معاشرے کا عکاس پاکستانی فکشن

15 دسمبر 2014
وہ تمام کام جو اخبار نہیں کرسکتے، یعنی چیزوں کے دل میں اترنا، اس کے لیے فکشن موجود ہے۔
وہ تمام کام جو اخبار نہیں کرسکتے، یعنی چیزوں کے دل میں اترنا، اس کے لیے فکشن موجود ہے۔

لکھاری مختلف لوگوں کے لیے مختلف ہوتے ہیں، لیکن ہمارے کام کے بارے میں جو باتیں کہی جاتی ہیں، ان میں جو مجھے سب سے زیادہ پسند ہے وہ یہ کہ ہم معاشرے کی روح کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہم مشاہدہ کرتے ہیں اور حصہ لیتے ہیں، ہم تشریح کرتے ہیں اور تجزیہ کرتے ہیں، ہم ان تصوراتی دنیاؤں کو سامنے لاتے ہیں، جو ہمارے ماحول کی عکاس یا اس سے تھوڑی مختلف ہوتی ہیں۔

کبھی کبھی ہم معاشرے کے سامنے اس کے ضمیر کی طرح آئینے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ کبھی ہم ماہرِ نفسیات بن کر ہمارے کرداروں کی نفسیات کی گہرائی میں اتر کر ان کی اور اپنی اقوام کی بنیادوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

پاکستانی فکشن رائٹرز کی حیثیت سے اس ملک کے بارے میں ہماری نگاہ انوکھی اور امتیازی ہیں، جو سیاسی بیانات، صحافیانہ تجزیات، اور مشہوری کے لیے کیے گئے پروپیگنڈا سے بڑھ کر سچ سامنے لاتی ہیں۔

جیسا کہ سری لنکن ناولسٹ رو فری مین لکھتی ہیں، کہ 'وہ تمام کام جو اخبار نہیں کرسکتے، یعنی چیزوں کے دل میں اترنا، اس کے لیے فکشن موجود ہے۔' ہمارا کام نہ صرف پلاٹ اور کردار فراہم کرتا ہے، بلکہ جذبات اور سیاق و سباق بھی دیتا ہے۔ ہم ان اندرونی ہلچل، پریشر اور تناؤ، چھوٹی خوشیوں اور بڑی کامیابیوں کے بارے میں لکھتے ہیں جو پاکستانی اپنی روز مرہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں۔ لوگوں کی زندگیوں کو خرد بینی سطح پر دیکھ کر ہم فہم بہتر بناتے ہیں کہ اگر اس سب کو بڑا کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا جائے، تو یہ کیسا لگے گا۔

اگر آپ پاکستان کی پیدائش کو سمجھنا چاہتے ہیں تو سعادت حسن منٹو سے شروع کیجیے، جن کی مشہور مختصر کہانیوں یا افسانوں نے انہیں فحاشی کے الزام پر عدالتوں کے چکر لگوائے۔ کسی بھی اور لکھاری نے کئی پاکستانیوں پر ہندوستان کی تقسیم سے پڑنے والے گہرے زخموں کو اس سے بہتر انداز میں پیش نہیں کیا ہے۔ یا پھر آپ باپسی سدھوا کو پڑھ سکتے ہیں جو پاکستان میں انگلش کی اولین لکھاری سمجھی جات ہیں۔ ان کا ناول 'کریکنگ انڈیا' اس تشدد کی منظرکشی کرتا ہے، جو اب تک محبت کے ساتھ رہ رہے پڑوسیوں نے تقسیم کے موقع پر ایک دوسرے پر کیا۔

وسیع زرعی رقبے، جن پر پاکستان کی اکثریت گزارہ کرتی ہے، کی منظرکشی دانیال معین الدین کرتے ہیں۔ دیہی پاکستان کے کاروبارِ زندگی، معیشت، اور طبقاتی نظام پر جس طرح انہوں نے اپنے افسانوں کی کتاب 'In Other Rooms, Other Wonders' میں روشنی ڈالی ہے، اس سے ٹالسٹائی یاد آتے ہیں۔ جب پاکستانی ان زرعی معاشروں سے نقل مکانی کر کے بیرونِ ملک سیٹل ہوجاتے ہیں، تو کس طرح وہ اپنی ثقافت اور روایات برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس مغربی سوسائٹی سے، جس میں انہیں بہرحال سیٹل ہونا ہی ہے، ان کا کیا فکری تصادم ہوتا ہے، اس کو بہترین انداز میں ندیم اسلم نے اپنے ناول Maps For Lost Lovers میں بیان کیا ہے۔

موجودہ پاکستان انتہاپسند تشدد، ضروریات اور محرومیوں، اور تعلیمی بحران میں گھرا ہوا ہے، اور یہ سارے مسائل ایسے ہیں، جن کے لیے ہمارے پاس کوئی جامع حل موجود نہیں ہیں۔ عمر شاہد حامد کا تھرلر کرائم ناول The Prisoner کراچی کے تناظر میں لکھا گیا ہے، اور کراچی پولیس فورس کے کام پر روشنی ڈالتے ہوئے ایسے کئی مسائل سامنے لاتا ہے۔ ان کو ٹارگٹڈ تشدد، اپنی صفوں میں کرپشن، اور ہر سطح پر سیاسی مداخلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حامد کا اندرونی نقطہ نظر پریشان کن سمجھے جانے والے اس ادارے کے لیے رحمدلی کے جذبات جگانے کی ایک کوشش ہے۔

کاملہ شمسی کا ناول A God In Every Stone اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ کس طرح برٹش راج نے پاکستان کی موجودہ سیاست کی صورت گری میں کردار ادا کیا ہے۔ برٹش راج کی جانب سے 1930 کی دہائی میں پختون شورش کو سختی سے کچلنے نے آنے والے دور میں مزید ظلم و ستم اور ڈکٹیٹرز کے لیے راہ ہموار کی۔ محمد حنیف کا زبردست طنزیہ ناول A Case of Exploding Mangoes جنرل ضیاالحق کے دور پر مبنی ہے، اور روشنی ڈالتا ہے کہ کس طرح امریکہ نے پاکستان پر سرد جنگ کا آخری راؤنڈ کھیلنے کے لیے پریشر ڈالا، جس کی وجہ سے آج ملک میں اسلامی انتہاپسندی بڑھ رہی ہے۔ محسن حامد کا ماڈرن کلاسک ناول The Reluctant Fundamentalist اونچے طبقے کے ایک پڑھے لکھے نوجوان کے بارے میں ہے جو امریکہ میں اپنی کارپوریٹ کامیابی کو چھوڑ کر پاکستان واپس آتا ہے، جس سے وہ بنیاد پرستی کی اس راہ پر نکل پڑتا ہے جو اسے وال اسٹریٹ میں ملنے والی کامیابی سے زیادہ کی پیشکش کرتی ہے۔

لیکن ہماری سوسائٹی میں موجود چیلنجز نے خوشگوار حسِ مزاح کو بھی جنم دیا ہے، اور ان حیرت انگیز حالات کی جھلک ہمارے لٹریچر میں بھی نظر آنے لگی ہے۔ صبا امتیاز کا ناول Karachi You're Killing Me جوش و جذبے سے بھرپور ایک نوجوان پاکستانی خاتون صحافی کے بارے میں ہے، جو ایک مشکل کریئر، ایک چکرا دینے والے شہر، اور اپنی ذاتی زندگی کی مشکلات کے درمیان آگے بڑھنے کا راستہ بنا رہی ہے۔ مونی محسن کے ناول جو ان کے مشہور کالم 'Diary of A Social Butterfly' پر مبنی ہیں، لاہوری سوسائٹی کی احمقانہ باتوں پر نہ ختم ہونے والے مزاح اور آسٹن کی طرح لوگوں کی خوشدلی پر تبصرہ سے بھرپور ہیں۔

جب بھی آپ پاکستان کے بارے میں ٹی وی پر خبر دیکھتے ہیں یا اخبار میں کچھ پڑھتے ہیں، تو آپ صرف آدھی تصویر ہی دیکھ پاتے ہیں۔ ہاں شاید آپ حقائق جان رہے ہوں، لیکن ضروری نہیں کہ اس زبردست ملک کے بارے میں سچ بھی جان پائیں۔ ہاں پاکستان کے بارے میں کسی پاکستانی لکھاری کا لکھا ہوا ناول اٹھائیں۔ بیٹھیں اور دن کے کچھ گھنٹے، یا کچھ دن کتاب کے ساتھ گزاریں۔ ہمیں سمجھیں، ہماری زندگی جیئں، ہمارے دکھ محسوس کریں، ہمارے مذاق کو سمجھیں۔ دوسرے لفظوں میں، ہمارا فکشن پڑھیں، اور ہماری انسانیت کے بارے میں جانیں۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری A Season For Martyrs کی مصنفہ ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر binashah@ کے نام سے لکھتی ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 7 دسمبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (2) بند ہیں

Anwer Hussain Dec 15, 2014 09:24pm
!... references from Urdu Fiction
asaf jilani Dec 17, 2014 03:54pm
ھمارے ذہنوں پرانگریزی اس بری طرح سے چھائی ہوئی ہے کہ اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ بینا شاہ نے اپنے مضمون میں صرف انگریزی ناولوں کا ذکر کیا ہے ۔ اردو کی تخلیقات کو انہوں نے یکسر نظر انداز کر دیا ہے ۔ یہ ان کی کوتاہ نظری کے علاوہ کیا ہے؟ آصف جیلانی