اصلاحات کا راستہ

14 دسمبر 2014
پاکستان کے اقتصادی چیلنجز واضح ہیں، جبکہ ان کے حل بھی واضح ہیں، بھلے کتنے ہی مشکل کیوں نہ محسوس ہوں۔
پاکستان کے اقتصادی چیلنجز واضح ہیں، جبکہ ان کے حل بھی واضح ہیں، بھلے کتنے ہی مشکل کیوں نہ محسوس ہوں۔

برطانیہ کے محکمہ برائے بین الاقوامی ترقی کی وزیر کی حیثیت سے میں نے پاکستان کو پارٹنرشپ کے لیے ہماری اولین ترجیحات میں سے بنایا ہے۔ ہم دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ تعلقات موجود ہیں۔ برطانیہ میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے 10 لاکھ سے بھی زیادہ لوگ رہتے ہیں۔ برطانیہ پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کرتا ہے، اور یورپ میں پاکستانی ایکسپورٹس کی سب سے بہترین مارکیٹ ہے۔

پاکستان میں جو کچھ بھی ہوتا ہے، اس کا اثر برطانیہ پر پڑتا ہے، اور مجھے یقین ہے کہ پاکستان کو اس کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے میں مدد دینا دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔ اس لیے برطانیہ کے سب سے بڑے ترقیاتی پروگرامز میں سے ایک کا مرکز پاکستان ہے۔

جب میں جنوری 2013 میں پہلی بار پاکستان آئی، تو پاکستان اقتدار کی ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو منتقلی کے تاریخی مرحلے سے گزر رہا تھا۔ تمام مرکزی سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کے ساتھ ڈنر کرتے ہوئے مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ تمام سیاسی جماعتوں میں پاکستان کو درپیش سنگین اقتصادی چیلنجز کے حوالے سے گہری فہم موجود ہے، جبکہ ترقی کے راستے کے بارے میں بھی اتفاقِ رائے ہے۔ جب موجودہ حکومت اقتدار میں آئی، تو اس کے پاس اہم اصلاحات کو آگے بڑھانے کے لیے مضبوط مینڈیٹ تھا۔ اٹھارہ مہینوں بعد بھلے ہی اہم اقدامات کیے گئے ہیں، لیکن اب بھی اصلاحات کا مکمل نفاذ مشکلات سے بھرپور ہے۔

یہ واضح ہے کہ پاکستان کی میکرو اکنامک صورتحال کافی نازک ہے۔ پچھلی دہائی میں پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کا اوسطاً صرف 10 فیصد حصہ ہی ٹیکسوں سے حاصل ہوتا رہا ہے، جو دنیا میں کم ترین سطحوں میں سے ایک ہے۔ کئی اہم بنیادی خدمات جیسے صحت اور تعلیم وغیرہ کی فراہمی کے لیے یہ بالکل ناکافی ہے۔ پاکستان جیسی فی کس آمدنی رکھنے والے دوسرے ممالک میں یہ شرح اوسطاً 14 فیصد ہے۔

اسی طرح توانائی کا شعبہ اور ریاست کی ملکیت میں موجود ادارے بھی بحرانوں کا شکار ہیں۔ توانائی کے شعبے میں اس کا نتیجہ حد سے زیادہ لوڈ شیڈنگ ہے، جبکہ بجلی پر دی جانے والی سبسڈی ملک بھر میں صحت پر کیے جانے والے اخراجات سے زیادہ ہے۔ حکومت اب نقصان میں چل رہے قومی اداروں کو بیل آؤٹ کرانے پر مجبور ہے، جس کی وجہ سے محدود عوامی فنڈز مزید سکڑتے جائیں گے۔ ایسا بہت عرصے تک جاری نہیں رہ سکتا۔ پچھلی دہائی کے دوران ترقی کی شرح 7 فیصد سے بھی کم رہی ہے، جو کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کے لیے ضروری تھی۔

موجودہ حکومت اور وزیرِ خزانہ نے توانائی سے ٹیکس تک، نجکاری سے لے کر سیفٹی نیٹ میں غریب ترین لوگوں کو شامل کرنے تک، کئی اہم محاذوں پر پیش رفت کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ترقی اب 4 فیصد سے بڑھ رہی ہے جبکہ مہنگائی میں کمی آئی ہے، لیکن اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

ان سب میں سب سے زیادہ اہمیت شاید توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی ہے۔ حکومت کے پہلے ہی سال میں بجلی کی قیمتیں بڑھانا ایک مشکل لیکن ضروری قدم تھا۔ برطانیہ نے پاکستانی وزیرِاعظم نواز شریف کو اس مہینے کے اوائل میں برطانیہ اور پاکستان کے درمیان توانائی پر مذاکرات کے لیے لندن مدعو کیا، تاکہ آپس کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے اور پرائیویٹ شعبے میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کیے جائیں۔ اس کے لیے پہلا قدم یہ ہوگا کہ بجلی کی قیمتیں اخراجات کو پورا کرسکیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ بجلی کی پیداوار اور تقسیم کار کمپنیوں میں بہتری، اور ایک موثر ریگولیٹر کی بھی ضرورت ہے۔

ٹیکس استثنا کو ختم کرکے ٹیکس کے نظام اور وصولی کو بہتر بنا کر ریوینیو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ان میں کچھ اصلاحات پر برطانیہ کے ٹیکس وصولی کے ادارے HMRC اور ایف بی آر کے درمیان پارٹنرشپ بن رہی ہے۔ حکومت نے ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو بڑھانے کا بڑا اور اہم وعدہ کیا ہے۔

2014-2015 کے بجٹ میں حکومت نے جی ڈی پی کے 0.35 فیصد کے برابر ٹیکس استثنا ختم کرنے کا اعلان کیا تھا، اور عزم کیا تھا کہ اتنا ہی ٹیکس وصول کیا جائے گا، جس سے ٹیکس کا ایک شفاف تر نظام وجود میں آئے گا۔ اگر اعداد و شمار کی بات کی جائے تو یہ سالانہ 200 ارب روپے کے برابر ہے۔ یہ اس تمام سالانہ امدادی گرانٹ سے زیادہ ہے، جو اہم ترقیاتی پارٹنرز نے حالیہ سالوں میں ملک کو فراہم کی ہے۔

حکومتی ملکیت میں چلنے والے اداروں میں مزید اصلاحات بے پناہ مالیاتی فوائد کا دروازہ کھول سکتی ہیں۔ بہتر انتظام اور اسٹریٹیجک فروخت فوری طور پر مطلوب ترقیاتی فنڈز کی ضرورت کو بھی پورا کرسکتی ہیں۔

لیکن ان تمام اصلاحات کے ساتھ کچھ حلقوں کے لیے معاشی خطرات بھی موجود ہیں۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی صورت میں موجود قومی سوشل سیفٹی نیٹ آبادی کے نچلے 20 فیصد حصے کے لیے اہم لائف لائن کا کردار ادا کرتی ہے، جس سے ہر ماہ انہیں کچھ رقم یقینی طور پر حاصل ہوسکتی ہے۔

اس کے ذریعے بنیادی خوراک، خاندان کی صحت، اور بہتر زندگی یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے۔ وزیرِ خزانہ نے حالیہ بجٹ میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے ملنے والی رقم بھی بڑھا دی ہے، جو کہ ایک خوش آئند اقدام ہے۔ مستحقین تک رقوم کی شفاف فراہمی کے لیے بایومیٹرک شناخت اور ڈیبٹ کارڈ سسٹم بھی لایا جاچکا ہے۔ ڈیپارٹمینٹ فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ حکومت کے ساتھ پاکستان کے لیے باعثِ فخر اس نیشنل سوشل سیفٹی نیٹ کو بڑھانے پر مزید کام کرنے کا خواہشمند ہے۔

پاکستان کے اقتصادی چیلنجز واضح ہیں، جبکہ ان کے حل بھی واضح ہیں، بھلے کتنے ہی مشکل کیوں نہ محسوس ہوں۔ حکومت کا 14 نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا اس کے لیے بالکل صحیح فریم ورک مہیا کرتا ہے، اور اس میں وہ اصلاحات بھی شامل ہیں، جن کی تجویز اپوزیشن جماعتوں نے اپنے اپنے اقتصادی منشور میں دی تھیں۔

ان اصلاحات کی بنیادی ذمہ داری حکومت پر ہے، لیکن ایک خوشحال پاکستان کے لیے ان اقدامات کی حمایت کرنا ہر پاکستانی لیڈر کی ذمہ داری ہے۔

برطانیہ پاکستان کے ساتھ پارٹنرشپ میں کام کرتا رہے گا، اور برطانوی حکومت بھی سیاسی لیڈرشپ میں سے ان لوگوں کی حمایت کرنے کی بھرپور کوشش کرے گی، جو اصلاحات کی حمایت کرتے ہیں، اور اپنے ملک کو مزید خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری برطانیہ کی وزیر برائے بین الاقوامی ترقی ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 9 دسمبر 2014 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں