محترمہ فاطمہ جناح بانی پاکستان محمد علی جناح کی نہ صرف خیال رکھنے والی مشفق بہن بھی تھیں بلکہ وہ جناح صاحب کی سیاسی شریک کار بھی تھیں۔ جناح صاحب کی وفات کے بعد لوگ انہیں اسی قدر منزلت سے دیکھتے تھے جس طرح جناح صاحب کو۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جناح صاحب کی وفات کے بعد انہیں سیاست سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔

حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کی حکومت اور انتظامیہ کسی صورت بھی نہیں چاہتی تھی کہ فاطمہ جناح آزادی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرسکیں۔ اس کوشش میں وہ اس حد تک آگے بڑھ گئے تھے کہ ریڈیو پاکستان سے ان کی تقریر کے دوران کچھ مواقع پر نشریات روک دی گئیں۔ قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب شہاب نامہ کے صفحہ نمبر 432 مطبوعہ جنوری 1986 باب چہارم میں لکھتے ہیں کہ:

قائد اعظم کی وفات کے بعد محترمہ مِس فاطمہ جناح اور حکومت کے درمیان سرد مہری کا غبار چھایا، اور قائد کی دو برسیاں آئیں اور گزر گئیں۔ دونوں بار مِس جناح نے برسی کے موقع پر قوم سے خطاب کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کی شرط یہ تھی کہ براڈ کاسٹ سے پہلے وہ اپنی تقریر کا متن کسی کو نہیں دکھائیں گی، جبکہ حکومت شرط ماننے پر آمادہ نہیں تھی۔ غالباً اسے خوف تھا کہ نہ جانے مِس جناح اپنی تقریر میں حکومت پر کیا کچھ تنقید کر جائیں گی۔

آخر خدا خدا کر کے قائد اعظم کی تیسری برسی پر یہ طے پایا کہ محترمہ فاطمہ جناح اپنی تقریر پہلے سے سنسر کروائے بغیر ریڈیو سے براہ راست نشر کرسکتی ہیں۔ تقریر نشر ہورہی تھی کہ ایک مقام پر پہنچ کر اچانک ٹرانسمیشن بند ہوگئی۔ کچھ لمحے ٹرانسمیشن بند رہی، اس کے بعد خود بہ خود جاری ہوگئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ مِس جناح کی تقریر میں کچھ فقرے ایسے تھے جن میں حکومت پر کچھ تنقید تھی۔ وہ تو بدستور ان فقروں کو مائک پر پڑھتی گئیں، لیکن ٹرانسمیشن بند ہوجانے کی وجہ سے وہ فقرے براڈ کاسٹ نہ ہوسکے۔

اس بات پر بڑا شور شرابا ہوا۔ اخباروں میں بہت سے احتجاجی بیانات بھی آئے۔ اگرچہ ریڈیو پاکستان کا مؤقف یہی تھا کہ ٹرانسمیشن میں رکاوٹ کی وجہ اچانک بجلی فیل ہونا تھی، لیکن کوئی اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہ تھا۔ سب کا یہی خیال تھا کہ مس جناح کی تقریر میں ضرور کوئی ایسی بات تھی جسے حذف کرنے کے لیے یہ سارا ڈھونگ رچایا گیا ہے۔ اس ایک واقعے نے حکومت پر اعتماد کو جتنی ٹھیس پہنچائی اتنا نقصان مس فاطمہ جناح کے چند تنقیدی جملوں نے نہیں پہنچایا تھا۔

اب آئیے آگے کی طرف چلتے ہیں۔7 اکتوبر 1958ء کو ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔ کمانڈر انچیف اور خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان کو مارشل لاء کا ناظم مقرر کر دیا گیا۔ حکمران اسکندر مرزا نے یہ سب اس لیے کیا تھا کہ وہ ملک کے حکمران ہوں گے۔ لیکن 24 اکتوبر 1958 کو ایوب خان نے اسکندر مرزا کے تمام اختیارات حاصل کر لیے اور ملک میں فوجی حکومت قائم کر دی۔

ان کے کچھ حاشیہ بردار انہیں مشورہ دے رہے تھے کہ وہ تاحیات صدر بن جائیں۔ حکمران کنونشن مسلم لیگ کی جانب سے صدر ایوب کو صدارتی امیدوار نامزد کیا گیا۔ محترمہ ابتداء میں اس نامزدگی پر آمادہ نہ تھیں لیکن حِزب مخالف کی سیاسی پارٹیوں کے اصرار پر انہوں نے ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخاب لڑنے کی حامی بھرلی۔

2 جنوری 1965ء کو انتخابات ہوئے۔ حزب مخالف کے سیاستدانوں کو اس بات کا مکمل یقین تھا کہ محترمہ کامیاب ہوں گی، لیکن الیکشن کمیشن کے مطابق صدر ایوب کامیاب قرار دیے گئے۔ غالباً حکومت اور محترمہ مِس فاطمہ جناح کے درمیان انہی کشیدگیوں کی وجہ سے انتقال کے بعد مزارِ قائد کے احاطے میں دفن کیے جانے کی ان کی خواہش کے باوجود کوشش یہ ہوتی رہی کہ انہیں کراچی کے قدیم میوہ شاہ قبرستان میں دفن کیا جائے۔

اس حوالے سے آغا اشرف اپنی کتاب ”مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح“ مطبوعہ بار اوّل 2000 کے صفحہ نمبر 184 پر لکھتے ہیں: 'محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی زندگی میں یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ مرنے کے بعد انہیں قائد اعظم کے پاس دفن کیا جائے۔ اب محترمہ فاطمہ جناح کی وفات کے بعد یہ مسئلہ پیش آیا کہ انہیں کس جگہ دفن کیا جائے۔ بقول مرزا ابو الحسن اصفہانی صاحب اس وقت کی حکومت محترمہ کو میوہ شاہ قبرستان میں دفنانا چاہتی تھی (ایم اے ایچ اصفہانی انٹرویو 14 جنوری 1976 کراچی) جس کی مخالفت کی گئی اور کمشنر کراچی کو متنبہ کیا گیا کہ اگر محترمہ فاطمہ جناح کو قائد اعظم کے مزار کے قریب دفن نہ کیا گیا تو بلوہ ہو جائے گا۔

'یہ فیصلہ تو ہو گیا کہ محترمہ فاطمہ جناح کو بلوے کے خدشے کے پیشِ نظر مزار قائد کے احاطے میں دفن کیا جائے، لیکن اس کے باوجود ان کی تدفین کے موقع پر بلوہ ہوا۔ بلوے میں کیا کیا ہوا اس کا ذکر آگے کریں گے۔ آغا اشرف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ:

'اس طرح انہیں قائد اعظم کے مقبرے کے قریب دفن کرنے کے لیے کمشنر کراچی نے ان کے خاندان کے افراد اور بانی پاکستان کے پرانے ساتھیوں سے مشورہ کیا، اور پھر حکومت سے رابطہ قائم کیا۔ حکومت نے رات دیر گئے مادرِ ملت کو قائد اعظم کے پاس دفن کرنے کا فیصلہ کیا۔ کمشنر کراچی نے اس فیصلے سے ایم اے ایچ اصفہانی کو آگاہ کر دیا۔

'مادر ملت کی قبر قائد اعظم کے مزار سے ایک سو بیس فُٹ دور بائیں جانب کھودی گئی۔ قبر ساڑھے چھ فٹ لمبی اور تین فٹ چوڑی تھی۔ زمین پتھریلی تھی اس لیے گورکنوں کو قبر کھودنے میں پورے 12 گھنٹے لگے، جبکہ بعض اوقات انہیں بجلی سے چلنے والے اوزاروں سے زمین کھودنی پڑتی۔

'بیس گورکنوں کی قیادت ساٹھ سالہ عبدالغنی کر رہا تھا، جس نے قائد اعظم، لیاقت علی خان اور سردار عبدالرب نشتر کی قبریں تیار کی تھی۔ مرحومہ کی پہلی نمازِ جنازہ قصرِ فاطمہ میں ساڑھے آٹھ بجے مولانا ابنِ حسن چارجوئی نے پڑھائی اور پھر جب ان کی میت پونے نو بجے قصرِ فاطمہ سے اٹھائی گئی تو لاکھوں آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔ قصرِ فاطمہ کے باہر دور دور تک انسانوں کا سمندر نظر آرہا تھا۔ میت کو کندھوں پر اٹھایا گیا تو ہجوم نے مادرِ ملت زندہ باد کے نعروں کے ساتھ آگے بڑھنا شروع کر دیا۔

'جنازے کے پیچھے مرکزی حکومت اور صدر ایوب کے نمائندے شمس الضحیٰ وزیر زراعت خوراک، بحریہ کے کمانڈر انچیف ایڈمرل ایم احسن، دونوں صوبوں کے گورنروں کے ملٹری سیکریٹری، کراچی کے کمشنر، ڈی آئی جی کراچی، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اور تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما سر جھکائے آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح کی میت ایک کھلی مائیکرو وین میں رکھی گئی تھی۔ اس کے چاروں طرف مسلم لیگ کے نیشنل گارڈز کے چار سالار کھڑے تھے۔ ایک عالم دین بھی موجود تھے۔ جو سورہ یاسین کی تلاوت کر رہے تھے۔ غم و اندوہ میں ڈوبا ہوا یہ جلوس جب ایک فرلانگ بڑھ گیا تو مسلم لیگ نیشنل گارڈز نے ایک قومی پرچم لا کر مرحومہ کے جسد خاکی پر ڈال دیا۔

'لوگوں نے جب مادر ملت کو ستارہ ہلال کے سبز پرچم میں لپٹے ہوئے دیکھا تو پاکستان زندہ باد، مادر ملت زندہ باد کے نعروں سے خراج عقیدت پیش کیا۔ جلوس جوں جوں آگے بڑھتا رہا، لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ راستے میں چھتوں سے عورتیں مادر ملت کے جنازے پر پھول کی پتیاں نچھاور کر رہی تھیں۔ جلوس دس بجے پولو گراؤنڈ پہنچ گیا جہاں میونسپل کارپوریشن نے نماز جنازہ کا انتظام کیا تھا۔ وہاں جنازہ پہنچنے سے پہلے ہزاروں لوگ جمع ہو گئے تھے۔ دوسری نماز جنازہ مفتی محمد شفیع نے پڑھائی۔ نماز جنازہ کے بعد میت کو دوبارہ گاڑی میں رکھ دیا گیا۔ اب ہجوم لاکھوں تک پہنچ چکا تھا۔

'قائد اعظم کے مزار کے قریب محترمہ کا جنازہ میوزیکل فونٹین اور ایلفنسٹن اسٹریٹ (زیب النساء اسٹریٹ) سے ہوتا ہوا جب آگے بڑھا تو ہجوم کی تعداد چار لاکھ تک پہنچ گئی اور پولیس کو جنازے کے لیے راستہ بنانا مشکل ہوگیا۔

'عورتوں، بچوں اور مردوں کا ایک سیلاب تھا جو قائد اعظم کے مزار کی جانب بڑھ رہا تھا۔ راستے میں میت پر پھول کی پتیاں نچھاور کی جاتی رہیں۔ لوگ کلمہ طیبہ، کلمہ شہادت اور آیات قرآنی کی تلاوت کر رہے تھے۔ جنازے کا جلوس جب مزارِ قائد کے احاطے میں داخل ہوا تو سب سے پہلے وزیرِ خارجہ شریف الدین پیرزادہ نے اسے کندھا دیا۔

'اس وقت دوپہر کے بارہ بجے تھے اور لوگوں کی تعداد چھ لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی کیونکہ مادر ملت کی موت پر تمام دکانیں، تعلیمی ادارے، سرکاری دفاتر، سنیما گھر وغیرہ بند تھے اور حکومت کی طرف سے عام تعطیل ہونے کے باعث اہل کراچی نے بانی پاکستان کی ہمشیرہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کے لیے ان کے جنازے کے جلوس میں شرکت کی تھی۔ اس بے پناہ ہجوم کے باعث گڑبڑ یقینی تھی۔

'اچانک کچھ لوگوں نے جنازے کے قریب آنے کی کوشش کی۔ پولیس نے پر امن طریقے سے انہیں پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی تو ایک ہنگامہ برپا ہوگیا اور پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ آنسو گیس کا استعمال کیا۔ جوابی کارروائی میں پولیس پر پتھراؤ ہوا۔ پولیس کے کئی سپاہی زخمی ہوئے۔ ایک پیٹرول پمپ اور ڈبل ڈیکر کو آگ لگا دی گئی۔ ایک شخص اس حادثے کا شکار ہوا اور کئی بچے عورتیں اور مرد زخمی ہوئے۔

'یہ سب کچھ عین اس وقت پر ہوا جب محترمہ سے ابدی جدائی کے غم میں ہر شخص سوگوار تھا۔ محترمہ فاطمہ جناح کی نماز جنازہ میں پانچ لاکھ افراد کا اجتماع زبردست خراج تحسین ہے۔ بارہ بج کر پینتس منٹ پر کے ایچ خورشید اور ایم اے ایچ اصفہانی نے لرزتے ہاتھوں، کپکپاتے ہونٹوں اور بھیگی ہوئی آنکھوں کے ساتھ خاتونِ پاکستان کے جسد خاکی کو قبر میں اتارا۔ جونہی میت کو لحد میں اتارا گیا، ہجوم دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ تدفین کی آخری رسومات میں شیعہ عقیدے کے مطابق تلقین پڑھی گئی۔ جس میں فاطمہ بنت پونجا پکارا گیا۔ قبر کو آہستہ آہستہ بند کیے جانے لگا اور 12 بج کر 55 منٹ پر قبر ہموار کر دی گئی۔'

یہ تو تھی محترمہ فاطمہ جناح کی موت اور تدفین کی کہانی، لیکن فاطمہ جناح کی موت پورے معاشرے کے لیے ایک عجب کہانی تھی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ محترمہ کی موت طبعی طریقے سے نہیں ہوئی بلکہ انہیں قتل کیا گیا تھا۔ جنوری 1972 میں غلام سرور نامی ایک شخص نے محترمہ فاطمہ جناح کے حوالے سے عدالت میں ایک درخواست سماعت کے لیے دائر کی۔ اس درخواست کے حوالے سے اخبارات میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ایڈیشنل سٹی مجسٹریٹ ممتاز محمد بیگ نے ایک شخص غلام سرور ملک کی دفعہ 176 ضابطہ فوجداری کے تحت درخواست کی سماعت کے لیے 17جنوری کی تاریخ مقرر کی ہے۔

غلام سرور ملک نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ میں پاکستان کا ایک معزز شہری ہوں اور محترمہ فاطمہ جناح سے مجھے بے انتہا عقیدت ہے، مرحومہ قوم کی معمار اور عظیم قائد تھیں۔ انہوں نے تمام زندگی جمہوریت اور قانون کی سربلندی کے لیے جدوجہد کی۔ 1964 میں جب انہوں نے صدارتی انتخابات میں حصہ لیا تو وہ عوام کی امیدوں کا مرکزبن گئیں۔ وہ اس ٹولے کی راہ میں جو ہر صورت اقتدار سے چمٹا رہنا چاہتا تھا، زبردست رکاوٹ تھیں اور یہ ٹولہ ہر قیمت پر ان سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا۔

7 جولائی 1964 کو محترمہ فاطمہ جناح رات کے گیارہ بجے تک ایک شادی میں شریک تھیں اور وہ ہشاش بشاش تھیں جبکہ 9 جولائی کو اچانک یہ اعلان کر دیا گیا کہ وہ انتقال کر گئیں ہیں۔ ان کی تجہیز و تکفین کے وقت عوام کو جنازے کے قریب نہیں جانے دیا گیا اور یہاں تک کہ انہیں سپرد خاک کرنے تک ان کے آخری دیدار کی اجازت بھی نہیں دی گئی تھی۔ اس دوران جو آخری دیدار کرنا چاہتے تھے ان پر لاٹھی چارج کیا گیا اور آنسو گیس پھینکی گئی۔

اس وقت بھی یہ افواہیں عام تھیں کہ محترمہ فاطمہ جناح کے جسم پر زخموں کے نشانات ہیں لیکن ان افواہوں کو دبا دیا گیا۔ غلام سرور ملک نے اپنی درخواست میں کہا کہ مجھے یہ تشویش رہی کہ محترمہ فاطمہ جناح کو کہیں قتل نہ کیا گیا ہو۔ بعد ازاں حسن اے شیخ اور دیگر معزز ہستیوں نے اس سلسلے میں اپنے شک و شبہ کا اظہار بھی کیا تھا اور یہ معاملہ اخبارات میں نمایاں سرخیوں کے ساتھ شائع کیا گیا اور اداریے بھی لکھے گئے۔

2 اگست 1971 میں ایک مقامی اردو روزنامے میں یہ خبر شائع ہوئی کہ محترمہ فاطمہ جناح کو قتل کیا گیا ہے۔ اس خبر میں غسل دینے والوں کے بیانات بھی شائع ہوئے، جس میں ہدایت علی عرف کلو غسال نے یہ کہا تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح کے جسم پر زخموں کے گہرے نشانات تھے اور ان کے پیٹ میں سوراخ بھی تھا جس سے خون اور پیپ بہہ رہی تھی۔ غسال نے کہا تھا کہ محترمہ کے خون آلود کپڑے اس کے پاس موجود ہیں، لیکن اس وقت کی حکومت نے نہ تو اس کی تردید کی اور نہ ہی اس معاملے میں انکوائری کی ہدایت کی گئی۔ اس کے علاوہ اس معاملے کی دیگر غسالوں نے بھی تصدیق کی تھی۔

غلام سرور ملک نے اس سلسلے میں اخبارات کی کاپیاں بھی ثبوت کے طور پر عدالت میں پیش کی ہیں انہوں نے اپنی درخواست کے آخر میں عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے خصوصی اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں عدالتی تحقیقات کرے، اس مقدمہ میں اختر علی محمود ایڈووکیٹ پیروی کر رہے ہیں۔

فاطمہ جناح مادرِ ملت ہیں، اور ان کے جنازے اور تدفین میں ہونے والی یہ بدمزگی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کیونکہ یہ ایک حساس معاملہ ہے، اس لیے ہم نے پوری کوشش کی ہے کہ اسے اپنی سابقہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے پڑھنے والوں کی خدمت میں مکمل تحقیق کے بعد تاریخی حوالوں کے ساتھ پیش کریں، تاکہ کوئی سقم باقی نہ رہ جائے۔

اس مضمون سے ہمارا مقصد کسی بھی شخص، فرد، یا ادارے پر انگلی اٹھانا نہیں۔ ہم نہ ہی یہ کہتے ہیں کہ خدانخواستہ انہیں قتل کیا گیا، اور نہ ہی یہ کہ اس ساری بدمزگی سے کسی نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ ہمارا مقصد صرف ان حقائق کو سامنے لانا تھا جن سے آج کے نوجوانوں کی بڑی تعداد لاعلم ہے۔ ہاں ایک اور سوالیہ نشان یہ ہے کہ جن تحقیقات کے وعدے کیے گئے تھے، وہ وعدے کیا ہوئے؟


نوٹ: محترمہ فاطمہ جناح کی تاریخِ وفات 9 جولائی 1967 ہے، جبکہ وفات کی خبر 11 جولائی کے اخبارات میں شائع ہوئی ہے۔ اس کی وجہ مصنف اختر بلوچ کے نزدیک یہ ہے کہ اس زمانے میں تیز رفتار مواصلات کی عدم موجودگی کے سبب اخبارات دوسرے شہروں تک دیر سے پہنچا کرتے تھے، جس کی وجہ سے اخبار کی لوح اور خبر میں موجود تاریخوں میں دو دن کا فرق ہے، لہٰذا خبر کے ساتھ لکھی گئی تاریخ کو ہی درست تصور کیا جائے۔ (ادارہ)

تبصرے (66) بند ہیں

Imran Jan 20, 2015 01:37pm
amazing
Aamir Jan 20, 2015 02:07pm
An eye opening and astonishing informative article. Excellent work.
Ahsan Jan 20, 2015 02:08pm
haqiqat biyan krny bi darty hn kch log,, wsy os wkt hkumat me jo log thy un k khilaf bat krny ki himmat ni khul kr huq bat kehna boht mushkil hy js ne huq keh diya wo ghadar ya phr ......................................hogya
Kashif Rashid Ali Jan 20, 2015 02:09pm
I just want to know the correct date and year of death because new paper was refereeing date 11th july 1967 and article say it was 9th july 1964
Khalil Ahmed Nasir Jan 20, 2015 02:30pm
Akahter balooch sahib nay pakistan ki taareekh k aik intehay naik aur aham muamlay per tehqeeqi blog tehreer kia hayaurhar sanjeeda moozo ki tarah "سوالیہ نشان یہ ہے کہ جن تحقیقات کے وعدے کیے گئے تھے، وہ وعدے کیا ہوئے؟" kia koi iss ka jawab day sakay ga??
Bilal Jan 20, 2015 02:49pm
@Kashif Rashid Ali اس زمانے میں اخبارات دوسرے شہروں تک دیر سے پہنچا کرتے تھے جس کی وجہ سے اصل تاریخ اور شائع ہونے کی تاریخ میں فرق موجود ہے۔
Azhar Ul Haq Naseem Jan 20, 2015 02:56pm
باقی سب ٹھیک ہے مگر یہ جنگ اخبار اُس وقت بھی بیس روپے کا تھا ؟؟
Waheed Rajpar Jan 20, 2015 03:07pm
blog perhane ka baed esa legta hai ka muhtarrma fatima jinha ko quaid e azim ka entkal ka baed side line keya gaya aur jis terha ya koshish ke gai ka en ko mewa shah qabierstan mein dafan keya jai, es sa bhoot sare sawal peda hota haien jis sa un ki mot par bhi aek sawaleya neshan banta hai lekin ya hakiqat hai ka es qasem ki maloot serf Dawn .com hi chap sekta hai, thaks Akhtar Baloch
مصطفیٰ مہاروی Jan 20, 2015 04:18pm
پہلی بات تو یہ کہ "محترمہ فاطمہ جناح کی تدفین" کوکسی قصہ یا کہانی کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاھیئے۔ محترمہ فاطمہ جناح کے جسد یا اسکی باقیات آج بھی اُن کی قبر میں موجود ھیں۔ آج کی ترقی یافتہ دور میں اس بات کا پتہ چلایا جا سکتا ھے کی اُن کی اچانک موت کے کیا اسباب تھے، زھر دیا گیا تھا یا موت کی وجہ کیا تھی؟ ٖآج اگر ھزاورں سال قبل بنے مقبروں سے لاشوں کے طبی نمونے حاصل کر کے اُن کے اموات کے اسباب بارے ٹھیک ٹھیک بتایا جا سکتا ھے تو مادر ملت کی موت کا سبب بھی معلوم کیا جا سکتا ھے۔ مزار قائد کے احاطے میں موجود دونوں بہن بھائی مقتول ھیں یا اُن کی موت قدرتی تھی، اسکو ایک دن طے ھونا ھو گا۔
waleed Jan 20, 2015 04:31pm
20 rupay ka nahi 20 paisa ka tha @Azhar Ul Haq Naseem bhai
Abdullah Nizamani Jan 20, 2015 04:36pm
@Azhar Ul Haq Naseem 20 rupee nahin 20 pesa he
Libra Jan 20, 2015 04:52pm
Really an eye opening article... thanks for sharing such informative details ....
Waleed Ehsaan Jan 20, 2015 05:16pm
or haal bhi mazi say kam nahi or lagta kuch yun hai k mustaqbil bhi ghaddaron say bhara hoga, lekin mustakbil hamaray hath me hai hum badal saktay hain apnay mustaqbil ko, lekin mustaqbil ko badalnay k lien pehlay hamen akhtar balouch jesa banna hoga jo sach bolnay ki or apnay farz ko bakhubi nibhanay ki himmat rakhta ho khas kar kay siyasi ma'mlat may jesay akhtar balouch sahab nay kisi ki parwa kiye baghair sachchai hamray samnay rakhi hai . bohat bohat shukriya Dawn.com ka bhi sachchai par mabni behtareen blog chapnay ka. hamaray mulk ki mazi ki tarikh ghaddarun say bhari padri hai
danish khanzada Jan 20, 2015 05:50pm
zabar dast akhter bhai.... ye ap ne ek aise waqye ko ajagar kia he jo qoum ke nazar se ab tak ujhal tha... well done
فائق Jan 20, 2015 06:28pm
@Azhar Ul Haq Naseem 20 پئسہ ہیں 20 روپیہ نہیں
عقیل عباس جعفری Jan 20, 2015 07:29pm
بہت دلچسپ رپورٹ ہے ۔ ایسی رپورٹس گاہے بہ گاہے شائع ہوتی رہنی چاہیے۔ اوپر درج ایک کمنٹ میں پوچھا گیا ہے کہ کیا جنگ اس وقت بھی بیس روپے کا تھا تو برادر یہ بیس روپے نہیں بیس پیسے ہے۔ جنگ تو آج بھی بیس روپے کا نہیں، اس وقت کیسے ہوسکتا تھا۔اس زمانے میں اخبار پر ایک دن آگے کی تاریخ لکھنے کا رواج تھا جو 1978 تک جاری رہا ۔
Usman Riaz Jan 20, 2015 10:26pm
سر یہ قوم ہی لٹیروں نے تباہ کر دی اور جو بھی قتدار میں آیا اُس کو اس کی حوس نے ایسا حواس باختہ کر دیا اسے قوم کے مفاد سے زیادہ دو ٹکے کی عارضی دولت سے عشق ہو گیا۔ آج بھی وہی لٹیریں ہیں وہی سب کچھ ہے یہ قوم منافقوں کے ہاتھو ں یرغمال ہے۔ لیڈر آتے ہیں نیے طریقے سے لوٹ مچا کر چلے جاتے ہیں پھر کوئی نیا اُنہی کے ٹولے میں سے ڈگڈگی بجاتا ہوا آتا ہے اور ستم کی ماری قوم کو ایک اور ستم کا نشان دے جاتا ہے۔ ایسا کب تک ہو گا؟ کیا یہ قوم مردہ ہے؟ یہ بیداری کا وقت ہے دنیا و آخرت میں ترقی کرنے ہے تو ہمیں باہم بھائی چارے کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ آج پھر وہی وقت ہے وہی کام ہیں اٹھیے کہیں پھر ہم بیٹھے ہی نہ رہ جائیں یا اللہ سبحانہ و تعالی تو اس قوم پر رحم فرما یہ لوگ جو حکمران وقت ہیں انہیں وہی عقل سلیم عطا کر دے جو تو نے قرون اولی کے مسلمانوں کو عطا کی تھی انہیں دولت کی حرص نے مار ڈالا ہے مالک انہوں نے دنیا کو سب کچھ مان کر دنیا والوں کا جینا حرام کر دیا ہے مالک انہیں ہدایت دے آمین یا رب العالمین
Khushboo Jan 20, 2015 10:50pm
A well researched article
axfar hussain Jan 21, 2015 02:08am
zaberdast or jamye article with complete proofs waqai ye knowledge bohat hi unique hai or media me is baat ko uthana chahey or insaaf k har taqaze ko pura karna chahey !!
Saleem Naushahi Jan 21, 2015 05:06am
I do not agree that the media was so primitive at that time because Radio Pakitan and News Paper were there and also news Agencies Secondly Ghussal was not a Male which is against the tenants of Islam to wash body of a female by a made This all nonsense
Rashid Jan 21, 2015 09:04am
Jang newpaper was 1 Ruppe in 1984, howcome it became for 20 Rupees in 196?? @Azhar Ul Haq Naseem
hashim Jan 21, 2015 10:33am
عجیب بات ھے دونوں ھی محسنان قوم یعنی قائد ملت اور مادر ملت کے قتل ھونے پر شک ھے ڈر اس بات کا ھےکہ اگر واقعی ایسا ھی ھوا تھا تو کہیں اس گناہ کے سبب تو آج ھمارا پیارا پاکستان پریشانیوں دہشتگردیوں اور شدید بحرانوں کا شکار تو نہیں ھورھا...... ؟؟؟ھل جزاء الاحسان الا الاحسان..... احسان فراموشی نہ رب العزت کوپسند ھے نہ اسکے پاک رسول (ص )کو...
rehan syed Jan 21, 2015 11:33am
out standing ..
amjad qammar Jan 21, 2015 11:50am
بلوچ صاحب - کیاطاقت ہے آپ کے قلم میں - الفاظ کا انتخاب بھی خوب ہے مگر سب سے اہم یہ کہ حقائق سے پردہ اٹھانے کے لئے آپ الزامات کی بجائے تحقیق کا سہارا لیتے ہیں جو لائق تحسین ہے اور آپ کو دیگر لکھاریوں سے ممتاز کرتی ہے - میری معلومات کے مطابق پاکستان میں قا ئد اعظم اور فاطمہ جناح کے بارے میں علمی تحقیق کرنا نیشنل انٹرسٹ کے خلاف ہے -
عبدالغفار جمالي Jan 21, 2015 01:07pm
Amazing article, en hukmranoo ne to mulk ka satya naas kar dia hai
Hammad Nasir Jan 21, 2015 01:08pm
jnb 20 rupay ka nhe 20 paison ka likha hy! , @Azhar Ul Haq Naseem
Amna Jan 21, 2015 03:50pm
The mentioned amount is not 20 rupee it's only 20 paisa of that time..:) @Azhar Ul Haq Naseem
بیبگر بلوچ Jan 21, 2015 05:05pm
خاتون کا غسال مرد ہدایت علی عرف کلو غسال!! کیا یہ درست ہے کہ مسز فاطمہ پونجا جناح کو ایک مرد نے غسل دیا تھا، کیوں؟
Aamir Jan 21, 2015 06:04pm
@Rashid It was written twenty paisas and rupees.
Majid Khan Jan 21, 2015 11:11pm
فاطمہ جناح کو قتل کیا گیا ہے۔ اس خبر میں غسل دینے والوں کے بیانات بھی شائع ہوئے، جس میں ہدایت علی عرف کلو غسال نے یہ کہا تھا کہ ۔۔۔۔جو بھی ہوا سب ایک افسوس ناک بات ہے مگر ان سب باتوں میں یہ بات سمجھ سے باہر ہے کے اپ کا غسل دینے والا کا نام ایک مرد کا ہے جبکے غسل دینے میں عورت کا نام ہونا چاہے تھا کیا اس بات کا کوی جواب ہے یا کوی غلطی ہوی ہے نام لکھنے میں امید ہے اس سوال پر غور کریں۔
naghmana ali Jan 22, 2015 05:54am
Mera sawal ye hai k kya madar e millat KO ghusal mard ne diya tha?
sabir hussain Jan 22, 2015 03:03pm
اس ملک کے قیام کے بعد سے اس ملک کے اسٹیبلیشمنٹ نے اس ملک کے محسنوں اور معماروں اور حقیقت کہنے والوں کے ساتہ وہ سلوک کیا ہے جو دشمن ملک نے نہیں کیا ہے. پتہ نہیں اس ملک کے پالیسی ساز کس کےلئے یے کررہے ہیں.؟جتنا نقصان اس ملک کے پالیسی سازوں نے اس ملک کو دیا ہے اور دے رے ہیں اتنا تو کوئ دشمن سوچ بہی نہیں سکتا.
Dilawar Jan 22, 2015 06:32pm
@Azhar Ul Haq Naseem it's 20 paisas, not rupya.
Shakir Rizwan Jan 22, 2015 06:58pm
Bhai agar Allma Iqbaal Pakistan banne se pehlay apni tabai mout nhi marte tou on ko bhi dushman maar detay jaise quaid e azam ko liyaqat ali khan ko or mother of nation ko marr diya.....Allma Iqbaal Khoush Qismat thay....
Jaffer Abbas Mirza Jan 23, 2015 11:24am
Thank you Akhtar Baloch for revealing this important event . Your research and writing are brilliantly amazing. I urge you to write on Hakeem Saeed.
M Hamza Bin Tariq Jan 23, 2015 12:23pm
@Azhar Ul Haq Naseem بیس روپے نہیں بلکہ بیس پیسے قیمت درج ہے جو کہ ایک روپیہ کا پانچواں حصہ ہے. دوبارہ پڑهیں
الیاس انصاری Jun 17, 2015 04:21pm
بہت اچھا مضمون ہے - جب پہلی مرتبہ شائع ہوا تھا تب بھی پڑھا تھا اور آج بھی پورا مضمون دوبارہ پڑھا اور نیا محسوس ہوا تاہم تشنگی باقی رہی کیونکہ سوالات اٹھائے تو گئے لیکن جواب دینے یا تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی گئی - غسال کا نام بھی ذہن میں کھٹکتا رہا کیونکہ ہمارے یہاں خاتون کو مرد کے ذریعے غسل دینے کی روایت نہیں
SAMI Jun 17, 2015 04:46pm
ھدائت علی عرف کلو غسال نے غسل دیا تھا یہ بات سمجھ نہی آئی کیونکہ عورت کو ایک عورت ہی غسل دے سکتی ھے۔
Azhar Jun 17, 2015 05:34pm
be wafaa or khud garz qom apne leaders or muhsano k saath esaa hi kertee he........... Allah in ko samjh de...... wese meraa sawal he k kyaa kisee ORAT KO EK MARD GUSAL DE SAKTA HE?
Mashhood316 Jun 17, 2015 05:35pm
@مصطفیٰ مہاروی bilkul such kaha brother
Azhar Jun 17, 2015 05:50pm
where is qasr e fatima? being pakistani, we do not know who fatima jinnah was. some say she was memon some say she was khuwaja by caste. from religion point of view different views are there. can anyone let us know about the background of maadre millat????????
Ysfkam Jun 18, 2015 06:14am
was Fatima Jinnah Shia???
RANA ABDULLAH Jun 18, 2015 10:31am
1 women ka jnaza men kaisa prha sakta ha
waqar younas Jun 18, 2015 10:18pm
sir ap ne hukmrano ko tanqeed ka neshana banya h, es waqat es mulk ko azeem banae ke leye ak rasta h. ye qom pher se athe or en hukmrano se lare or es mulk man inqilab brpa kre. es sorat man en hukmrano se nijat hasal ho skti h warna ni. hm esi tra gulami ke zendagi basr krte rahe ge
Khadim Baltistani Jul 09, 2015 06:37pm
شکریہ معلوماتی کالم کا
adeel abbas Jul 09, 2015 06:51pm
Gerenal ayub k government Pakistan k barbadi ki government thi
muhammad haji Jul 09, 2015 07:07pm
nice info thank u
Nasim Raza Jul 09, 2015 08:45pm
Thank you so much for providing such a informative details about Mothrama Fatima Jinnah
Muhammad Ayub Khan Jul 09, 2015 08:55pm
kiyaa is sab key bawajood Ayub Khan qabil i izzat hey?
اقبال ابڙو Jul 09, 2015 09:26pm
نوٹ: محترمہ فاطمہ جناح کی تاریخِ وفات 9 جولائی 1967 ہے، جبکہ وفات کی خبر 11 جولائی کے اخبارات میں شائع ہوئی ہے۔ اس کی وجہ مصنف اختر بلوچ کے نزدیک یہ ہے کہ اس زمانے میں تیز رفتار مواصلات کی عدم موجودگی کے سبب اخبارات دوسرے شہروں تک دیر سے پہنچا کرتے تھے، جس کی وجہ سے اخبار کی لوح اور خبر میں موجود تاریخوں میں دو دن کا فرق ہے، لہٰذا خبر کے ساتھ لکھی گئی تاریخ کو ہی درست تصور کیا جائے۔ (ادارہ) ***** اس دور مين اخبار جنگ ايک تاريخ ايک دن پيشگي شايع هوتا تها اسي وجھ سي 9 جولائي والي خبر جو 10 جولائي کي اخبار مين هي شايع هوئي ليکن اس اخبار پر 11 جولائي لکها هوا تها يه تصديق کوئي بهي شخص اداره جنگ سي کر سکتا هئ
اقبال ابڙو Jul 09, 2015 09:31pm
نوٹ: محترمہ فاطمہ جناح کی تاریخِ وفات 9 جولائی 1967 ہے، جبکہ وفات کی خبر 11 جولائی کے اخبارات میں شائع ہوئی ہے۔ اس کی وجہ مصنف اختر بلوچ کے نزدیک یہ ہے کہ اس زمانے میں تیز رفتار مواصلات کی عدم موجودگی کے سبب اخبارات دوسرے شہروں تک دیر سے پہنچا کرتے تھے، جس کی وجہ سے اخبار کی لوح اور خبر میں موجود تاریخوں میں دو دن کا فرق ہے، لہٰذا خبر کے ساتھ لکھی گئی تاریخ کو ہی درست تصور کیا جائے۔ (ادارہ) يه خبر اخبار جنگ مين 10 جولائي کو هي شايع هوئي تهي ليکن اس دور مين اخبار جنک ايک دن آگي کي تاريخ درج کرتا تها اس بات کي تصديق آپ اداره جنگ سي بخوبي کر سکتي هين
انجم سلطان شہباز Jul 10, 2015 09:45am
کچھ گوشے تو کھولے ہیں کچھ معذوری رکھی ہے پتا نہیں کیا کچھ ہوجاتا ہے گدلے پانی میں جس کی مچھلیوں کو خبر تک نہیں ہوتی
Tahir Jul 10, 2015 01:13pm
Was that a man (not a woman) who gave GHUSAL to dead Fatima Jinnah????
Mubsher Ahmad Jul 10, 2015 01:28pm
برائے مہربانی یہ بتایا جائے کہ مادرِ ملت کو غسل کس نے دیا تھا آپ نے کسی ہدایت علی عرف کلو غسال کا نام لکھا ہے جو کسی مرد کا نام ہے
khushnood zehra Jul 10, 2015 03:01pm
بہت بہترین کام،تحقیقی صحافت
waqas Jul 10, 2015 05:17pm
@Mubsher Ahmad mere zehn me bhi yahi sawal uth raha hy, jawab chahiye
ayaz Jul 11, 2015 01:39pm
@Azhar Ul Haq Naseem 20 paisy likhy hain 20 rupy nh
Asghar Rizvi Jul 15, 2015 07:46am
Who will probe it? Rulers are not worried about it. And no "Suo moto" action seems to be taken in future. But Allah(j.s) will not let the culprits to escape on the "Day of Justice". (InshaAllah)
Asghar Rizvi Jul 15, 2015 07:48am
Who will probe it? Rulers are not worried about it. And no "Suo moto" action seems to be taken in future. But Allah(j.s) will not let the culprits to escape on the "Day of Justice". (InshaAllah)
یمین الاسلام زبیری Jul 09, 2017 10:54pm
وکیپیڈیا کے مطابق کچھ مقامی پولیس والوں کا بیان تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح کو ان کے ڈرائنگ روم میں سر قلم پایا گیا۔ مشہور بھارتی صحافی کلدیپ نائر اپنے مضمون ’ آرٹ آف کلنگ ود آوٹ اے ٹریس’ میں رقم طراز ہیں: محترمہ فاطمہ جناح کے اعزازی سیکریٹری۱۹۴۱ ۱۹۴۴، جناب شریف الدین پیرزادہ نے انکشاف کیا کہ محترمہ کو ان کے خانسامہ نے ۱۹۶۷ قتل کیا تھا۔’ واللہ اعالم بالصواب، دورغ بگردن راوی۔تمام تبصرہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ ان کی موت کی قیمت پوری قوم کو دینا پڑی۔
iftikhar Jul 09, 2018 05:28pm
Zabardast, shayed ye kabhi haqiqat ashkara ho......
iftikhar Jul 09, 2018 05:30pm
@Azhar Ul Haq Naseem wo 20 pesey hain rupey nahi
Emran Jul 09, 2018 06:17pm
We proud our Mother Mohtarma Fatima Jinnah.
یمین الاسلام زبیری Jul 09, 2018 07:19pm
جناب اختر بلوچ کا مضمون بار بار چھپنا بھی چاہیے۔ ایک بات میں ضرور عرض کروں گا کہ ان کے مضمون میں کہیں محترمہ کی مشرقی پاکستان میں مقبولیت کا ذکر بھی ہو جاتا تو اچھا ہوتا۔
Joe Jul 10, 2018 10:00am
Pakistan has been ruled by Illiterate people after Jinnah and Liaqat death Pakistan also lost Bangladesh after Jinnah death lets hope China take over Pakistan, because Pakistanis are NOT capable doing anything but depend on other nations
ابن انوار Jul 10, 2018 10:08am
@Azhar Ul Haq Naseem غور سے پڑھیئے، حضور! 20 پیسے لکھا ہے۔ 20 پیسے