سانحہ پشاور: بچ جانے والے طالبعلموں کے دلخراش بیانات

اپ ڈیٹ 17 دسمبر 2014
سانحہ پشاور میں دہشت گردوں کے حملے سے متاثرہ ایک کلاس روم کا منظر جہاں خون کے دھبے اور ٹوٹی ہوئی چیزیں اس واقعے کی دہشت کی عکاسی کررہے ہیں— اے پی فوٹو
سانحہ پشاور میں دہشت گردوں کے حملے سے متاثرہ ایک کلاس روم کا منظر جہاں خون کے دھبے اور ٹوٹی ہوئی چیزیں اس واقعے کی دہشت کی عکاسی کررہے ہیں— اے پی فوٹو

پاکستان کی تاریخ کے سیاہ ترین دن کا آغاز معمول کے مطابق ہوا مگر پشاور کے وارسک روڈ پر واقع آرمی پبلک اسکول کے طالبعلموں کو معلوم نہیں تھا کہ ان پر کیا قیامت ٹوٹنے والی ہے اور دہشت گردوں کے ہاتھوں بچ جانے والے بچوں اور دیگر عینی شاہدین نے جو واقعات بتائے ہیں وہ دلخراش اور ہلا دینے والے ہیں۔

طالبان دہشت گردوں نے جب اسکول پر حملہ کیا تو پہلے تو بچوں کو لگا کہ محض ایک ڈرل ہے مگر پھر عمارت چیخ و پکار سی گونجنے لگی اور اپنے ہاتھوں میں کتابیں اٹھائے بچوں کی سماعت فائرنگ کی آوازوں سے متاثر ہوئی تو وہاں افراتفری پھیل گئی۔

حملے کے بعد طالبان دہشت گردوں سے ڈرامائی انداز میں بچ نکلنے والے ایک دس سالہ بچے عرفان شاہ نے بتایا کہ اس کی کلاس کے دو ساتھیوں کو اس کے سامنے گولی مار کر ہلاک کردیا گیا جبکہ گولیاں اس کے سر کے پاس سے چھوتی ہوئی گزر گئیں۔

اس نے کہا کہ صبح کے ساڑھے دس بجے تھے اور وہ اپنی کلاس میں بیٹھا تھا کہ اس نے باہر فائرنگ کی آوازیں سنیں۔

برطانوی اخبار سے بات کرتے ہوئے اس بچے کا کہنا تھا کہ ہماری ٹیچرز نے فائرنگ کی آواز سن کر پہلے تو کہا کہ یہ کسی قسم کی ڈرل ہو رہی ہے اور ہمیں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں مگر جب فائرنگ کا سلسلہ شدت اختیار کرگیا اور آوازیں قریب آنے لگیں اس وقت ہمیں رونے اور چلانے کی آوازیں سنائی دیں اور میرے ایک دوست نے کھڑکی کھول کر باہر دیکھا۔

عرفان کے مطابق "میرا دوست اچانک چیخنے چلانے لگا تھا کیونکہ اسکول کے متعدد طالبعلم کلاس کے باہر گرے ہوئے تھے اور اس کے بعد افراتفری پھیل گئی اور دو بچے اسی عالم میں کلاس سے باہر بھاگے جنھیں ہمارے سامنے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا"۔

اس بچے نے بتایا کہ ٹیچر نے 33 بچوں پر مشتمل کلاس کو اسکول کے عقبی دروازے کی جانب بھاگنے کا کہا جو کہ ہماری کلاس سے دو سو میٹر کے فاصلے پر تھا، میں نے اپنے دوست دانیال کا ہاتھ سختی سے تھام رکھا تھا اور ہم دروازے کی جانب بھاگتے ہوئے رو رہے تھے، دو بار گولیاں میرے سر کو چھوتی ہوئی گزریں اور وہ سب بہت دہشت ناک تھا۔

عرفان کا کہنا تھا "ہم ایک منٹ تک عقبی دروازے تک پہنچ گئے تھے اور جب ہم وہاں سے باہر نکلے تو بلند آواز میں رونے لگے جس پر ایک قریبی گھر میں موجود خاتون باہر آئیں اور ہمیں اندر لے گئیں، ہم کانپ رہے تھے تو انہوں نے ہمیں پانی دیا اور تسلی دی جس کے بعد ہم پندرہ منٹ تک وہاں رہے"۔

ایک انیس سالہ نوجوان عامر سہیل خان نے بتایا کہ وہ آرمی پبلک اسکول سے چند کلومیٹر دور واقع اپنے کالج میں تھا کہ اسے فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں۔

اس نے بتایا کہ اس وقت صبح کے گیارہ بجے تھے جب میرے چچا نے فون کرکے مجھے اسکول پہنچ کر اپنے کزنز کے بارے میں جاننے کا کہا اور جب میں وہاں پہنچا تو فوج نے تمام شاہراﺅں اور گلیوں کو بند کردیا تھا۔

اس کا مزید کہنا تھا کہ وہ اسکول کے مرکزی دروازے کے سامنے پہنچا تو ساڑھے بارہ بج رہے تھے جہاں اس نے کچھ فوجیوں کو ایک فوجی وردی میں ملبوس نوجوان کو گھیرے میں لیتے دیکھا اور وہ جیسے ہی قریب پہنچے زوردار دھماکہ ہوا کیونکہ وہ نوجوان بھی دہشت گرد ہی تھا اور یہ بہت ہی خوفناک منظر تھا۔

عامر سہیل کے مطابق اس نے دہشت گردوں کو اسکول کی دوسری منزل پر اندھا دھند فائرنگ کرتے بھی دیکھا اور نظر آرہا تھا کہ وہ کمروں میں جاکر ہر چیز پر گولیاں برسا رہے ہیں، پھر میں نے کراہنے کی آوازیں سنیں جو اچانک ہی خاموش بھی ہوگئیں جس کا مطلب تھا کہ بچے یا تو مرگئے ہیں یا بے ہوش ہوگئے ہیں۔

اسی طرح محمد منیب نے بتایا کہ اس کے چودہ سالہ بھائی محمد شہیر کو اس کی آنکھوں کے سامنے گولی مار کر اس وقت ہلاک کردیا گیا جب وہ دونوں دیگر دو سو طالبعلموں کے ساتھ آڈیٹوریم میں بیٹھے فرسٹ ایڈ کی تربیت لے رہے تھے۔

اس نے بتایا کہ دو محافظ بھی سامنے ایک ڈیسک پر بیٹھے تھے پھر سیاہ کپڑوں میں ملبوس چار افراد بھاگتے ہوئے آئے اور اندھا دھند فائرنگ شروع کردی اور جس چیز کو سب سے پہلے انہوں نے نشانہ بنایا وہ وہاں موجود محافظ تھے جو موقع پر ہی ہلاک ہوگئے، جس کے بعد انہوں نے طالبعلموں پر فائرنگ شروع کردی۔

اسکول کے ایک رضاکار نے نام چھپانے کی شرط پر آڈیٹوریم میں فائرنگ کے واقعے کا احوال سنایا "میں مختلف اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتا ہوں اور جو میں نے یہاں دیکھا وہ ناقابل بیان ہے، میں اس وقت آڈیٹوریم میں تھا جب دہشت گردوں نے دھاوا بولا، اس وقت صبح کے ساڑھے دس بجے تھے اور دہشت گرد اپنی رائفلوں سے جنونی انداز میں فائرنگ کررہے تھے، اس وقت آڈیٹوریم میں دو سو کے لگ بھگ بچے موجود تھے۔

اسکول واقعے میں زخمی ہونے والے ایک طالبعلم عبداللہ جمال نے بتایا کہ وہ آٹھویں، نویں اور میٹرک کے طالبعلموں کے ساتھ فرسٹ ایڈ کی تربیت لے رہا تھا اور پاک فوج کی ایک ٹیم اس سلسلے میں ہماری مدد کررہی تھی، اسی دوران حملہ ہوا۔

اس کا کہنا تھا کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تو اس کی ٹانگ پر بھی گولی لگی مگر کچھ سیکنڈ تک تو کسی کی سمجھ ہی نہیں آیا کہ یہ کیا ہورہا ہے پھر میں نے بچوں کو گرتے دیکھا جو رونے کے ساتھ چلا بھی رہے تھے، میں بھی گرگیا اور پھر مجھے معلوم ہوا کہ میری ٹانگ میں گولی لگی ہے۔

ایک طالبعلم جو اس واقعے میں بچنے میں کامیاب رہا، اس کا کہنا تھا کہ فوجی طالبعلموں کی مدد کے لیے اس وقت آئے جب فائرنگ میں وقفہ آیا تھا اور جب ہم کلاس سے باہر آئے تو ہم نے اپنے چار دوستوں کی لاشیں دیکھیں جو خون سے لت پت تھیں، جن میں کچھ کو تین اور کچھ کو چار بار گولیاں ماری گئیں۔

اس کا کہنا تھا کہ دہشت گرد ایک ایک کرکے کمروں میں داخل ہوتے اور طالبعلموں اور اساتذہ پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردیتے۔

تبصرے (2) بند ہیں

mubashar subhani Dec 18, 2014 09:54am
it is a brutal act and the responsible must be dealt with iron handed
Libra Dec 18, 2014 05:17pm
speachless