پاکستان کا اوپن ایئر میوزیم

ڈیرہ غازی خان کا علاقہ دنیا کی نظر میں پاکستان میں یورینیم کے ذخائر کی وجہ سے مشہورہے، جبکہ یہاں کے مقامی لوگ صوفی بزرگ، حضرت سخی سرور کے مزار کو اس شہر کی اہم پہچان قرار دیتے ہیں۔

لیکن عوام کی اکثریت اس سے ناواقف ہے کہ سخی سرور سے فورٹ منرو ہل اسٹیشن جانے والا 60 کلومیٹر طویل راستہ کئی اعتبار سے ایک ’اوپن ایئر میوزیم‘ کا درجہ رکھتا ہے۔ سطح سمندر سے 6,470 فٹ بلند فورٹ منرو کو اس علاقے کا مری کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ کوہِ سلیمان سلسلے میں واقع اس پرفضا مقام پر کبھی کبھی برف باری بھی ہوتی ہے۔ جبکہ یہ علاقہ بلوچستان اور پنجاب کو آپس میں ملاتا ہے۔

گرمیوں میں جب جنوبی پنجاب میں سورج غضب ڈھاتا ہے تو عوام کی بڑی تعداد اس ٹھنڈے تفریحی مقام کا رخ کرتی ہے۔ تاہم یہاں مزید سہولیات فراہم کرکے اسے ملک کے بہترین سمر ریزورٹ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

فورٹ منرو کی اطراف اور یہاں جانے والا راستہ جیالوجیکل عجائبات سے بھرا ہوا ہے۔

فورٹ منرو تک جانے والی سڑک کوئٹہ روڈ کہلاتی ہے۔ یہاں موجود خاموش پتھراور چٹانیں اس اہم واقعے کی گواہی بھی دیتے ہیں جب آج سے ساڑھے چھ کروڑ سال قبل ایک یا کئی قدرتی آفات کے بعد ڈائنوسار ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئے تھے اور ان کے بعد ممالیہ جانوروں نے پھلنا پھولنا شروع کیا تھا۔ یہاں براؤن رنگ کی ایک پتھریلی پٹی پر اس تباہی کی کہانی درج ہے جسے cretaceous اور tertiary باؤنڈری کہتے ہیں۔ اسے مختصراً کے ٹی باؤنڈری بھی کہا جاتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ایک بہت بڑا شہابِ ثاقب (ایسٹرائڈ) زمین پر ٹکرایا تھا۔ اس زوردار دھماکے سے ڈائنوسار جیسے جاندار صفحہء ہستی سے مٹ گئے تھے۔

پھر اسی روڈ پر ایک مقام ایسا بھی ہے جہاں موجود ایک چٹانی سلسلہ موجود ہے اور یہ عین وہی پرت ہے جہاں سے ایک سو کلومیٹر دور دنیا کے سب سے بڑے ممالیے، بلوچی تھیریم (Baluchitherium) کی ہڈیاں ڈیرہ بگٹی سے ملی ہیں۔ 1910 میں انگریز ماہر سر کلائیو فورسٹر کوپر نے یہاں سے ایک بہت بڑے جانور کی چند ہڈیاں دریافت کی تھیں اور اس جانور کو ’بلوچستان کا درندہ‘ کہا تھا۔ اس کے بعد تقریباً سو برس تک یہ دریافت ایک معمہ بنی رہی۔ اس کے بعد فرانس کے مشہور ماہرِ رکازیات (پیلے اونٹولوجسٹ) ڈاکٹر جین لوپ ویلکم اور ان کی ٹیم نے 1990 کے عشرے میں کلائیو کے نقشِ قدم پر ڈیرہ بگٹی کا دورہ کیا اور یہاں ایک طویل عرصے قیام کے بعد بلوچی تھیریم کا مکمل مگر کمپوزٹ (ایک سے زائد جانوروں سے تیارکردہ) ڈھانچہ دریافت کرلیا۔ اس سلسلے میں نواب اکبر خان بگٹی نے فرنچ ٹیم کی ہر طرح سے مدد کی اور انہیں تمام سہولیات فراہم کیں۔

بلوچی تھیریم کا مکمل ڈھانچہ دیکھ کر یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ گینڈے کی نسل سے تعلق رکھنے والا یہ جاندار تین کروڑ سال قبل ایشیا میں موجود تھا۔ اس وقت ڈیرہ بگٹی کا وسیع علاقہ ایک گھنے جنگل کی مانند تھا جہاں ہر طرح کا سبزہ پایا جاتا تھا۔ بلوچی تھیریم پانچ میٹر بلند، سات میٹرلمبا اور بیس ٹن وزنی تھا یعنی اس کا وزن تین بڑے ہاتھیوں کے برابر تھا!

حال ہی میں بلوچی تھیریم کی ہڈیاں شمالی بلوچستان بیسن میں ژوب کے علاقے سے ملی ہیں جبکہ ڈیرہ غازی خان کے قریب تونسہ میں مشرقی سلیمان فولڈ اور تھرسٹ بیلٹ سے بھی اس کے فاسلز دریافت ہوئے ہیں۔ یہ دریافت جیالوجیکل سروے آف پاکستان کے سینیئر جیالوجسٹ صادق ملکانی اور شاہد اسحاق نے کی ہیں۔

سلیمان رینج میں ایک اور اہم چٹانی سلسلہ ہے اور قریباً ساڑھے چار کروڑ سال پرانی یہ پرت وہی ہے جہاں بلوچستان سے ایک وھیل کے فاسلز ملے ہیں۔ یہ وھیل زمین پر چلا بھی کرتی تھی اور اس کا مکمل پیر دریافت ہونے کے بعد گویا بایولوجی کی ٹیکسٹ بکس کو تبدیل کرنا پڑا تھا۔ رہوڈو سیٹس بلوچستانینسس (Rhodocetus baluchistanensis) نامی یہ وھیل پاکستانی اور امریکی ماہرین نے مشترکہ طور پر 2001 میں دریافت کی تھی۔

اب اس سے اور آگے بڑھیں تو ایک اور چٹانی سلسلہ ملتا ہے جو بلوچستان میں بارکھان کے علاقے وٹاکری میں بھی نمایاں ہے۔ اس جگہ صادق ملکانی نے ڈائنوسار کی سینکڑوں ہڈیاں دریافت کی ہیں۔ اسطرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہاں میلوں تک وسیع علاقہ ایک سائنس کلاس روم کا درجہ رکھتا ہے۔

معاشی اہمیت کا حامل علاقہ

سلیمان بیسن کا یہ علاقہ نہ صرف ماضی میں جھانکنے کی ایک کھڑکی فراہم کرتا ہے بلکہ یہاں کئی طرح کی معدنیات بھی موجود ہیں جو ملکی معیشت میں مثبت کردار ادا کرسکتی ہیں۔

صادق ملکانی نے کہا کہ یہاں بڑی مقدار میں جپسم، لائم اسٹون اور ملتانی مٹی پائی جاتی ہے جو سیمنٹ بنانے میں بطور خام مال استعمال ہوتی ہیں۔ اس طرح یہ علاقہ سیمنٹ سازی کا ایک مرکز بن سکتا ہے۔ جبکہ اس وقت یہاں پر صرف ایک سیمنٹ فیکٹری کام کررہی ہے

اس کے علاوہ اسی روڈ کے اطراف اناج پیسنے والے پتھر (مل اسٹون)، ماربل، لوہا اور کم مقدار میں یورینیم بھی پایا جاتا ہے۔ ایک اور مغل کوٹ سلسلہ کئی کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے جہاں تیل و گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ جبکہ اس کے قریب جاندھران میں تیل نکالا جارہا ہے۔

لیکن اس سے قبل یہاں رہنے والے لوگوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرکے ان کی مایوسی اور غربت کو دور کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

لغاری قبیلے کے ایک بزرگ نے ڈان کو بتایا کہ حکومت نے عوام کے بنیادی حقوق اور ضروریات کے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔

’یہاں پینے کے لیے پانی بھی نہیں ملتا۔ حکومت کی جانب سے ان مسائل کو حل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ جب تک یہ مسائل حل نہیں ہوتے ہم اسے معاشی مرکز بنانے کی بات کیسے کرسکتے ہیں؟‘

کوہِ سلیمان کے سلسلے میں واقع ڈیرہ غازی خان اور فورٹ منرو کا راستہ ایک حیرت کدے سے کم نہیں۔ اسے بین الاقوامی جیولوجیکل پارک بھی بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن زمین کے ماضی کو دیکھنے سے قبل یہ ضروری ہے کہ یہاں موجود آبادی کے مسائل کو حل کیا جائے۔ یہاں کی اکثریت بہتر تعلیم، صحت کی سہولیات اور روزگار کی خواہاں ہے اور انہیں ترقی دے کر ہی اس علاقے کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔