ورلڈ کپ 2011، آفریدی کی شاندار قائدانہ کارکردگی

اپ ڈیٹ 24 جنوری 2015
آفریدی 21 وکٹوں کے ساتھ ظہیر خان کے ہمراہ سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلر قرار پائے۔ فائل فوٹو اے ایف پی
آفریدی 21 وکٹوں کے ساتھ ظہیر خان کے ہمراہ سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلر قرار پائے۔ فائل فوٹو اے ایف پی

ورلڈ کپ 2011 میں پاکستانی ٹیم کی قیادت کے لیے آل راؤنڈ شاہد آفریدی کا انتخاب کیا گیا اور امید کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے بلے سے جاندار کارکردگی کی بدولت شائقین سے دل موہ لیں گے لیکن اس کے بجائے انہوں نے گیند سے شاندار پرفارمنس کے ذریعے اپنی ٹیم کی قیادت کی۔

آفریدی نے ایونٹ کے آٹھ میچوں میں 21 وکٹیں حاصل کیں اور ظہیر خان کے ساتھ ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلر قرار پائے۔

پسِ منظر

ورلڈ کپ 2011 میں جانے سے قبل پاکستان کی تیاریاں بہترین نہ تھیں اور وسیم اکرم، وقار یونس اور حتیٰ کہ شاہد آفریدی نے بھی تحفظات کا اظہار کیا جبکہ آفریدی کی قیادت پر سوالات اٹھائے جا رہے تھے۔

پاکستان کرکٹ کی غیر مستقل مزاجی اور غیر متوقع کارکردگی پر ایک دفعہ پھر سب کو خدشات تھے لیکن ٹیم نے 2010 کے متعدد بحرانوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے توقع سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور ٹورنامنٹ کی مضبوط ٹیم کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ گروپ اسٹیج میں شاندار کارکردگی نے گرین شرٹس اعتماد بخشا اور وہ ایک بار پھر ورلڈ کپ جیتنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی دینے لگا۔

یادگار لمحات

پاکستان کے کینیا کے خلاف اپنے افتتاحی میچ میں آفریدی نے 16 رنز کے عوض پانچ وکٹیں لے کر ٹیم کی 205 رنز کی فتح میں مرکزی کردار ادا کیا، آفریدی نے ناصرف عالمی کپ کے کسی میچ میں پہلی مرتبہ پانچ وکٹیں لینے کا کارنامہ انجام دیا بلکہ ساتھ ساتھ ورلڈ کپ میں کسی بھی پاکستانی باؤلر کی بہترین باؤلنگ کا اعزاز بھی اپنے نام کر لیا۔

آفریدی نے میچ کے بعد گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس طرح ہم نے پریکٹس کی ہم فوکس اور مثبت سوچ کے ساتھ میدان میں اترے اور کھیل میں بہترین کارکردگی دکھائی۔ یقیناً اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم ایک خطرناک ٹیم ہیں۔ یہ ایک اچھا آغاز ہے لیکن ہمیں سو فیصد مطمئن نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ابھی ہمیں آگے بہت کام کرنا ہے۔

لیکن اس ایک کارکردگی نے آئندہ میچز میں بہتری کارکردگی کی بنیاد رکھی جہاں سری لنکا کے خلاف اگلے ہی میچ میں آفریدی نے چار وکٹیں حاصل کیں اور ایک روزہ کرکٹ میں اپنی 300وکٹیں مکمل کر لیں۔اہم مواقعوں پر لی گئی ان وکٹوں کی بدولت پاکستان نے میچ میں گیارہ رنز سے کامیابی حاصل کی اور آفریدی نے سیزن میں اپنا پہلا مین آف دی میچ کا اعزاز حاصل کیا۔

آفریدی یہیں نہیں رکے بلکہ دو میچوں میں نو وکٹیہں لینے کے بعد انہوں نے کینیڈا کے خلاف اگلے میچ میں دوبارہ پانچ وکٹیں حاصل کیں اور ورلڈ کپ کی تاریخ میں لگاتار تین میچوں میں چار یا اس سے زائد وکٹیں لینے والے دنیا کے پہلے کھلاڑی بن گئے۔

قومی ٹیم کے سابق کپتان وسیم اکرم نے کہا کہ میں مستقل آفریدی سے بات کررہا تھا اور اسی وجہ سے میں خود کو ٹیم کے بہت قریب محسوس کرتا تھا، آفریدی بہت دلچسپی لے رہے تھے اور ٹیم میں بھی کارکردگی دکھانے کا جذبہ موجود تھا۔

ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کے کپتان نے گروپ اسٹیج کے بقیہ تین میچوں میں ایک ایک وکٹیں حاصل کیں اور پاکستان نے گروپ اے میں سری لنکا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ پر سبقت لے جاتے ہوئے پہلے نمبر پر رہا۔

ان کی یہ شاندار فارم اس وقت اختتام پذیر ہوئی جب اس کی سب سے زیادہ اہمیت تھی۔ آفریدی نے ویسٹ انڈیز کے خلاف کوارٹر فائنل میں مزید چار وکٹیں حاصل کیں اور پاکستان نے ویسٹ انڈیز کو یکطرفہ مقابلے میں شکست دے کر سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کر لیا جہاں فائنل تک رسائی کے لیے اس کا مقابلہ روایتی حریف ہندوستان سے ہوا۔

پھر کیا ہوا

آفریدی بلے سے پورے ٹورنامنٹ میں خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکے لیکن اپنی گیند بازی سے انہوں نے پاکستان کو سیمی فائنل میں پہنچانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔

ہندوستان کے خلاف مقابلے میں وہ کوئی وکٹ نہ لے سکے جبکہ بیٹنگ میں بھی ان کی اننگ صرف 19 رنز تک محدود رہی اور پاکستان کو ایونٹ میں اپنے سب اہم مقابلے میں ہندوستان کے ہاتھوں 29 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

آفریدی 21 وکٹوں کے ساتھ ظہیر خان کے ہمراہ ایونٹ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلر قرار پائے لیکن انہوں نے ظہیر خان سے ایک میچ کم کھیلا اور 12.85 کی شاندار اوسط کی بدولت وہ ایونٹ کے سب سے کامیاب باؤلر رہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں