شاہ عبداللہ کو ایک محتاط خراجِ تحسین

اپ ڈیٹ 24 جنوری 2015
ان کے پاس جتنی طاقت اور دولت تھی، اس سے صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا، اس سے کہیں زیادہ کر سکتے تھے — رائٹرز/فائل
ان کے پاس جتنی طاقت اور دولت تھی، اس سے صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا، اس سے کہیں زیادہ کر سکتے تھے — رائٹرز/فائل

میں نے نوے سال کی عمر میں وفات پا جانے والے سعودی عرب کے شاہ عبداللہ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا کام اپنے سر لیا ہے۔ لیکن براہِ مہربانی مجھے معاف کر دیجیے گا، کیونکہ میرا جذبہ شاہ کے 14 سالہ دورِ حکومت میں ان کی کارکردگی کے سامنے ماند پڑ رہا ہے۔

2005 میں تخت نشین ہونے پر شاہ عبداللہ کو ترقی اور اصلاحات پسند قرار دیا گیا تھا۔ کچھ اقدامات اٹھائے گئے تھے تاکہ مملکت کو ان سماجی معیارات تک لایا جاسکے، جن کی امید اکیسویں صدی کے ایک معاشی طور پر مستحکم ملک سے کی جاتی ہے۔

خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی۔ اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق رہتا ہے تو خواتین پہلی بار اپنے اس حق کو رواں سال استعمال کریں گی۔ ویسے تو موجودہ زمانے کو دیکھتے ہوئے یہ کوئی بہت غیر معمولی بات نہیں، لیکن انتہائی قدامت پسند سعودی نظام میں اس کا مطلب ہے کہ سعودی عرب اب مکمل طور پر مردانہ حاکمیت والی مملکت نہیں رہے گی۔

اس کے علاوہ انہوں نے زیادہ قدامت پسند شیخوں کے جذبات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایک بے مثال قدم اٹھایا: یعنی 12 ارب ڈالر کی لاگت سے ایک 'کو ایجوکیشن' یونیورسٹی کی تعمیر۔ یہ اور اس کے ساتھ ساتھ سعودی نوجوانوں کو بیرونِ ملک پڑھنے کے لیے بے تحاشہ اسکالر شپس دینا ان کے مثالی اقدامات کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔

ان کی حکومت نے غریب شہریوں کو رہائش فراہم کرنے کے لیے 130 ارب ڈالر خرچ کیے، جبکہ تنخواہوں میں بھی اضافہ کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے سینئر علما کو داعش کے خلاف زبردست قوت سے نہ بولنے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ سعودی حکومت کے کچھ سیاہ پہلو بھی شامل تھے، جنہیں میں ایسی دنیا میں بیان کرنے سے ڈرتا ہوں جہاں مرنے والے کی صرف تعریفیں اور خوبیاں بیان کی جاتی ہیں۔

پڑھیے: سعودی عرب میں ذلّت اور موت

حال ہی میں ٹوئٹر پر گردش کرنے والے ایک انفو گرافک میں سعودی عرب کی جانب سے دی جانے والی سزاؤں کا موازنہ داعش کی سزاؤں سے کیا گیا ہے۔ ان میں کوڑے، سنگساری، اعضا کاٹنا، اور سر قلم کرنا شامل ہیں، جبکہ یہ سزائیں گستاخی، ہم جنس پرستی، بہتان بازی، جنسی تعلقات، اور جادوگری جیسے 'جرائم' پر دی جاتی ہیں۔

حال ہی میں ایک سعودی بلاگر کو سعودی علما کی توہین کرنے پر 1000 کوڑوں کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ سعودی حکام کی جانب سے ایک چیختی عورت کا سر عوام کے سامنے قلم کیے جانے کی ویڈیو نے بھی کافی اشتعال پھیلایا۔

کچھ بہتریوں کے باوجود سعودی خواتین دوسرے درجے کی شہری کے طور پر رہتی ہیں، اور انہیں آزادی سے گھر سے باہر نکلنے کی بھی اجازت نہیں۔

سعودی عرب میں لادینیت بھی اب دہشتگردی کے زمرے میں آنے لگی ہے۔ سعودی عرب کے تارکینِ وطن اور مذہبی اقلیتیں اب مکمل طور پر امید کا دامن چھوڑ دینے کے قریب ہیں۔

عالمی سطح پر دیکھا جائے تو سعودی حکومت پر بار بار مذہبی انتہاپسندی کے بیج بونے کا الزام لگتا رہا ہے۔ اور اب مملکت 600 میل طویل دیوار تعمیر کر رہی ہے تاکہ داعش کو دور رکھا جاسکے۔

مزید پڑھیے: 'داعش سے بچاؤ کیلئے دیوار کی تعمیر'

خود شاہ عبداللہ کے گھر میں ایک تنازع تب کھڑا ہوا، جب ان کی دو بیٹیوں سحر اور جواہر نے ان پر الزام لگایا کہ شاہ نے اپنی سابقہ بیوی کو تکلیف پہنچانے کے لیے ان دونوں کو گھر میں قید کر رکھا ہے۔

شہزادی جواہر نے کہا کہ اگر وہ اپنے بچوں کے ساتھ ایسا کرتے ہیں، تو یہ سوچیں کہ باقی کے ملک میں کیا ہوتا ہوگا۔

جن مسائل کا میں نے ذکر کیا ہے، ان میں سے زیادہ تر کو انتظامی ناکامی قرار دیا جاسکتا ہے، جن کا شاید شاہ عبداللہ کی ذاتی شخصیت سے لینا دینا نہ ہو۔ لیکن یاد رکھیے کہ یہ جمہوریت نہیں ہے جہاں ریاست کے سربراہ کے جانب سے لائی جانے والی اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ بننے پر پارلیمنٹیرینز اور ججز وغیرہ کو برابر کا ذمہ دار قرار دیا جائے۔

بادشاہ کے پاس تو مطلق اختیار ہے، کوئی ان سے سوال نہیں کر سکتا۔

پڑھیے: مسلم دنیا میں عدم استحکام کا ذمہ دار سعودی عرب، وفاقی وزیر

ان کے پاس جتنی طاقت اور دولت تھی، اس سے صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا، اس سے کہیں زیادہ کر سکتے تھے۔

ہمیں امید ہے کہ شاہ عبداللہ کے جانشین شاہ سلمان سعودی پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے سیاسی طور پر غیر مستحکم ممالک میں بنیاد پرستی ایکسپورٹ کرنے کے بجائے اپنے گھر میں موجود مسائل پر توجہ دیں گے۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (10) بند ہیں

Khan Jan 24, 2015 10:01pm
I want to ask writer, these punishment which you try to mention are barbaric were also given in time of Prophet, you indirectly mean Islamic punishments are barbaric.
Usman Riaz Jan 25, 2015 04:00am
ڈاکٹر صاحب اسلامی قوانین اور ڈاکٹریت دونوں الگ الگ چیزیں ہیں، اگر آپ صر ف ہمیں گھسے پٹے طریقے سے یہ نالج دینے کی کوشش کریں گے تو یقین کیجئے اس کا کوئ فائدہ نہیں ہے۔ آپ اب داعش کی سزاوں کا مقابلہ سعودی سزاوں سے کر کے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ یہ سراسر ظلم ہے:( اور مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے آپ یہا ں پر موضوع سے سخت نا انسافی کر رہے ہیں۔ آپ اگر شاہ کو خراج تحسین ہی پیش کر دیتے تو بہت تھالیکن آپ نے تو اسلامک کریمنل لا کو بھی نشانہ تنقید بنا چھوڑا صرف ایک ٹویٹر پر گھومنے والی تصویر کو دیکھ کر۔ میری آپ سے درخواست ہے لکھیے ضرور مگر اُس میں حقائق کی چاشنی کم مت ہونے دیں وسلام!
sharminda Jan 25, 2015 05:10pm
Freedom of speech ;) Shukar hai Allah nay janwaron ko zaban nahin di.
aliA Jan 25, 2015 10:34pm
I think we should stop worring about other countries and focus on our domestic problems
یمین الاسلام زبیری Jan 26, 2015 02:54am
حقیقت ہے کہ سعودی شاہ، شاہ شطرنج ہیں، اور چال چلنے والا کوئی اور ہے۔ سعودیوں کی سخت سزائیں انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنے عوام پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے ہیں۔ جو لوگ اسلام کی بات کرتے ہیں انہیں اچھی طرح یاد رکھنا چاہیے: انمل عامال و بننیات۔ مزید یہ کہ جب یہ اپنی سزائوں میں داعش سے اتنے قریب ہیں تو پھر ان سے خوفزدہ کیوں ہیں۔ پھر یہ بادشاہ ہیں، تو کیا اسلام میں بادشاہت مقبول ہے۔ جب یہ رسول ص کے زمانے کی سزائیں دے رہے ہیں تو ان کے اور ان کے خلفہ کے بر خلاف اپنا جا نشین مقرر کر کے کیوں جاتے ہیں؟
Khan Jan 26, 2015 11:55am
@یمین الاسلام زبیری No doubt kingdom is not an Islamic system that is bad, for that Writer should have criticized but writer criticizing for implementing Islamic Punishments. You should not forget the same punishment at time of Prophet were given, there is nothing wrong to punishments, if we are Muslims we have to accept these without if and but.
imran Jan 26, 2015 12:05pm
Honestly speaking I am not a supporter of King's rule in KSA, however criticizing punishments which are agreed upon among all the Muslim sects is not wise and fair. If you are living in KSA you'd feel the difference which is the result of these punishments. I don't fear anyone to put a gun on my head to rob me. I don't fear stealing of my car. If I don't commit a crime I am sure I don't need to be afraid of police or anything until I am aware of the law of the land and obeying it. I love peacefulness of this country. and for peace if you need to sacrifice some of the freedom of yours I thin it is worth. I hope you I am understood
humera Jan 26, 2015 05:58pm
islami sazaon pe tanqeed roshan khayali ki daleel nahin hai dr sahab.aur second yeh k khawateen ko ek had mein reh kar hi azadi milni chahiye.
یمین الاسلام زبیری Jan 27, 2015 02:21am
@Khan خان صاحب بات وہی آجاتی ہے کہ اسلامی سزائیں کوئی کیوں دے رہا ہے۔ ہر وہ سزا غیر اسلامی ہوجاتی ہے جس میں انصاف کی نیت نہ ہو۔ اور ہر وہ سزا، چاہے وہ کوئی غیر اسلامی حکومت ہی کیوں نہ دے رہی ہو، اسلامی ہوجاتی ہے اگر اس کا مقصد انصاف مہیا کرنا ہے۔ نہ تو سعودی حکومت اسلامی حکومت ہے نہ ہی اس کی سزائی انصاف کی حجت کو پورا کرنے کےلیے ہیں۔ محض نعرہ لگا دینا کہ اسلامی سزائیں اچھی ہیں تو کوئی بات نہیں ہوئی۔ ہمارے کاموں کا دارومدار ہماری نیتوں پر ہے۔
Khan Jan 27, 2015 10:09pm
@یمین الاسلام زبیری aap ne kaha keh ghair Islami hakoomatain agar insaaf k leay saza dain to wo Islami ho jati hain, . No way, aik ghair Muslim chahe jo bhi kar le He is worst than the worst muslim. aur niyato kaa Haal Allah janta hay, kaun kis neat se deta hay. Aur aap apni desire batain, aap kia chahte, Saudi Arab yeh sazain khatam kar daey.