کنیز فاطمہ: تیزاب جسے خاموش نہ کر سکا

24 جنوری 2015
کنیز فاطمہ کو رشتے سے انکار پر تیزاب کا نشانہ بنایا گیا، پر انہوں نے خاموش رہنے کے بجائے لڑنا پسند کیا — رائٹرز
کنیز فاطمہ کو رشتے سے انکار پر تیزاب کا نشانہ بنایا گیا، پر انہوں نے خاموش رہنے کے بجائے لڑنا پسند کیا — رائٹرز

لاہور کا نولکھا بازار صوبائی دارالحکومت کے کئی خریداری مراکز میں سے ایک ہے۔ جس زیور پر اس بازار کا نام قائم ہے، اس کے برعکس یہ بازار اب بیرونِ ممالک سے لائے گئے استعمال شدہ کپڑوں کے لیے زیادہ مشہور ہے۔

غربت و شرم کے احساس تلے دبے ہوئے خریدار استعمال شدہ کپڑوں پر بھی بھاؤ تاؤ کرتے نظر آتے ہیں۔ کپڑے کے ڈھیر میں سے کھنگالنے کے بعد آخر تن ڈھانپنے کے لیے سائز یا رنگ کی پرواہ کیے بغیر کچھ نکال ہی لیا جاتا ہے۔

بازار کا حصہ ایک دوسری طرح کے مشکوک خریداروں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ یہ لوگ بے ضرر نظر آنے والے ایک بے رنگ پانی کی تلاش میں آتے ہیں، جسے گندھک کا تیزاب، یا صرف تیزاب بھی کہا جاتا ہے۔ ویسے تو یہ تیزاب صنعتی و دیگر کاموں میں استعمال ہوتا ہے، لیکن کچھ لوگ اسے اپنی مرضی کے مطابق بدلہ لینے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔

کنیز فاطمہ بھی ایسے ہی ایک بدلے کی زد میں آئیں، لیکن دوسرے تمام لوگوں کی طرح انہوں نے خاموشی کے ساتھ سہنے کو ترجیح نہیں دی۔

پڑھیے: تیزابی حملوں سے متاثرہ لڑکیوں نے کھولا کیفے

ایک پاکستانی عدالت کا منظر صرف دیکھنے والے کو بھی پریشان کر سکتا ہے، مقدمات لڑنے والوں کی تو بات ہی دور کی ہے۔ فلموں کے برعکس مقدمات تھکے ہوئے فریقین اور شور کرتے وکلا کے ساتھ بوسیدہ کمروں میں تکلیف دہ حد تک سستی سے چلتے ہیں۔

خواتین کو صرف خاندانی کیسز یا طلاق کے معاملوں میں عدالت میں دیکھا جاتا ہے۔ کمرہ عدالت کے بیچوں بیچ 17 سالہ لڑکی کی موجودگی حیران کن ہوسکتی ہے۔

اور کنیز فاطمہ ہی وہ لڑکی تھی۔

اس کی حیران کن موجودگی کو مزید غیر معمولی اس کے زخموں کی تازگی نے بنا دیا تھا۔ یہ ٹین ایجر لڑکی کسی کی پرواہ نہ کیے بغیر لاہور کی انسدادِ دہشتگردی عدالت پہنچ گئی اور اعتماد کے ساتھ خود پر ہونے والے ظلم کی داستان بیان کی۔ اس دوران لوگ اسے سوالیہ اور زہر آلود نگاہوں سے گھورتے رہے۔

غریب پاکستانی خواتین کی زندگیوں میں زندگی تبدیل کرنے والے لمحات اکثر مشکلات اور درد میں اضافہ ہی کرتے ہیں۔ کنیز فاطمہ کے لیے یہ لمحہ 24 اپریل 2014 میں آیا۔

اس کی شادی ہونے والی تھی، لیکن کسی پریوں کی کہانی کی طرح کوئی شہزادہ اسے لینے نہیں آیا۔ کوئی پیلا جوڑا نہیں، کوئی ہری چوڑیاں نہیں۔ اسے ملا تو صرف تیزاب کا ایک وحشیانہ چھڑکاؤ، جس سے فوراً اس کی کھال جلنے لگی۔

اور اس اقدام کے پیچھے ایک پرانی اور مشہور وجہ تھی۔ ایک کھاتے پیتے گھرانے نے اس کا ہاتھ مانگا تھا، لیکن اس کے والدین نے انکار کردیا۔ لڑکے کے والد کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ انہوں نے مسئلے کو روایتی طور پر کلہاڑی یا بندوق سے سلجھانے کے بجائے لڑکی کو ایسی سزا دینے کا سوچا، جو ان کے مغرور انکار کے لیے بالکل موزوں تھی۔

وہ بااثر تھے، چنانچہ انہوں نے دو غنڈوں کو پیسے دے کر یہ کام کرنے پر راضی کر لیا۔ غنڈوں نے مرکزی ملزم کی نظروں کے سامنے اس منصوبے کو عملی جامہ تب پہنایا، جب کنیز فاطمہ اپنی بڑی بہن کے ساتھ خریداری سے واپس لوٹ رہی تھی۔

تیزاب نے وہی کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا: جلانا، زخمی کرنا، اور شکل بگاڑ دینا۔

مزید پڑھیے: تیزاب کے حملے، بلوچستان میں خواتین خوفزدہ

اس کے جسم کا چالیس فیصد حصہ جھلس گیا اور وہ بے ہوش ہوگئی، مگر خوش قسمتی سے بچ گئی۔ پولیس نے دونوں کرائے کے مجرموں اور مرکزی ملزم کو گرفتار کر لیا۔

لیکن مرکزی ملزم رضوان الحق کو اپنے اس گھناؤنے جرم کے ارتکاب پر کوئی افسوس نہیں ہے۔

شدید دباؤ کے باوجود کنیز فاطمہ اور اس کے گھرانے نے کیس لڑنے کا فیصلہ کیا، بھلے ہی ان کی راہ میں کئی جسمانی و سماجی رکاوٹیں، اور ایک پیچیدہ قانونی نظام میں کیس چلوانے جیسا مشکل کام حائل تھا۔

اس حملے نے فاطمہ کی ہمت کو ذرا بھی کم نہیں کیا۔

اس نے تمام حدود کو پار کرتے ہوئے پورا واقعہ بیان کیا، اور ذمہ داران کے خلاف سزا کا مطالبہ کیا۔ سخت سوالات اور ضمانت پر رہا ملزم کی جانب سے مزید تشدد کی دھمکیاں بھی اسے روک نہ سکیں۔ نہ ہی غیر اخلاقی لڑکی ہونے کا لیبل اسے روک سکا۔

ایک ایسا ملک جہاں خواتین پر حملوں کے کیسز میں ملزمان اکثر متاثرین اور گواہوں کے پیچھے ہٹ جانے کے باعث بری ہوجاتے ہیں، وہاں ایسا قدم اٹھانا معمولی کام نہیں ہے۔

تیزاب متاثرین کو ہمیشہ کے لیے الگ تھلگ کردیا جاتا ہے۔

جو باہمت ہاتھ انصاف کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں، وہ قانونی پیچیدگیوں میں کہیں الجھ کر رہ جاتے ہیں، اور ملزمان قانونی موشگافیوں کی وجہ سے نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ لیکن متاثرین ایسے چھوڑ دیے جانے کے مستحق نہیں ہیں۔

ہماری بے یار و مددگار خواتین کے سامنے یہ مشکل حالات روز ہی موجود ہوتے ہیں۔ گولی، کلہاڑی، پتھر، آگ، زیادتی، اور ڈنڈا کسی بھی وقت ان پر قہر ڈھا سکتا ہے۔ نفرت، جہالت، تنگ نظری، غصہ، اور ناانصافی ان پر کسی بھی وقت برس سکتی ہے۔

اس دنیا کی کنیز فاطماؤں کو انصاف صرف تب ہی ملے گا، جب خواتین کے خلاف فخر سے ہتھیار اٹھائے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں سے یہ ہتھیار چھینے جائیں گے۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

madiha Jan 25, 2015 06:26pm
hidayat ka rasta dikahy ALLAH ap ko himat aur hosla say..aur is mulk kay nizam chalany walon ko