سندھ کا شہر اروڑ، جو کبھی عظمت کا نشان تھا

فاروق سومرو


مشرقی ہندوستان سے ملحق اندرون سندھ کو دریائے سندھ کے زرخیر میدانوں اور ریتیلے ٹیلوں کی بناء پر جانا جاتا ہے مگر یہاں ایسے چٹانی سلسلے بھی موجود ہیں جو اسے بالکل منفرد شکل دیتے ہیں۔

یہ چٹانیں روہڑی اور خیرپور کے اضلاع میں دیکھی جاسکتی ہیں اگرچہ یہاں آبادی کافی کم ہے مگر پھر بھی بڑی تعداد میں سیاح یہاں کے چند اہم مقامات جیسے مزارات، مندروں اور خیرپور میں واقع معروف کوٹ ڈیجی قلعے کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔

یہ چٹانیں ہمیشہ سے ایسی بنجر نہیں تھیں اور روہڑی کے مشرق میں چند کلومیٹر دور کوشش کرکے آپ دریا کے پرانے کینالوں کے آثار تلاش کرسکتے ہیں درحقیقت جب محمد بن قاسم نے سندھ کو فتح کیا تو یہ اقتدار کا مرکز خطہ تھا۔

تاہم 962 عیسوی میں آنے والے ایک طاقتور زلزلے نے اس خطے میں تباہی مچائی اور مانا جاتا ہے کہ اسی زلزلے کے نتیجے میں دریائے سندھ کا راستہ بھی تبدیل ہوگیا جس نے اس علاقے کی قسمت کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔

یہاں بچ جانے والا اسٹرکچر آہستہ آہستہ مٹتا چلا گیا اور اب ایک مسجد جس کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ اسے محمد بن قاسم کے حکم پر تعمیر کیا گیا، یہاں کھڑی بیتے وقت کی داستان بیان کرتی ہے۔

مگر یہاں کچھ مقامات ایسے ہیں جنھیں اس اجاڑ سمجھے جانے والےشہر اروڑ میں دیکھنا ضروری ہوتا ہے، ان میں سب سے پہلے نمبر پر ایک قدرتی غار میں واقع کالکان دیوی کا مندر ہے۔

یہ مندر پاکستان میں رہائش پذیر ہندوﺅں کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے اور کہا جاتا ہے کہ کالکان دیوی ہنگلاج یاترا کے دوران یہاں ظاہر ہوئی تھی۔

یہاں روہڑی بائی پاس کے ذریعے پہنچا جاسکتا ہے۔ اروڑ کے " محمد بن قاسم پبلک اسکول" سے آپ کو بائیں جانب مڑ کر دو سے تین کلو میٹر ڈرائیو کرنا ہوگی جس کے بعد آپ وہ سڑک تلاش کرسکیں گے جس کا اختتام اس مندر پر ہوتا ہے۔

غار میں موجود اس مندر میں متعدد کمرے تعمیر کیے گئے ہیں جن میں سے کچھ عبادت کے لیے وقف ہے جبکہ دیگر یہاں آنے والوں کو رہائشی سہولیات فراہم کرنے کے لیے ہیں جن کی تعداد ہندو تہواروں کے موقع پر ہزاروں تک پہنچ جاتی ہے۔

غار کے داخلے پر موجود ایک کمرہ بمشکل چھ فٹ اونچا ہوگا، یہاں فرش کو ٹائلوں سے مزئین کیا گیا ہے مگر آپ کو اپنے سر کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ یہاں سے دو سرنگیں آگے جارہی ہیں جو یہاں کے منتظم کے مطابق غار میں واقع اس مندر کو ہنگلاج سے منسلک کردیتی ہے۔

ہم نے وہاں موجود سوراخ کو دیکھا جس میں بمشکل ایک شخص فٹ آسکتا تھا۔

یہاں پھیلی بو اور اگربتیوں کا دھواں اس جگہ میں ایک پراسرار سی مہک پیدا کردیتا ہے۔ یہاں کا پروہت پتھر سے بنے پلیٹ فارم پر بیٹھا ہوتا ہے جس کے قریب ہی شعلہ فشاں کالکان دیوی کا مجسمہ رکھا ہے، جس کے ایک ہاتھ میں کٹار (خنجر نما ہتھیار) اور دوسرے میں کٹا ہوا سر تھا۔

اس پروہت کے پاس سے گزر کر آپ دوسری سرنگ کو دیکھ سکتے ہیں اور آگے بڑھنے پر سمادھی میں داخل ہوجاتے ہیں۔ ہم وہاں پروہت کے ساتھ بیٹھ کر چائے پینے لگے جو کہ یہاں کے لوگوں کے لیے کافی حیرت کا باعث بنا۔

مندر سے کچھ منٹ کی ڈرائیو پر ایک ٹیلے پر تعمیر کی گئی مسجد کے آثار موجود ہیں جسے محمد بن قاسم کے حکم پر تعمیر کیا گیا تھا اور اسے راجا داہر کے بیٹے کو شکست کے بعد مسلم فاتح کی اتھارٹی کی علامت قرار دیا گیا تھا۔

بدقسمتی سے اب اس مسجدی کا بہت کم حصہ ہی باقی بچا ہے مگر ہمارے لیے حیرت انگیز امر وہاں موجود کچھ جائے نماز اور اوپر ایک اسپیکر لگا ہونا تھا جس سے عندیہ ملتا تھا کہ یہ مسجد اب بھی کام کررہی ہے۔

مسجد سے کچھ دیر مزید ڈرائیو کے بعد آپ ایک لنک روڈ پر پہنچ جاتے ہیں جو کہ روہڑی اور خیرپور کے متعدد دیہات کو ایک دوسرے سے جڑتا ہے یہاں سے بائیں جانب ڈرائیور کرنے پر آپ خیرپور پہنچ جاتے ہیں۔

یہ روڈ زرخیر زمین اور بنجر چٹانی منظر کے درمیان سرحد کا کام بھی کرتی ہے۔

اس روڈ پر ڈرائیو کرنے پر کچھ دیر بعد آپ کو بائیں ہاتھ پر ایک تنہا کھڑی چٹان نظر آتی ہے یہ کوئی قدرتی عجوبہ نہیں بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ایک شوپیس ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ یہ زلزلے کے جھٹکوں کا نتیجہ ہے۔

اروڑ میں چٹان شاہ جی تخیل کو جلا دیتی ہے لوگوں کو اپنی موجودگی ثابت کرنے کے لیے لیجنڈز کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک دس فٹ لمبی قبر جس کے ارے میں مانا جاتا ہے کہ یہ حضرت علی کے ایک ساتھی کی ہے،جس کا نام بھی اتفاق سے علی ہی تھا، یہاں موجود ہے۔

روایات کے مطابق علی نے کالکان دیوی کے خلاف شدید جنگ کے بعد کامیابی حاصل کی تھی اور اس کی تلوار کے واروں سے چٹان کے چہرے پر عجیب سے کٹائو ابھر آئے۔

اس چٹان پر چڑھنا آسان کام نہیں ، ایک چھوٹا سا زینہ آپ کو پہلے لیول تک تو لے جاتا ہے مگر مزید آگے بڑھنے کے لیے آپ کو اسے خود کو چپکانا پڑتا ہے، کچھ وقت کے بعد آپ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکتے ہیں مگر اوپر چڑھنا مزید مشکل ہوجاتا ہے اور آپ کو مختلف حصوں پر چھلانگ لگانا پرتی ہے کیونکہ یہ چٹان عجیب پراسرار انداز میں کٹی ہوئی ہے۔

اس چٹان کے اوپر ایک چھوٹی سی عمارت کا اسٹرکچر ہے جو ممکنہ طور پر مسجد کے طور پر استعمال کی جاتی تھی۔ چٹان کے اوپر سے نیچے کا نظارہ سانسیں روک دینے والا ہوتا ہے کیونکہ ایک طرف آپ کو اروڑ کا خالی پن نظر آتا ہے تو دوسری جانب دریائے سندھ کے پانیوں سے لہلہاتے سرسبز میدان دعوت نظارہ دے رہے ہوتے ہیں۔

یہ کیمپنگ کے لیے ایک اچھا مقام ثابت ہوسکتا ہے مگر اس علاقے کی خراب سیکیورٹی صورتحال سے خطرات موجود رہتے ہیں اور لوگ سورج غروب ہونے سے قبل واپس جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

یہ علاقہ ماضی میں بہت زیادہ تنازعات کو دیکھ چکا ہے اور اب بھی اس میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔

ہم چٹان کے اوپر سکوت میں بیٹح گئے اور تیز ہوا کی سرگوشیوں سے وہاں کی داستانیں سننے لگے۔ وہاں اتنا سکوت تھا کہ دور دراز کے کھیتوں پر بجنے والی گھنٹوں کو بھی ہم نے سن لیا۔

ہم نے وہاں سے لیمپوں کی مدھم اور تھرتھراتی روشنیوں کو بھی دیکھا جو سورج کو مغرب کی جانب جھکتا دیکھ کر روشن کردیئے گئے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ ایک دوست نے مجھے بتایا تھا کہ لوگ شہروں میں تنہائی سے تلاش کرسکتے ہیں مگر ایسا سکون نہیں اور یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ اسی وجہ سے متعد صوفیوں نے اس منظر کے متعدد حصوں کو اپنے دائمی مسکن کے لیے منتخب کیا۔