کیا کراچی ہمیشہ ڈوبتا رہے گا؟

24 دسمبر 2014
پاک فوج کے سپاہی شدید بارشوں سے زیرِ آب آنے والے کراچی کے مضافاتی علاقے سے لوگوں کو نکال رہے ہیں(4 اگست 2013)  — اے پی
پاک فوج کے سپاہی شدید بارشوں سے زیرِ آب آنے والے کراچی کے مضافاتی علاقے سے لوگوں کو نکال رہے ہیں(4 اگست 2013) — اے پی

صرف پچاس سال پہلے کی بات ہے، پاکستان کے صنعتی اور معاشی مرکز کراچی میں بہت ہی کم بارشیں ہوا کرتی تھیں۔ اگر یہاں کے باسی خوش قسمت ہوتے، تو کچھ سالوں بعد ہلکی بارش ہوجایا کرتی، ورنہ نہیں۔ لیکن 1970 کے بعد سے 1400 اسکوائر میل پر پھیلے 2 کروڑ سے زائد آبادی والے اس شہر میں بارشیں، اور شہر کا زیرِ آب آنا معمول بنتا گیا ہے۔

سڑکوں پر پانی جمع ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے جبکہ مین ہول میں گرنے اور ڈوبنے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ بارشیں کسی مخصوص علاقے میں ہوں، تو یہ سیلابی کیفیت صرف کچھ علاقے میں ہوتی ہے مگر پھر بھی یہ ہزاروں لوگوں کی زندگیاں اور کاروبار متاثر کرتی ہے۔

کیا گلوبل وارمنگ اس کی ذمہ دار ہے؟

عالمی شہرت یافتہ آرکیٹیکٹ، شہری منصوبہ بندی کے ماہر، اور ماحولیاتی کارکن عارف حسن کا کہنا تھا کہ گلوبل وارمنگ موجود ہے، اور اس بات کی تصدیق ان تمام تبدیلیوں سے ہوتی ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں، لیکن اختلاف صرف اس کی شدت پر ہے۔

انہیں بڑھتی ہوئی بارشیں غیر معمولی نہیں لگتیں۔ "بارشوں کے اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ حالیہ سیلاب کا موسمیاتی تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تھوڑا سا بھی نہیں۔ یہ اعداد و شمار اوپر نیچے جاتے رہتے ہیں اور یہ معمول کے بغیر ہوتا ہے۔ ہمارے پاس 2010 میں شدید سیلاب آیا تھا۔ 1970 کی دہائی میں کافی بارشیں ہوا کرتی تھیں، یہاں تک کہ لیاری ندی اوور فلو ہوجایا کرتی تھی، پر شہر نہیں ڈوبتا تھا۔"

تو پھر یہ اب کیوں ڈوبتا ہے؟

انہوں نے وضاحت کی کہ پانی کے سمندر کی طرف نکاس کے اہم راستے بند تھے۔ مثال کے طور پر دو قدرتی نالوں کے جنکشن پر کچے کے علاقے میں ایک بائی پاس نالہ بنایا گیا۔ یہ ایک تنگ اور نامناسب 60 فٹ چوڑا نالہ ہے، جو کہ ایک ندی سے مل کر سمندر میں گرتا ہے۔ بارشوں کے دوران یہ پانی کا بوجھ نہیں برداشت کرسکتا۔ یہ کلفٹن کے علاقے میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے پاس ہے۔ ڈیفنس شہر کے ساحلی علاقے پر تقریباً 14 اسکوائر میل کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے، اور تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کراچی کا زیادہ تر سیوریج کا پانی سمندر میں پھینکا جاتا ہے، اور اسے وہاں تک پہنچنے کے لیے ڈی ایچ اے سے ہی گزرنا پڑتا ہے۔

عارف حسن نے مزید بتایا کہ ایک اور اہم نالہ گِزری کریک میں گرتا ہے۔ اس کا ڈیڑھ کلومیٹر چوڑا کچے کا علاقہ 80 فٹ چوڑے نالے سے تبدیل کردیا گیا ہے۔ پہلے یہ علاقہ کبھی زیرِ آب نہیں آتا تھا، لیکن اب آتا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ ڈی ایچ اے نے اس کے کچے کے علاقے کو رہائشی علاقے میں تبدیل کردیا ہے۔ اب جب سمندر میں اونچی لہروں کے وقت بارشیں ہوجائیں، تو پانی سمندر میں نہیں گر پاتا، کیونکہ لہریں پانی کو واپس دھکیل دیتی ہیں۔

دیگر مسائل میں کچی آبادیوں کی صورت میں تجاوزات شامل ہیں۔ جب بھی زیادہ بارشیں ہوں، تو یہ زیرِ آب آجاتی ہیں کیونکہ یہ کچے کے علاقے میں قائم ہیں۔ سب سے حالیہ کیس سعدی ٹاؤن کا ہے، جو گذشتہ سال مکمل طور پر زیرِآب آگیا تھا۔

کراچی کے مسائل میں ایک اور مسئلہ غیر اطمینان بخش سیوریج سسٹم کا ہے۔ اس وقت سیوریج پراسیسنگ پلانٹس کراچی کے کل سیوریج کا صرف ایک چوتھائی حصہ ہی صاف کرسکتے ہیں، وہ بھی اگر ان تک پہنچے تو۔ ان پلانٹس کی مجموعی سکت 15 کروڑ گیلن ہے، جبکہ صرف 3 کروڑ گیلن ہی یہاں تک پہنچتا ہے۔ باقی 40 کروڑ گیلن سیوریج سیدھا سمندر میں جاتا ہے۔

برساتی نالے سیوریج نالوں کا بھی کام دیتے ہیں، جس کی وجہ سے صحت کے سنگین مسائل جنم لیتے ہیں۔

حسن کے مطابق ڈیفنس، جو مینگروو جنگلات کی پٹی اور کلفٹن میں مائی کولاچی روڈ پر قائم ہے، سے چھٹکارہ حاصل کیے بغیر اس مسئلے سے نہیں نکلا جاسکتا۔

مینگروو کے جنگلات کو بچانے کے لیے ماحولیاتی کارکنوں کے احتجاج ناکام ہوچکے ہیں۔ کبھی یہ جنگلات گھنے ہوا کرتے تھے، لیکن اب یہ تیزی سے سکڑ رہے ہیں۔ بڑھتی ہوئی آلودگی نے جھینگوں کی نرسریز اور مقامی ماہی گیروں کے روزگار کو نقصان پہنچایا ہے۔

این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کے ڈپارٹمنٹ آف آرکیٹیکچر کے سربراہ نعمان احمد نے کہا کہ یہ پورا علاقہ اب شدید بدبو کی لپیٹ میں ہے، کیونکہ سیوریج کو مناسب انداز میں ٹھکانے لگانے کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ یہاں کے رہائشی بدبو کی وجہ سے یہ جگہ چھوڑ جانے لگیں گے۔

نعمان نے وارننگ دی کہ "جو لوگ ڈی ایچ اے میں رہتے ہیں، یا وہاں شفٹ ہونے کا سوچ رہے ہیں، انہیں دوبارہ سوچنا چاہیے۔ صرف ڈی ایچ اے فیز 8 ہی چار ہزار ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے، جس میں سے زیادہ تر علاقہ ناقابلِ رہائش تھا۔ اسے سائنسی طریقے سے قابلِ رہائش بنانا کافی مہنگا ہے۔ اس لیے دلدلی علاقے میں زمین کو ریتی بجری کی مدد سے مضبوط کیا گیا ہے۔ یہ درست طریقہ نہیں ہے۔ زلزلے کی صورت میں بلڈنگس اور انفراسٹرکچر میں دراڑیں پڑ سکتی ہیں جبکہ زیادہ نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ لوگ اب اس سے بھی زیادہ علاقے کو قابلِ رہائش بنانے کی کوشش میں ہیں۔"

یہی غلطیاں دوسرے بڑے شہروں یعنی بمبئی، ڈھاکہ، بینکاک، اور 19ویں صدی میں نیویارک، لندن، اور پیرس میں کی گئیں تھیں۔ نالے بند کردیے گئے تھے، جبکہ ان پر کینال اور کریک بنا دیے گئے تھے۔ حسن نے کہا کہ ان مغربی شہروں اور ہم میں فرق یہ ہے کہ وہ چھوٹی آبادیاں تھیں، جہاں غلطی کو سدھارنا آسان تھا، جبکہ کراچی آج دنیا کا سب سے تیزی سے بڑھتا ہوا شہر ہے۔

"منصوبہ سازوں کو مسائل کا علم ہے، لیکن وہ سیاسی وجوہات کی بنا پر ان کا کچھ نہیں کرسکتے۔ کراچی کے مختلف علاقے مختلف لسانی گروہوں اور سیاسی جماعتوں کے زیرِ اثر ہیں، جو ایک دوسرے کے سخت مخالف ہیں۔ کراچی 13 مختلف اداروں کے زیرِ انتظام ہے، جس میں کینٹونمنٹ بورڈز، پورٹ ٹرسٹ، سول ایوی ایشن اتھارٹی، صنعتی علاقے، ہاؤسنگ سوسائٹیز وغیرہ شامل ہیں۔ سب کچھ ایڈ ہاک بنیادوں پر چل رہا ہے۔"

منظورشدہ منصوبوں پر عملدرآمد نہیں ہوتا جبکہ تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادی کے ساتھ ساتھ مالیاتی مسائل بھی بڑھتے جارہے ہیں۔

آرکیٹیکٹ اور کارکن رولنڈ ڈی سوزا کا کہنا تھا کہ کراچی میں تعمیرات کو کنٹرول کرنے کے لیے، یا نقصاندہ تبدیلیوں کو روکنے کے لیے کوئی مجموعی اتھارٹی موجود نہیں ہے۔

کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے سابق چیئرمین مصباح الدین فرید نے بھی اس بات سے اتفاق کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ واٹر بورڈ کو اسٹیک ہولڈر سمجھا ہی نہیں جاتا، اس لیے ان سے مشاورت بھی نہیں کی جاتی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس مسئلے کو وزیرِ اعلیٰ کے سامنے کئی بار اٹھایا ہے، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

عارف حسن کا کہنا ہے کہ مسئلہ پلاننگ کا نہیں بلکہ سیاسی ہے۔ "دیکھیں، شہری حکومت کے منصوبہ ساز نہایت قابل ہیں، اور وہ یہ سب کچھ جانتے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سیاست دان یہ سب کچھ نہیں جانتے، اور نہ جاننا چاہتے ہیں۔ وہ یہ سب اس لیے نہیں دیکھتے، کیونکہ ایسا ان کے ساتھ نہیں ہوتا۔ منصوبہ ساز جو سب سے زیادہ معلومات رکھتے ہیں، ان کو کوئی آزادی نہیں ہے۔ اگر وہ اپنی بات پر زور دیں، تو انہیں معطل کیا جاسکتا ہے، یا کسی اور شہر تبادلہ کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے وہ خاموش رہ کر اپنی نوکری بچائے رکھتے ہیں، یا نوکری چھوڑ کر کہیں اور نکل جاتے ہیں۔"

"آنے والے 100،50 سالوں میں گلوبل وارمنگ زیادہ بارشوں کا سبب بنے گی، اور معاملات سنگین تر ہوجائیں گے۔ لیکن گلوبل وارمنگ ہو یا نہ ہو، جب تک یہ مسائل حل نہیں کیے جاتے، کراچی ڈوبتا رہے گا۔"

حیران کن بات یہ ہے کہ ملک کے دیگر حصوں کے ساتھ ساتھ کراچی بھی پانی کی شدید قلت کا بھی شکار ہے۔ پاکستان اب مجموعی طور پر پہلے سے کہیں زیادہ پانی حاصل کررہا ہے، اور اس کی وجہ بارشیں اور سیلاب ہیں۔ پرویز نعیم جو توانائی اور ماحولیات کے ماہر ہیں نے کہا کہ "بارشوں میں اس اضافے کے باوجود ہماری پانی جمع کرنے کی قابلیت ہماری صرف ایک ماہ کی ضروریات کے برابر ہے۔ پانی جمع نہ کرسکنے کے باعث ہم زیادہ بارشوں کی صورت میں سیلاب کا شکار ہوتے ہیں، جبکہ کم بارشوں کی صورت میں قحط کا سامنا کرتے ہیں۔ پاکستان کو اس حوالے سے مضبوط اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔"


بشکریہ تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Adil Ali Dec 25, 2014 12:34pm
Ab ye kaam or b aasaan ho gya hay barish ki b zaroorat nahi rahi, ye kaam sewerage kay pani nay pooora kar dia hay, ab to #Karachi ki har street ka ye hi haal hay! kya karachi ka waris hay jo karachi walo ka khial rakh sakay jo kam az kam buniaadi zaroorat ki chizain hi dekh lay #PPP #MQM