے اور پولیس کے کردار پر ناقدین نے سوالات اٹھانے شروع کر دیے ہیں۔

واضح رہے کہ اگست میں اس طرح کا ایک واقع پیش آیا تھا جب پولیس نے میسوری میں ایک سیاہ فام نوجوان کوفائرنگ کر کے ہلاک کردیا تھا۔

اس کے ساتھ ساتھ اگست میں ریاست اوہویو میں ایک اور اس طرح کا واقعہ اُس وقت پیش آیا تھا جب پولیس نے مشہور سپر اسٹور وال مارٹ میں کھلونا بندوق پکڑے پوئے سیاہ فام شخص جان کرافورڈ کو گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

تازہ حادثے میں بچہ لوگوں کی جانب کھلونا بندوق کیے ہوئے تھا جس سے ایسا تاثر ملا کہ وہ لوگوں کو اصل پستول سے ڈرانے کی کوشش کررہا ہے تاہم پولیس نے کسی بھی قسم کی جانچ پڑتال کے بغیر بچے کو گولیاں مار دیں۔

لوگوں نے پولیس کو جائے وقوعہ پر بلایا جس نے بچے کو دو گولیاں ماریں جن میں سے ایک اس کے پیٹ میں لگی۔

مقامی اخبار کے مطابق بچے کی شناخت تامر رائس کے نام سے ہوئی ہے جو اتوار کی صبح زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گیا۔

جن پولیس افسران نے گولیاں چلائیں ان میں سے ایک کو پولیس فورس جوائن کیے ہوئے محض ایک سال ہوا تھا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پولیس 911 پر کی گئی کال ریکارڈ سے انکشاف ہوا کہ اطلاع دینے والے نے پہلے ہی خبردار کردیا تھا کہ پستول ممکنہ طور پر نقلی ہو سکتی ہے۔

کلیو لینڈ پولیس کے مطابق دونوں افسران کو چھٹیوں پر بھیج دیا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ پولیس افسران نے موقع پر پہنچ کر مشتبہ بچے کو ہاتھ اوپر کرنے کا حکم دیا تاہم اس نے حکم نہ مانا جس کے بعد افسران نے گولیاں چلا دیں۔

اس حادثے کے بعد اتوار کو ریاست کی قانون دان الیسیا ریسی نے اعلان کیا کہ وہ ایک بل متعارف کرائیں گی جس کے تحت تمام کھلونا بندوقوں کو مخصوص چمکدار رنگ کیا جائے یا مخصوص دھاریاں ڈالی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ مستقبل میں اس قسم کے ہولناک حادثات سے بچنے کے لیے ہمیں فوری طور پر قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں