افغان سرزمین پر' پراکسی وار' کی اجازت نہیں دینگے، اشرف غنی

26 نومبر 2014
افغانستان کے نو منتخب صدر اشرف غنی—۔فائل فوٹو/ رائٹرز
افغانستان کے نو منتخب صدر اشرف غنی—۔فائل فوٹو/ رائٹرز

کھٹمنڈو: افغانستان کے نو منتخب صدر اشرف غنی نے خبردار کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر کسی کو پراکسی وار کی اجازت نہیں دیں گے۔

ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ پاکستان اور ہنوستان کے مابین کشیدگی پورے خطے کو متاثر کرے گی۔

نیپال کے شہر کھٹمنڈو میں منعقدہ 18 ویں سارک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ ہم اپنی سرزمین کو اپنے کسی پڑوسی کےخلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

اپنے خطاب کے دوران پاکستان کا نام لیے بغیر افغان صدر کا کہنا تھا کہ غیر ریاستی عناصر کی سرپرستی کے اثرات نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات، ریاست کو غیر مستحکم کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ تقسیم ہند کے بعد سے ایٹمی طاقت کے حامل دونوں پڑوسی ممالک پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تین جنگیں لڑی جاچکی ہے جبکہ متعدد بار چھوٹی جھڑپیں بھی ہوتی رہی ہیں تاہم 1998ء میں دونوں ممالک کی جانب سے نیوکلئیر ہتھیاروں کے ٹیسٹ کے بعد سے کوئی جنگ نہیں ہوئی۔

حالیہ چند ہفتوں کے دوران ہندوستان کی جانب سے پاکستانی سرحدی علاقے میں فائرنگ کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور متعدد بار دونوں ملکوں کے درمیان سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

گزشتہ سال دسمبر میں پاکستان اور ہندوستان نے ایل او سی سیز فائر معاہدے 2003ء کی پاسداری کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا، لیکن اس کے باوجود اس قسم کے واقعات رک نہیں سکے ۔

سرحدی کشیدگی کے علاوہ دونوں ممالک ایک دوسرے پر افغانستان میں پراکسی وار کے الزامات بھی عائد کرتے رہتے ہیں۔


مزید پڑھیں: افغانستان میں انڈیا کے ساتھ پراکسی وارکا خطرہ ، پرویز مشرف


ہندوستان ، شمالی افغانستان کے تاجک گروپوں کے ساتھ تعلقات استوارکرنے کی کوشش کرتا ہے جبکہ پاکستان کے روابط زیادہ تر افغانستان کے جنوب اور مشرق میں بسنے والے پشتونوں کے ساتھ ہیں ۔

پاکستان ان تین ممالک میں سے ایک تھا جس نے بنیادی طور پر پشتون طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا تاہم 2001 میں امریکی حملے کے بعد اس کا تختہ الٹ گیا تھا۔

واضح رہے کہ رواں برس امریکا کی اتحادی نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلاء مکمل ہو جائے گا، ایسے وقت میں افغانستان میں قیامِ امن کے کے لیے پاکستان کی حمایت بہت ضروری ہے۔

دوسری جانب سابق افغان صدر حامد کرزئی نے بھی گزشتہ ہفتے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکی اور نیٹو فوج کے انخلاء کے بعد افغانستان، پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ’پراکسی وار‘ کے لیے خود کو میدان جنگ نہیں بننے دے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں