اچھے اور برے طالبان کی کوئی تمیز نہیں ہوگی، وزیراعظم

اپ ڈیٹ 17 دسمبر 2014
ملک کی سیاسی قیادت  پشاور میں  موجود—۔فوٹو/ ڈان نیوز اسکرین گریب
ملک کی سیاسی قیادت پشاور میں موجود—۔فوٹو/ ڈان نیوز اسکرین گریب
ڈان نیوز ویڈیو گریب—۔
ڈان نیوز ویڈیو گریب—۔
فوٹو/ رائٹرز—۔
فوٹو/ رائٹرز—۔
فوٹو/ رائٹرز—۔
فوٹو/ رائٹرز—۔
فوٹو/ اے پی—۔
فوٹو/ اے پی—۔
ملک بھر کی سرکاری عمارات پر قومی پرچم سر نگوں ہے—۔فوٹو/آن لائن
ملک بھر کی سرکاری عمارات پر قومی پرچم سر نگوں ہے—۔فوٹو/آن لائن

پشاور: خیبر پختونخوا کے درالحکومت پشاور میں گزشتہ روز آرمی پبلک اسکول پر تحریک طالبان پاکستان کے حملے میں 131 بچوں سمیت 141 افراد کی ہلاکت پر پاکستان بھر میں یوم سوگ منایا جا رہا ہے۔

خیبرپختونخوا، سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے وزرائے اعلی نے تین روزہ سوگ کااعلان کر رکھا ہے۔

ملک کے مختلف تعلیمی اداروں میں امتحانات ملتوی کیے گئے ہیں جبکہ بار ایسوسی ایشنز نےعدالتی کارروائیوں کا بطور احتجاج بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔

سانحہ پشاور نے سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے اختلافات بھلا کر ایک ہونے پر مجبور کردیا۔

دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے وزیراعظم کی زیرصدارت پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس بھی آج پشاور میں ہوا۔

دوسری جانب، سانحے میں ہلاک ہونے والوں کی نماز جنازہ ادا کی جا رہی ہے۔ 10 بچوں اور 3 اساتذہ کی تدفین منگل کے روز ہی کر دی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں

Nadeem Dec 17, 2014 11:49am
ہمیں بھی فخر ہے ان سب معصوم شہدا پر. یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی انشاءاللہ.
محمد حسین Dec 17, 2014 12:19pm
کیا ان بچوں کی موت اسی انداز میں لکھی جا چکی تھی؟؟؟ پشاور جیسے واقعات کے بعد بہت سے لوگ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ یہ ان کی موت اسی طرح لکھی جا چکی تھی۔ ان سے میرے چند سوالات ہیں۔ ۱۔ کیا ان معصوم بچوں کی زندگی اتنی مختصر لکھی گئی تھی؟ ۲۔ کیا ان بچوں کو اس بربریت کے نتیجے میں ہی اس جہاں سے اگلے جہاں جانا لکھا گیا تھا؟ کیا ان کی درسگاہ ہی ان کی مقتل گاہ تھی؟ کیا ان کی شہادت درندہ صفت دہشت گردوں کے ہاتھوں لکھی گئی تھی؟ نہیں ہر گز نہیں! کائنات میں ایک تکوینی نظام اللہ تعالیٰ کا چل رہا ہے جس میں موت و حیات سے منسلک بہت سے فیصلے یقینی ہے۔ جبکہ ایک نظام انسانی معاشرہ خود تشکیل دیتا ہے اور چلاتا ہے۔ اس میں ہونے والی خامیوں اور نقصانات کا ذمہ دار نظام فطرت کو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ عدل و انصاف، مساوات، تحفظ، آزادی اور اطمنان بخش زندگی گزارنا انسان کا انفرادی اور معاشرتی امتحان ہے۔ پشاور اور دیگر واقعات میں میں جان بحق ہونے والے معصوم شہری ہماری ریاستی، مذہبی، سیاسی، سماجی، عسکری خامیوں کی وجہ سے مارے گئے ہیں جس کے ہم سب ذمہ دار ہیں۔ ہم من حیث القوم ابھی تک اس مائنڈ سیٹ کو شکست دینے میں ناکام رہے ہیں۔ آج بھی جنت میں جانے کے اس خون آلود راستے پر گامزن لوگوں کی حمایت ہمارے سیاسی، مذہبی، سماجی اور عسکری حلقوں میں موجود ہے جس کا یہی نتیجہ ہم دیکھ کر دو دن کے لیے مذمتیں کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ اظہار ہمدردری اور مذمت کے علاوہ ہم کیا کریں؟ ہماری انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری یہی ہے کہ شعور، واضح موقف و مقاصد، رواداری، مذہبی و سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے اور پُرامن بقائے باہمی کو یقینی بنان